رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی اور اس کی قیادت کا دماغ جیسے آسمان پر ہے اور وہ حقائق کو تسلیم کرنے تیار نہیں۔ بعض ریاستوں میں کامیابی کے بعد خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے والی بی جے پی جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کے نتائج کے حقائق کو قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ ناقص مظاہرہ اور شکست کو بھی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نریندر مودی لہر اور ہندوتوا ایجنڈہ کے ساتھ تمام ریاستوں میں اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کو جموں و کشمیر کے نتائج ہضم نہیں ہوپارہے ہیں۔ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور سنگھ پریوار کی پروپگنڈہ مشنری کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جموں و کشمیر پر بی جے پی کا قبضہ ہوچکا ہے۔ پروپگنڈہ مہم کے ذریعہ نفسیاتی طور پر احساس برتری پیدا کرنے کی کوششوں کے حصہ کے طور پر عوام میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں تشکیل حکومت کے ذریعہ بی جے پی نئی تاریخ رقم کرے گی۔ قومی میڈیا اور سنگھ پریوار کی پروپگنڈہ مشنری کسی بھی صورت میں بی جے پی کو کشمیر میں برسر اقتدار دیکھنے بے چین ہیں۔ جس طرح مہاراشٹرا میں شیوسینا کے ساتھ مخلوط حکومت ہے، اسی طرح کشمیر کی کسی جماعت کو اتحاد کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔
جہاں تک مودی لہر اور بہتر حکمرانی کا تعلق ہے، اگر واقعی اس کا اثر ہوتا تو مہاراشٹرا میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہوتی اور تشکیل حکومت کیلئے شیوسینا کی تائید کی ضرورت نہ پڑتی۔ جہاں تک جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر کے نتائج کا سوال ہے ، دونوں ریاستوں کے رائے دہندوں نے بی جے پی کے ساتھ جداگانہ سلوک کیا ہے۔ نریندر مودی کی طوفانی مہم کے باوجود جھارکھنڈ میں بی جے پی کو اپنی حلیف جماعت پر انحصار کرنا پڑا ہے جبکہ جموں و کشمیر میں مشن 44+ ناکام ہوگیا۔ بی جے پی جارحانہ فرقہ پرستی پر مبنی ایجنڈہ اور ہندوؤں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے باوجود اکثریت تو درکنار ، واحد بڑی پارٹی کا موقف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی اور وزیراعظم کو انتخابی مہم میں جھونکنے کے باوجود بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ صرف جموں میں اسے نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ وادی کشمیر اور لداخ میں رائے دہندوں نے یکسر مسترد کردیا۔ دونوں علاقوں میں اسے ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی اور عملاً صفایا ہوگیا۔ جس طرح ’’سوچھ بھارت‘‘ کے نام پر نریندر مودی ملک بھر میں صفائی کی مہم چلا رہے ہیں، اسی طرح وادی اور لداخ کے رائے دہندوں نے ’’سوچھ بی جے پی‘‘ کا کام انجام دیا۔87 رکنی اسمبلی میں 50 حلقوں پر محیط دونوں علاقوں میں بی جے پی اپنے وجود کا احساس دلانے میں ناکامی کے باوجود اسے کامیابی سے تعبیر کرنا اور تشکیل حکومت کی ڈرامہ بازی محض احساس کمتری کو برتری میں تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ جس ریاست کے تین علاقوں میں دو علاقوں میں ایک بھی نشست تو کیا ، بی جے پی کے بیشتر امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے ، وہ کس طرح تینوں علاقوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرسکتی ہے؟ لداخ لوک سبھا نشست پر بی جے پی کا قبضہ ہے پھر بھی ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) جس نے دو علاقوں میں بہتر مظاہرہ کے ذریعہ واحد بڑی جماعت کا موقف حاصل کیا۔ اصولی طور پر تشکیل حکومت کا دعویٰ کرنے کی وہی حقدار ہے۔ ملک کا دستور بھی یہی کہتا ہے لیکن شکست سے بوکھلاہٹ کا شکار بی جے پی تشکیل حکومت کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے تاکہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست پر اقتدار اور ہندو چیف منسٹر کا دیرینہ خواب پورا کرسکے۔ کشمیر میں تشکیل حکومت کے مشن کے تحت بی جے پی نے اپنے قومی ایجنڈہ سے انحراف کرتے ہوئے دفعہ 370 کی تنسیخ کو انتخابی ایجنڈہ سے دور رکھا ۔ وادی کے مسلمانوں کا دل جیتنے کیلئے وہاں 25 مسلم امیدوار میدان میں اتارے جبکہ جموں میں 7 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ۔ مجموعی طور پر بی جے پی کے 40 فیصد امیدوار مسلمان تھے لیکن جموں ریجن میں صرف ایک مسلم امیدوار کو کامیابی ملی جو جموں و کشمیر اسمبلی کی تاریخ میں بی جے پی کا پہلا مسلم رکن ہوگا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی کا مشن 44+ صرف 50 فیصد پر تھم گیا۔ تشکیل حکومت کے سلسلہ میں جموں و کشمیر میں جو بھی تعطل ہے، اس کی اہم وجہ نظریاتی سیاست کی کمی ہے۔ پی ڈی پی ہو کہ نیشنل کانفرنس وہ نظریاتی سیاست کے بجائے مفادات کو ترجیح دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اقتدار کیلئے کوئی بھی کسی کے ساتھ جاسکتا ہے لیکن کوئی بھی پارٹی اگر بی جے پی سے مفاہمت کرتی ہے تو حکومت تو تشکیل پاجائے گی لیکن اس کے استحکام کی کوئی گیارنٹی نہیں ہوگی۔ اگر کشمیری جماعتوں کو سیاسی مفادات کی فکر نہ ہو تو کانگریس کے بشمول تینوں پارٹیاں واحد بڑی پارٹی کو آگے کر کے اس کی تائید کرسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن سنگھ کے قیام سے لیکر آج تک فرقہ پرست پارٹی نے جموں و کشمیر میں اس قدر زائد نشستیں حاصل نہیں کی جو اب حاصل ہوئیں
لیکن قائدین کی ذہنیت اس وقت آشکار ہوگئی جب آر ایس ایس سے بی جے پی میں قدم رکھنے والے رام مادھو نے اس کامیابی کو جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکرجی سے معنون کیا۔ دراصل کامیابی کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کی کوشش شکست کی بوکھلاہٹ کو خوشی اور مایوسی کو امید میں بدلنے کی کوشش ہے۔ حالیہ عرصہ میں چند ریاستوں میں اقتدار کے باوجود ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست، فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ اکثریت نہ ملنے کے باوجود کشمیری مسلمانوں پر حکمرانی کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار تڑپ رہے ہیں۔ واحد مسلم اکثریتی ریاست کے اقتدار پر قبضہ کے پس پردہ جارحانہ فرقہ پرست ذہنیت کارفرما ہے۔ انہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ کشمیری مسلمانوں کا ہندوستان پر احسان ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند کے نازک اور جذباتی لمحات میں ہندوستان کو اپنے وطن کے طور پر اختیار کیا ۔ وہ پاکستان کے ساتھ نہیں گئے بلکہ مادر ہند کو اپنا وطن اپناتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ ساری قوم کو کشمیری مسلمانوں کے اس جذبہ کی قدر کرنی چاہئے۔ جب کبھی سرحد پر پاکستان کی جانب سے شر انگیزی کی جاتی ہے تو کشمیری مسلمان ہندوستانی سرحدوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپر رہتے ہیں۔ جب تک بی جے پی مسلمانوں کے خلاف منافرت کے ایجنڈہ پر قائم رہے گی، کشمیر کے مسلمان اسی طرح کا فیصلہ دیں گے۔ وادی کے مسلمانوں نے جس طرح متحدہ ووٹنگ کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو دور رکھا ، یہ دوسری ریاستوں کیلئے مثال ہے۔ بہار ، دہلی اور اترپردیش کے انتخابات میں مسلمانوں کو ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے متحدہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔
حکومت سازی کی کوششوں کے تحت بی جے پی کسی طرح نیشنل کانفرنس کو تائید کیلئے آمادہ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ پارٹی سابق میں این ڈی اے کا حصہ رہ چکی ہے لیکن بی جے پی کی تائید کے مسئلہ پر نیشنل کانفرنس کے نو منتخب ارکان میں ناراضگی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ قائدین کی ناراضگی اور عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کی تائید کا فیصلہ نیشنل کانفرنس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ کانگریس پارٹی کیلئے موجودہ صورتحال میں کوئی دشواری نہیں کیونکہ وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کے ساتھ نہیں جاسکتی ، لہذا اس نے پی ڈی پی کی تائید کا پیشکش کیا ہے۔ مفتی محمد سعید کی زیر قیادت پی ڈی پی نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کو عیاں نہیں کیا ہے جبکہ وہ بڑی پارٹی کی حیثیت سے تشکیل حکومت کی اولین حقدار اور دعویدار کا موقف رکھتی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے مقابلہ پی ڈی پی کیلئے بی جے پی سے دوستی اس اعتبار سے بھی دشوار کن ہوگی کیونکہ وادی کے عوام نے اس پر مکمل بھروسہ کیا ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھے گی۔ جب سے نیشنل کانفرنس نے بی جے پی کا ہاتھ تھاما تھا، اس وقت سے ہی اس کی مقبولیت کا گراف گھٹنے لگا۔
الغرض بی جے پی سے اتحاد پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس دونوں کیلئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کشمیریت کی دعویدار دونوں جماعتوں کے جذبہ سیکولرازم کی آزمائش ہے اور مفتی محمد سعید جیسی جہاں دیدہ شخصیت سے بی جے پی سے اتحاد کے ذریعہ اقدام خودکشی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ جموں و کشمیر پھر ایک بار مخلوط حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس طرح سابق میں پی ڈی پی اور انتخابات تک نیشنل کانفرنس نے کانگریس کی تائید سے حکومت قائم کی ، پھر یہی تجربہ دہرایا جائے تو عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو پی ڈی پی حکومت کی باہر سے تائید کرنی چاہئے ۔ یہی کشمیر کے حق میں بہتر ہوگا۔ بی جے پی سے اتحاد کی صورت میں کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ کا اندیشہ ہے۔ نیشنل کانفرنس ہو کہ پی ڈی پی یہ مسلم جماعتیں نہیں بلکہ سیکولر جماعتیں ہیں۔ اور انہیں تمام مذاہب کی تائید حاصل ہے، لہذا انہیں عوامی فیصلہ کا احترام کرنا ہوگا، ورنہ آنے والے دنوں میں سیاسی منظر پر دونوں کا وجود برائے نام ہوکر رہ جائے گا۔ جموں میں بی جے پی کے بہتر مظاہرہ کیلئے علاقائی جماعتیں برابر کی ذمہ دار ہیں، جنہوں نے اپنے اقتدار میں عوامی مفادات کو نظر انداز کردیا تھا۔ کشمیر کے عوام نے مخالف بی جے پی فیصلہ سنایا ہے اور نظریاتی اور حساس مسائل پر بی جے پی کا کسی بھی پارٹی سے اتحاد ممکن نہیں۔ جموں و کشمیر کی سیاسی صورتحال پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
نہ تجھ کو مات ہوئی اور نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کہ دونوں ہی چالیں بدل کر دیکھتے ہیں