سُلیمان اریب

 

دوسری  قسط
یاد رفتگان

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
ارؔیب کو اپنے اطراف نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو جمع کرنے کا بڑا خاص ملکہ تھا ۔اریب ہی نے انہیں سب سے پہلے ’’صبا‘‘ میں چھاپا۔ غالباً1961  ء میں میں نے موت کے موضوع پر چند کہانیاں لکھی تھیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے لکھنا شروع ہی کیا تھا ۔ ان کہانیوں کی اطلاع کسی طرح اریب تک پہنچ گئی ۔ ایک دن میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’سنا ہے کہ تم نے موت کے موضوع پر چند کہانیاں لکھی ہیں وہ کہانیاں پہلے ’صبا‘ کو دے دو ‘‘۔ میں نے کہا ’’اریب صاحب یہ کہانیاں بالکل رف حالت میں میرے پاس ہیں اور پھر یہ اتنی طویل ہیں کہ انہیں اب انہیں فیر کرنا مجھ سے ممکن نہیں ہے‘‘۔
اریب نے زبردستی مجھ سے ایک کہانی کا مسودہ لیا اور کہا تم فکر نہ کرو میں اسے فیر کرلوں گا ۔ وہ کئی دن تک اس مسودہ کو فیر کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر میری ہینڈ رائٹنگ کچھ ایسی ہے کہ بعض اوقات مجھے بھی اپنی تحریر کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ لہذا اریب چند دنوں بعد میرے پاس آئے تو ان کے ساتھ میری کہانی کا مسودہ تھا اور اس کے ساتھ چند کاغذات بھی تھے جن پر اریب نے میری کہانی خود اپنے ہاتھ سے فیر کی تھی ۔ کہنے لگے ’’تمہاری ہینڈ رائٹنگ اتنی خراب ہے کہ بڑی مشکل سے چند صفحات ہی فیر کرسکا ہوں اور وہ بھی نامکمل ۔ اب بتاؤ میں کیا کروں‘‘؟
میں نے کہا ’’اریب صاحب! میری ہینڈ رائٹنگ کو پڑھنے کیلئے آدمی کا بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے‘‘۔
اریب نے کہا ’’لیکن میرا خیال ہے کہ تمہاری جیسی ہینڈ رائٹنگ لکھنے کیلئے آدمی کا پڑھا لکھا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے‘‘۔
پھر مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں اسے فیر کر کے دے دوں۔ اسی اثناء میں میں نے مزاح نگاری کے میدان کو اپنایا اور وہ کہانیاں جوں کی توں پڑی رہیں۔ جب بھی اریب ملتے یہ ضرور پوچھتے کہ میں نے ان کہانیوں کا کیا کیا۔
میں ان سے کہتا ’’اریب صاحب ، اب ان کہانیوں کو چھوڑیئے ۔ میں نے مزاح لکھنا شروع کردیا ہے ۔ میں نے موت کے موضوع پر یہ کہانیاں لکھی تھیں اور اب چاہتا ہوں کہ یہ کہانیاں میری موت کے بعد ’صبا‘ میں چھیں‘‘۔ اس پر اریب کہتے ’’خیر ٹھیک ہے ، میں تمہاری موت کا انتظار کرلوں گا ۔ ابھی تو میں کافی جوان ہوں‘‘۔
لیکن مزاح کے میدان میں بھی اریب نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔ چنانچہ میرا پہلا مزاحیہ مضمون سب سے پہلے64 میں ’صبا‘ ہی میں چھپا۔
نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی ہمت افزائی میں وہ اس قدر آگے نکل جاتے تھے کہ بعد کو نوجوان ادیب خود ان سے بھی آگے نکل جانے کی کوشش کرنے لگ جاتے تھے ۔ اریب کے ساتھ بے شمار بیٹھکیں ہوئیں۔ جب وہ ساری دنیا کو انگور کا پانی دینے کے موڈ میں ہوتے تو آپ اپنے کو یوں سمجھتے جیسے غالب کے بعد اگر اردو شاعری نے کوئی بڑا شاعر پیدا کیا ہے تو وہ خود ہیں۔ اس وقت وہ گردن اٹھاکر دنیا کی طرف یوں دیکھتے جیسے وہ ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھ گئے ہوں ۔ اسی موڈ میں اریب کی اپنے ساتھیوں سے ان بن ہوجایا کرتی تھی ۔ دوستوں سے خوب لڑتے ، جھگڑتے مگر دوسرے دن آتے تو یوں معلوم ہوتا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ دوستوں سے یہ تک نہ پوچھتے کہ انہوں نے رات میں کس کس سے کیا کیا کہا تھا اور خود ہی اپنی باتوں پر ہنستے تھے۔
پھر اریب ایک دن اچانک بیمار ہوگئے ۔ کسی نے بتایا کہ اُن کی آواز بیٹھ گئی ہے ۔ ان دنوں ادب میں ترسیل کے مسئلہ پر رسالوں میں بڑی بحث چل رہی تھی ۔ ایک دن اریب سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ’’اریب صاحب آپ تو سچ مچ ترسیل کا مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں جب سے آپ کی آواز بیٹھ گئی ہے آپ کو ترسیل کا مسئلہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آرہا ہوگا‘‘۔

اریب نے بیٹھی ہوئی آواز میں ہنسنے کی کوشش کی لیکن ان کی آنکھوں نے بڑا زوردار قہقہہ لگایا ۔ اریب کے ہونٹ کم مسکراتے تھے اور ان کی آنکھیں زیادہ مسکراتی تھیں۔ پھر چند دن بعد ملے تو ان کے گلے میں پلاسٹک کا ایک خول چڑھا ہوا تھا ۔ میں نے پوچھا ’’یہ کیا ہے؟ ‘‘
کہنے لگے’’ صفیہ نے گلے میں پٹہ باندھ دیا ہے‘‘ ۔
میں نے کہا ’’اریب صاحب ! آپ تو ہمیشہ پٹے تڑاتے رہے ہیں۔ اس پٹے کی کیا اہمیت ہے‘‘۔
بولے ’’مگر کسی کسی پٹہ کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ‘‘۔ اریب نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ان کی زندگی کا پٹہ ٹوٹنے لگا تھا ۔پھر چند دن بعد یہ اطلاع ملی کہ اریب کو کینسر ہوگیا  اور ہم سب لوگ اریب کو وداع کرنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ میں ان کے پاس جلد جلد جانے لگا ۔ موت اریب کے بہت قریب آگئی تھی مگر اریب پھر بھی موت سے بہت دور تھے ۔ وہ ہمیشہ یوں ہی مسکراتے جیسے پہلے مسکرایا کرتے تھے۔ اریب کی مسکراہٹ کینسر کی زد سے بہت پرے تھی ۔ کینسر نے اریب کو تو زیر کرلیا تھا لیکن وہ ان کی مسکراہٹ پر کوئی کمند نہیں پھینک سکا تھا۔
اسی اثناء میں مخدوم بھی چل بسے۔ مخدوم کے جنازہ میں بھی میں نے اریب کے چہرہ پر مسکراہٹ دیکھی ۔ جیسے وہ جانتے تھے کہ انہیں مخدوم کی موت پر آنسو نہیں بہانا ہے کیونکہ مخدوم سے ان کی جدائی بہت عارضی ہے ۔ صرف چند دنوں چند مہینوں کی بات ، اسی لئے انہوں نے دوسروں کو دل کھول کر رونے کا موقع دیا اور خود ہنستے رہے ۔ مخدوم کے جلسہ تعز یت میں اریب نے ایک مضمون پڑھا اور اس مضمون کے ردعمل کے طور پر ان پر انڈے بھی پھینکے گئے ۔ اس واقعہ کے بعد اریب کے جذبات کافی تلخ ہوگئے تھے اور دو ستوں کیلئے بھی ان کے رویہ میں تبدیلی آگئی تھی ۔ ایک دن عابد روڈ پر نظر  آئے تو مجھے دیکھ کر انجان بن گئے ۔ مجھے یوں لگا جیسے اریب اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان پر انڈے میں نے ہی پھینکے تھے ۔ میں نے بھی انہیں چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ اسی اثناء میں اسد اللہ برلن سے آگئے اور ایک دن مجھ سے کہنے لگے ’’چلو آج کی شام اریب کے ساتھ گزاریں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’بات دراصل یہ ہے کہ اریب مجھ سے کھنچے کھنچے نظر آتے ہیں ، جانے کیا بات ہے ۔ جانا ہو تو آپ چلے جائیں ۔ وہ بیمار بھی ہیں اسی لئے میں ان کی بیماری کو مزید تلخ نہیں بنانا چاہتا‘‘۔ مگر اسد اللہ نہ مانے ، اریب کو فون کیا اور ہم تینوں ایک ’’بار ‘‘ میں بیٹھ گئے ۔ اریب تب بھی مجھ سے کھنچے ہوئے نظر آئے مگر اچانک انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ’’بھئی تم تو ہماری محفلوں میں کاجو کھانے پر اکتفا کرتے ہو، آج جی بھر کر کاجو کھالینا ۔ لیکن اگر انگور کا پانی مجھ پر اثر کرے تو میری بات کا اثر نہ لینا‘‘۔

میں نے مسکرا کر پلیٹ میں سے کاجو اٹھاکر منہ میں ڈال لیا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس محفل میں کوئی گفتگو ایسی نکلے جس سے اریب کو تکلیف پہنچے ۔ مگر اریب نے دو پیگ کے بعد ہی تلخ بحث چھیڑدی ۔ اریب کہنے لگے ’’مجھ پر پرسوں جو انڈے پھینکے گئے کیا تم اس کو درست سمجھتے ہو؟‘‘۔  میں نے بھی تڑاخ سے کہہ دیا۔’’اریب صاحب انڈے پھینکنے کی بات کو درست یا نادرست سمجھنا ایک الگ بات ہے لیکن کیا یہ درست بات ہے کہ آپ مجھے بھی انڈے پھینکنے والوں میں شامل سمجھیں؟ ‘‘
میرا جملہ سنتے ہی اریب جھومتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھے ، مجھے گلے سے لگالیا ۔ پھر ٹیبل کے نیچے سے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیہ نکال کر مجھے سے قلم مانگا اور سگریٹ کی ڈبیہ پھاڑ کر لکھنے لگے ۔
’’ حسینؔ (فرزند اریب) کی قسم ، صفیہ کی قسم میں نے کبھی ایسا نہیں سمجھا ۔ میں تمہیں بہت بڑا مزاح نگار سمجھتا ہوں ۔ تم رشید احمد صدیقی اور پطرس کا تسلسل ہو‘‘۔
پھر اسی کاغذ کے دوسرے رخ پر لکھنے لگے۔
’’حسین کی قسم مخدوم سے مجھے بے حد پیار ہے ۔ میں مخدوم کے خلاف کچھ لکھ ہی نہیں سکتا‘‘۔
پھر اس کاغذ کو میرے حوالے کر کے کہنے لگے ’’لو اس کاغذ کو اپنے پاس دستاویزی ثبوت کے طور پر محفوظ رکھو‘‘۔
میں نے کہا ’’اریب صاحب ! آپ نے کہہ دیا یہ بہت کافی ہے ، دستاویزی ثبوت لے کر کیا کروں‘‘؟
بولے ’’دنیا دستاویزی ثبوت کے بغیر کسی سچائی کو قبول نہیں کرتی‘‘۔
پھر کوئی نزاعی بات نکلی تو اریب پھر اٹھ کر برابر کی ٹیبل کے نیچے سے سگریٹ کی ڈبیہ تلاش کرنے لگے ۔ اسد اللہ اور میں انہیں روکتے رہے۔ مگر اس دن انہوں نے اس ’’بار‘‘ میں ایک بھی خالی ڈبیہ پڑی نہ رہنے دی۔ بات بات پر دستاویزی ثبوت تقسیم کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ میں نے بیرے سے کہا کہ ’’بار میں سگریٹ کی جتنی بھی خالی ڈبیاں پڑی ہوئی ہیں انہیں فوراً وہاں سے ہٹادو‘‘۔ بیرے نے کہا ’’اب میں کیا ہٹاؤں ساری ڈبیاں تو آپ کے ساتھی نے اُٹھالی ہیں۔‘‘

اس دن کے بعد میں نے اریب کو پھر کسی بار میں نہیں دیکھا ۔ پھر وہ اسپتال میں داخل ہوگئے ۔ موت آہستہ آہستہ ان کی جانب بڑھنے لگی ۔اریب موت کے قدموں کی آہٹ سے بے نیاز جاتی ہوئی زندگی کے قدموں کی چاپ سنتے رہے ۔ میں اکثر ان سے ملنے اسپتال چلا جاتا ۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کو دیکھ کر میری آنکھ میں آنسو آجاتے۔
غالباً 28 اگست 1970 ء کو میں،کرشن چندر اور ڈاکٹر راج بہادر گوڑ مل کر اریب کو دیکھنے اسپتال گئے۔ اریب کے سیدھے ہاتھ پر زخم آگیا تھا اور اسی دن اسپتال میں اس کا آپریشن ہوا تھا ۔ اریب پر نیم بے ہوشی کی سی کیفیت طاری تھی ۔ وہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ کرشن چندر کے قدموں کی آہٹ سن کر انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ پھر سمندر کی ا یک لہر کی طرح اریب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس وقت اریب بات نہیں کرسکتے تھے صرف مسکرا سکتے تھے ۔ انہوں نے غالباً یہ محسوس کیا کہ ان کے بات نہ کرنے سے کرشن چندر خفا ہوجائیں گے ۔ اسی لئے انہوں نے بات نہ کرنے کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے لئے اپنے بائیں بازو سے کپڑا ہٹایا اور اپنا گہرا زخم دستاویزی ثبوت کے طور پر کرشن چندر کو دکھادیا ۔ کرشن چندر کی آنکھوں میں اچانک آنسو آگئے مگر وہ ضبط کرتے رہے ۔ کرشن چندر نے کہا ’’اریب یہ تمہیں کیا ہوگیا ۔ ارے بھئی یہ تو ہمارے مرنے کے دن ہیں۔ تم ہم سے بھلا آگے کیسے جاسکتے ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ‘‘۔ کرشن چندر کا یہ جملہ سن کر اریب کی مسکراہٹ کے سمندر میں ایک طوفان سا اُٹھ گیا اور اس طوفان میں ہم سب بہہ گئے ۔اریب کے زخم کو وہ برداشت کر گئے تھے لیکن اریب کی مسکراہٹ کو برداشت کرنے کی ان میں سکت نہیں تھی ۔ وہ فوراً باہر نکل آئے اور دروازے کے سامنے ہی اچانک بیٹھ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اور میں نے انہیں فوراً تھام لیا ۔ اس وقت تو ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اریب کو سنبھالتے ۔ کیو نکہ اریب کمرہ کے اندر اکیلئے رہ گئے تھے ۔ لیکن مشکل تو یہی تھی کہ اریب کا کرب خود ا ریب تو بڑی آسانی سے سنبھال لیتے تھے لیکن ان کا کرب کوئی دوسرا آدمی برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔ کرشن چندر کو برابر کے کمرہ میں لٹایا گیا اور فو راً ڈاکٹر کو طلب کیا گیا تاکہ وہ کرشن چندر کا معائنہ کرسکے۔
اب موت اریب کے بالکل قریب آگئی تھی۔ میں ہر روز صبح میں اخبار اٹھاکر سب سے پہلے اریب کی تصویر تلاش کرتا اور جب مجھے یہ تصویر نہ ملتی تو میں حیران سا رہ جاتا۔ اسی اثناء میں میرے مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’قطع کلام‘‘ شائع ہوگیا ۔ مجھے معلوم تھا کہ اریب اس کتاب کو کبھی نہ پڑھ سکیں گے لیکن مجھے انہیں اپنی کتاب دینے کی بڑی جلدی تھی ۔ 6 ستمبر کی رات کو میں اپنی کتاب دینے کیلئے اریب کے پاس گیا۔ ان کی زندگی میں اب صرف چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ مجھے بڑی نقاہت سے دیکھا ۔ آنکھوں آنکھوں میں کتاب کے لئے شکریہ ادا کیا ۔ پھر اشارہ سے بتایا کہ وہ کچھ پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ۔ مجھے اشارہ کیا کہ میں کتاب کو کھولوں ۔ میں نے کتاب کا پہلا ورق پلٹا۔ ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کیا لکھا ہے؟

میں نے زور سے کہا ’’اریب صاحب ! یہ میری کتاب کا ’ پس و پیش لفظ‘‘ ہے ۔ سب لوگ ’’پیش لفظ‘‘ لکھتے ہیں مگر میں نے ’پس و پیش لفظ‘ لکھا ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی اریب کے کمزور نحیف اور خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ بڑی دور تک پھیل گئی۔ اتنی دور تک کہ جب مسکراہٹ ختم ہوگئی تو اریب کو اپنے ہونٹ پھر اپنی جگہ پر لانے میں بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ پھیلی ہوئی مسکراہٹ اب پھر کبھی واپس نہ ہوگی ۔ جیسے یہ مسکراہٹ سمندر کی لہر بن کر ایک انجانے سفر پر روانہ ہوگئی ہے ۔ اریب کی یہ مسکراہٹ میرے دل میں ایک خنجر کی طرح اُتر گئی ۔ میں چپ چاپ اس خنجر کو اپنے دل میں چھپائے اور اریب کے ہونٹوں پر اپنی دی ہوئی مسکراہٹ کو جوں کا توں چھوڑ کر کمرہ سے باہر نکل آیا اور اس کے چند گھنٹوں بعد اریب اس دنیا سے چلے گئے۔ میں نے اریب کو غالباً اس دنیا کی آخری مسکراہٹ دی تھی اور یہ آخری مسکراہٹ ابھی تک میری آنکھوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اریب کے ہونٹوں سے یہ آخری مسکراہٹ چھین لوں اور اریب سے کہوں :
’’اریب صاحب! میری دی ہوئی مسکراہٹ مجھے واپس کردیجئے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ میں آپ کو مسکراہٹ عطا کروں اور آپ میرے سینے میں خنجر اتاردیں‘‘۔ میں سچ مچ اریب سے یہ آخری مسکراہٹ چھین لینا چاہتا ہوں ۔ کیونکہ اریب کی زندگی کی غالباً یہ پہلی اور آخری مسکراہٹ تھی جس میں اریب کی زندگی کا سارا درد اور سارا کرب سمٹ آیا تھا ۔ مجھے یوں معلوم ہوا تھا جیسے اریب کے ہونٹوں سے ان کی آنکھیں ٹپا ٹپ ٹپکنے لگی ہیں اور زندگی قطرہ قطرہ بن کر خشک ہونے لگی ہے۔  (1970)