سویڈن نے مملکت فلسطین کو تسلیم کرلیا

اسٹاکہوم۔30 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) سویڈن نے آج سرکاری طور پر مملکت فلسطین کو تسلیم کرلیا۔ اسٹاکہوم کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس متنازعہ اقدام کا ارادہ ظاہر کرنے حکومت کے اعلان کے ایک ماہ بعد باقاعدہ سرکاری طور پر فلسطین کو ایک ’’مملکت‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ مارگوٹ والسٹرم نے ڈیگنس نائتھر ڈیلی میں شائع ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے آج مملکت فلسطین کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا ہے۔ فلسطینیوں کے خودمختاری و خوداختیاری کے حق کی توثیق کرنے کی سمت یہ ایک اہم قدم ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ سویڈن کے اس اقدام سے دیگر کو بھی ترغیب ملے گی اور فلسطین کو ایک مملکت کے طور پر قبول کرنے کی راہ نکالی جائے گی۔ سویڈن کے نئے وزیراعظم اسٹیفن لوئیفوین نے اکتوبر کے اوائل میں پارلیمنٹ سے افتتاحی خطاب میں اعلان کیا تھا کہ مغربی یوروپ میں سویڈن پہلا یوروپی رکن ملک ہوگا جو فلسطین کو مملکت کی حیثیت سے تسلیم کررہا ہے۔ فلسطینیوں نے اس اقدام پر زبردست جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ اس فیصلہ کے ساتھ ہی اسرائیل نے سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور احتجاج درج کروایا۔ اسرائیل ایک عرصہ سے زور دیتا آرہا ہے کہ فلسطینیوں کو صرف ان کے لئے کئے گئے وعدہ کے مطابق ایک ریاست کا درجہ ملے گا اور یہ راست مذاکرات کے ذریعہ ممکن ہوگا۔ دیگر سفارتی چیانلوں کے ذریعہ نہیں۔ مشرقی یوروپی خطہ کے 7 یوروپی یونین ارکان اور قرون وسطیٰ نے پہلے ہی اسے تسلیم کرلیا ہے۔ بلغاریہ، قبرص، چیک جمہوریہ، ہنگری، مالٹا، پولینڈ اور رومانیہ غیریوروپی یونین رکن آئس لینڈ ہی واحد دیگر مغربی یوروپی یونین ممالک ہیں جنہوں نے مملکت فلسطین کو قبول کیا ہے۔

امریکہ نے فلسطین کے تعلق سے سویڈن کے موقف پر خبردار کیا ہے اور کہا کہ یہ لاشعوری کا فیصلہ ہے کیونکہ فلسطینی مملکت صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی وجود میں آسکتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ آج کے اعلان پر سویڈن کے وزیر خارجہ نے کہا کہ حکومت کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے معیار کے مطابق اس کا فیصلہ درست ہے۔ اس دوران صدر فلسطین محمود عباس نے سویڈن کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے کہ اس نے سرکاری سطح پر اس کو ایک مملکت کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ جرأت مندانہ اور تاریخی ہے۔ فلسطینی ترجمان نبیل ایورورین نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں کئی مہینوں سے جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ فلسطینی عوام روزانہ اسرائیلی پولیس سے متصادم ہوتے ہیں جہاں اسرائیل نے مزید 3,600 نوآبادیاں بسانے کا منصوبہ بنایا ہے۔