انجنیئر محمود اقبال
سونامی کو لہروں کی ریل بھی کہہ سکتے ہیں یعنی لہروں کا لامتناہی سلسلہ جو سمندر کی تہہ میں تحریک خلل کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ایک عمودی کالم کے طور پر اوپر اچھالتا ہے۔
سونامی ایک جاپانی لفظ ہے ۔ انگریزی میں اسے Harbour Waves کہتے ہیں۔ جاپانی لفظ ’’سو‘‘ کے معنی ہیں بندرگاہ اور ’’نامی‘‘ کے معنی ہیں لہر یا موج۔ سونامی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سمندر کا فرش اچانک بگڑ اٹھتا ہے اور فرش کے اوپر ٹھہرا ہوا ساکن سمندر کا پانی عمودی کالم کی شکل میں سطح سمندر پر اچھلتا ہے ۔ زلزلوں کی ایک قسم ٹکٹونک زلزلے ہیں جو زمین کے اوپری خول سے جڑے ہیں۔ جب اس طرح کے زلزلے سمندر کی تہہ یا فرش پر آتے ہیں تو سمندر کا وہ پورا رتبہ جو اس کی زد میں آتا ہے ، تب وہ پورا سمندری پانی جو پرسکون تھا ، طلاطم پذیر ہوجاتا ہے اور لہروں یا موجوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور عمودی کالم کی شکل میں اوپر اٹھنے کی سعی کرتا ہے لیکن کشش ثقل کی وجہ سے خط توازن پر دوبارہ واپس آنے پرمجبور ہوتا ہے ۔ سمندری زلزلے کی وجہ سے فرش سمندر کا ایک بڑا حصہ نیچے اوپر اٹھتا ہے اور اسی کشمکش میں ’’سونامی‘‘ پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زلزلوں کے منبع تین قسم کے ہیں۔
(1 ٹکٹونک زلزلے
(2) آتش فشائی زلزلے
(3) سب میرین یعنی سمندر کے اندر کے زلزلے
سب میرین یا سمندر کے اندر کا ارتعاش یا امتزازی حرکت (Vibrations) اکثر سمندر کی سطح پر وسیع و عریض موجوں یا لہروں کو پیدا کرتی ہیں اور کرہ ارض کے ساحلی رقبہ کو تباہ و برباد کرنے کا موجب بنتی ہیں۔
سائنس کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں تو زلزلوں کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے ۔ ایک قدرتی زلزلے جس میں ٹکٹونک ، آتش فشائی اور چٹانی فالٹس (Rock Faults) شامل ہیں اور دوسری طرف انسانی ذرائع سے پیدا ہونے والے زلزلے ہیں جس میں کنٹرولڈ ذرائع (دھماکہ خیز ، نیوکلیئر) ، ذخائر آب اورکان کنی کے ذریعہ پیدا ہونے والے زلزلے ہیں۔
سائنسی لحاظ سے کرہ ارض کا پورا مادہ چار حصوں میں منقسم ہے ۔
(1) زمین کے اوپری حصہ کو (Crust) یعنی پوسٹ یا خول کہتے ہیں جو کیلشیم ، سوڈیم الیومینیٹ سلیکیٹ معدنیات سے بنی ہے ۔ یہ خشک اور ٹوٹ پھوٹ جانے والی چٹانوں پر مشتمل ہے اور انہیں رگڑ یعنی (Fracture) کی وجہ سے بھی زلزلے آتے ہیں۔
(2 خول (Crust) کے نیچے کا حصہ Mantle کہلاتا ہے جو ٹھوس ہے لیکن پلاسٹک کی طرح شکل بدل سکتا ہے ۔
(3 اس کے نیچے کرہ ارض کا بیرونی حصہ ہے جو صرف اور صرف مائع کی شکل میں ہے ۔
(4 کرہ ارض کا مرکزی اندرونی Inner Core ہے اور یہ کیا ہے ؟ جدید سائنس بھی ہنوز مزید تحقیق کی محتاج ہے اور اس پر اسرار کے پردے پڑے ہیں۔
سائنسی لحاظ سے یہ یقین کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر سیسمک (Seismic) اور آتش فشائی سرگرمیاں زمین کے اوپری خول کے نچلے حصہ Mantle میں جنم لیتی ہیں جس کی اہم وجہ زمین کے اوپری پرت Crust اور اندرونی مرکزی حصہ Core کے درمیان بہت زیادہ دباؤ اور درجہ حرارت کا فرق ہے جس کی وجہ سے سطح زمین کی مختلف جگہوں پر لوکل گردشیں پیدا ہوتی ہیں اور جس کی وجہ سے زمین کی سطح پر مختلف قسم کے حرکات پیدا ہوتے ہیں۔ زلزلوں کی سائنس کے مطابق کرہ ارض کی سطح ، چھ بڑ ے اور کچھ چھوٹے پلیٹس (Plates) پر مشتمل ہے جو درج ذیل ہیں۔ (1 افریقین پلیٹ (2 امریکن پلیٹ (3 انٹارٹیکا پلیٹ (4 آسٹریلین ۔ انڈین پلیٹ (5 یورو ۔ ا یشین پلیٹ
(6 پیسفک پلیٹ
سائنسی گہرائی اور گیرائی میں جائے بغیر پلیٹس کی تھیوری عام زبان میں اس طرح سمجھ لیجئے کہ یہ چٹانوں کی بہت زیادہ موٹی پرت ہے جو زمین کی اوپری سطح اور بعض براعظموں میں اس کی موٹائی 100 کیلو میٹر سے 120 کیلو میٹر کے درمیان ہے اس کے برعکس سمندری بیسنس (Ocean Basins) میں اس کی موٹائی صرف 80 کیلو میٹر کے قریب ہے ۔ یہ تمام چھوٹی بڑی پلیٹس سال میں دو سنٹی میٹر سے 12 سینٹی میٹر کے درمیان حرکت کرتی ہیں۔ بعض اوقات ان پلیٹس میں بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے ۔ ان پلیٹس یا چٹانوں کی طاقت یا مزاحمت اس وقت جواب دے جاتی ہے۔ جب بہت زیادہ توانائی کے اثر کو وہ برداشت نہیں کرپاتی ہیں اور ان میں ذخیرہ شدہ انرجی (Potential Energy) زلزلوں کی شکل میں خارج ہوتی ہے ۔ زلزلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب یہ پلیٹس ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور دباؤ بڑھتا ہے اور سطح زمین پر دیواروں اور سڑکوں پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور زمین کانپنے لگتی ہے ۔ زلزلہ جب آتا ہے تو صرف ایک ہی جھٹکا نہیں بلکہ زلزلہ مابعد زلزلہ (Ater Shocks) ایک عام قاری کیلئے براعظمی بہاؤ کا تذکرہ خاصہ دلچسپ ہو تو قریب 250 ملین سال پہلے کرہ ارض پر صرف ایک ہی براعظم تھا اور یہ کھسکتے کھسکتے چھ بڑے براعظموں میں منقسم ہوگیا۔
براعظمی بہاؤ کی تھیوری کو 1912 ء میں الفریڈ ویگنز نے تجویز کیا تھا ۔ ہندوستان معہ سری لنکا 71 ملین سال پہلے خط اسطوا سے کئی سو کیلو میٹر نیچے تھا اور اب Continental Drift Theory کے مطابق ہندوستان کا جغرافیائی حدود معہ سری لنکا خط اسطوا کے کئی سو کیلو میٹر اوپر شمال میں کھسک گیا ہے ۔ اس زمانہ میں تیتھیس (Tethys) سمندر ہوا کرتا تھا اور اب وہ سمندر ندارد ہے لیکن اس کا مغربی حصہ آج بھی بحر قلزم کی صورت میں موجود ہے۔ مزید براں سمندر کا شمالی حصہ آج کا ہندوستانی انڈو گنگائی (Indo-Gangetic) سر سبز و شاداب علاقہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ شمال میں سطح مرتضع تبت اور کوہ ہمالیہ کے سلسلہ وجود میں آئے۔
زلزلہ کی شدت کو ریچر اسکیل (Ritecher Scale) پر ناپا جاتا ہے ۔ زلزلہ کی شدت (Magnitute) کسی بھی زلزلہ میں کہیں پر بھی خارج شدہ کشیدگی کی توانائی (Strain Energy) کی مقدار پیمائش ہے جسے امریکی سائنسداں چارلس ایف ریچر (Charles F. Ritcher) نے تجویز کیا تھا۔
(1 2.5 شدت کا زلزلہ ۔ غیر محسوس (2 4.5 شدت کا زلزلہ ۔ لوکل توڑ پھوڑ(3 6.0 شدت کا زلزلہ ۔ شہری آبادی میں تباہ کن (4 7.0 شدت کا زلزلہ ۔ بہت ہی سنگین اور تباہ کن (5 8.0 یا 8.0 سے او پر کی شدت کا زلزلہ ۔ مکمل تباہی
زلزلوں کی اس مختصر ابتدائی لیکن ضروری بیانیہ کے بعد ہم دوبارہ سے ’سونامی‘ کے موضوع پر آتے ہیں۔ ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب گہرے سمندر میں ’سونامی‘ آتی ہے تو کئی سو کیلو میٹر دور اتھل ساحلی علاقوں میں یہ اتنی بڑی جانی و مالی تباہی کا موجب کیوں کر بنتی ہے ؟ وقت اور فاصلہ کے ساتھ اس کی مدت و شدت اتھل ساحلی علاقوں تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دینی چاہئے تھی ؟ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔ پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ دیوہیکل پلیٹس کا وجود ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ان کی باؤنڈریاں بھی ہوں گی ۔ انہیں حدود پر زمینی خول کا طولی موومنٹ وقوع پذیر ہوسکتا ہے جہاں پر ان پلیٹس کے حدود ملتے ہیں ، انہیں سا ئنسی زبان میں (Faults) فالٹس کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر سمندری پلیٹس سمندری کناروں پر براعظمی پلیٹس کے نیچے کھسک سکتی ہیں۔ جسے زلزلوں کی ٹرمنالوجی میں (Subduction) کہتے ہیں اور یہی سب ڈکشن زلزلے سونامی کے پیدا ہونے میں موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ جب سونامی گہرے سمندر سے اتھل ساحلی علاقوں کا رخ اختیار کرتی ہے تو اس کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ سونامی کی توانائی کا بہاؤ (Energy Flux) کانسٹنٹ (Constant) رہتا ہے جو لہروں کی اسپیڈ اور اونچائی پر منحصر ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں جب سونامی اتھل ساحلی علاقوں کا رخ کرتی ہے تو اس کی اسپیڈ تو گھٹتی جاتی ہے لیکن لہروں کی اونچائی بڑھتی جاتی ہے چونکہ سائنسی اصول کے مطابق توانائی کا بہاؤ (Energy Flux) کانسٹنٹ ہے ۔ سونامی گہرے سمندر میں سینکڑوں میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ہے اور ساحلی علاقوں تک پہنچتے پہنچتے اس کی رفتار کم ہوجاتی ہے لیکن اونچائی 100 فٹ یا اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے ۔
سیسمک (Seismic) زلزلوں کی اسٹڈی سے جڑا ہے ۔ زمین کے اندر لچکدار لہروں (Elastic Waves) کی پیدائش ، تبلیغ (Propasation) اور ریکارڈ نگس اور ذرائع و اسباب کی اسٹڈی سسمولوجی (Seismology) کہتے ہیں۔ پروفیسر ون تھراپ کو ’فادر آد دی سسمولوجی کے نام سے یاد کیا جات