سودا کی قصیدہ نگاری

ڈاکٹر محمد فیض احمد
شمالی ہند میں اردو شاعری کا باضابطہ آغاز قیاس کیا جاتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہوا ہوگا ، جب ولی دکنی نے دہلی کا سفر کیا تھا وہاں اپنی ریختہ گوئی سے ہلچل مچادی ، ان کے مقلدین میں آبروؔ ، حاتمؔ ، مضمونؔ ، مظہر جان جاناں، احمد اللہ ، شاکر ناجی اور مصطفی خان جیسے شعراء شامل تھے ۔ اس عہد میں معانی وپرکاری کے بجائے شاعری میں ایہام گوئی کا رجحان عام تھا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا ۔ میر تقی میرؔ کے تذکرے نکات الشعراء 1165ھ سے پتہ چلتا ہے کہ رفتہ رفتہ شمالی ہند میں ریختہ گو شاعروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ یعنی اس زمانے میں فارسی زبان کا چراغ ٹمٹمانے لگا تھا اور ریختہ گوئی کا ہر طرف بازار گرم تھا ۔ زبان کی اس غیر معمولی ترقی و ترویج میں جن شعراء نے کام کیا ، ان میں مرزا محمد رفیع سوداؔ کا نام اہم ہے ۔ سوداؔ نے دہلی میں پرورش پائی تھی ، اس زمانے میں وہاں شعر و شاعری کے چرچے عام تھے ۔ انہیں بھی شعر و سخن سے فطری رغبت تھی ، لہذا آپ نے ابتداء میں فارسی میں طبع آزمائی کی جس پر مرزا محمد زماں عرف سلیمان قلی خاں سے اصلاح لی ، تاہم 1143 تا 1150ھ کے درمیانی عرصہ میں شاہ حاتمؔ کے شاگرد ہوئے اور سخن فہموں میں اپنے فضل وکمال کو منوایا ۔

زیر نظر مضمون میں ہم صرف سوداؔ کی قصیدہ نگاری کی حد تک اپنی بحث و گفتگو کو محدود رکھیں گے ۔ دکن کے مصروف محقق جناب شیخ چاند اپنے تحقیقی مقالہ سوداؔ میں رقمطراز ہیں :’’سوداؔ نے کم و بیش پچاس سال شاعری کی ہے ۔ نصف صدی کی شاعرانہ پیداوار کا کافی ذخیرہ ہے ۔ شاعر کے کلام کے مطالعے کے وقت اس کے کلام کی صحیح مقدار کا معلوم کرنا بڑی حد تک ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ ابھی ضرورت ہے کہ اس کے اصلی کلام کی مقدار کا صحت و یقین کے ساتھ درج کرنا مشکل ہے ۔ انجمن ترقی اردو کلیات سوداؔ کو خاص تحقیق سے مرتب کرارہی ہے ۔ یہاں اس قدر کہہ دیناکافی ہے کہ اس کے کلیات میں تمام اصناف سخن قصیدہ ،غزل ، واسوخت ، مثنوی ، مرثیہ ، قطعہ ، ترجیح بند ، ترکیب بند وغیرہ موجود ہیں ۔ ہر صنف میں کلام کی کافی مقدار موجود ہے اس دور کے کسی شاعر کا کلام اس قدر متنوع اور ضخیم نہیں‘‘ ۔ (بحوالہ شیخ چاند : سوداؔ ، شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ مکتبہ اردو ادب لکھنؤ ، فروری 1972 ص 136)

سوداؔ کے قصائد کے اہم موضوعات :
۱ ۔ مذہب : کئی قصیدے بزرگان دین اور آئمہ معصومین کی شان میں
۲ ۔ مدح : امراء اور سرپرست کی مدح و ستائش ہیں ۔
۳ ۔ ہجو : چند قصیدے
۴ ۔ واقعات : بعض قصائد میں اپنے عہد کے تاریخی و معاشرتی حالات بھی قلمبند کئے ۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ سوداؔ کے وقت تک بھی شمالی ہند میں فارسی شاعری کا رواج تھا ، وہیں سوداؔ کا عہد ایہام گوئی کا سحر ٹوٹنے سے بھی مخصوص ہے ۔ اس عہد میں اردو شاعری کی کوئی ٹھوس روایت نظر نہیں آتی ۔ اردو کی شعری اصناف میں قصیدہ گوئی ایک ممتاز ، معتبر اور معیاری صنف سخن مانی جاتی ہے ۔ تاہم عربی زبان میں اس کی ابتداء اور ترقی ہوئی اور فارسی زبان میں بھی کافی پذیرائی ملی ، فارسی قصیدہ کی تقریباً آٹھ سو سالہ روایت اپنی تمام فکری ، علمی ، تخیلی اور فنی لوازم کی آب و تاب کے ساتھ قصیدہ اردو زبان میں داخل ہوتا ہے ۔ سوداؔ نے اپنے قصیدوں کے مختلف نام بھی رکھے جیسے ایک اور قصیدہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی منقبت کو بحر بیکراں کا نام دیا اسی طرح گھوڑے کی ہجو میں مشہور قصیدہ کو آپ نے تضحیک روزگار کا نام دیا تھا :
سوداؔ نے تب قصیدہ کہا سن یہ ماجرا
ہے نام اس قصیدہ کا تضحیک روزگار
دراصل قصیدہ کے معیار کو پرکھنے کے لئے ہمارے نقادوں نے مطلع کی جدت طرازی ، خیالات کی ندرت ، بیان کی جدت ، زبان کی شگفتگی و برجستگی ، تخیل کا زور اور پرشکوہ الفاظ قصیدہ کی جان ہوتی ہے ۔ قصیدہ کے کم از کم اشعار 15 اور زیادہ سے زیادہ 150 اشعار کی تعداد ہوتی ہے ۔ ان تمام معیارات پر سوداؔ کے قصائد کھرے اترتے ہیں ۔ حسن رضا خان کے مدحیہ قصیدہ کا مطلع پیش ہے :
برج محل میں بیٹھ کے خاور کا تاجدار
کھینچے ہے اب خزاں پہ صفِ لشکرِ بہار
قصیدے کے اہم اجزائے ترکیبی میں (۱) تشبیب (۲) گریز (۳) مدح (۴) دعا (۵) مدعا میں تشبیب قصیدہ نگاری کے کمال کی کسوٹی سمجھی جاتی ہے ۔ جس میں سوداؔ کو کمال خاص حاصل رہا ۔ انہوں نے موضوعات میں تنوع ، خارجی وداخلی تخیل ، خیالی مضامین و واقعات ،تشبیہ اور استعارہ اور مبالغہ آرائی کارنگ حقیقت پر حاوی نظر آتا ہے ۔ وہیں قصیدہ کی روح تشبیب اور مدح میں ربط پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ جس میں آپ کو کمال قدرت حاصل ہے مدحیہ اشعار کے بعد گریز مشکل مقام سمجھا جاتا ہے جس پر بھی سوداؔ نے استادی دکھائی

سرفراز الدولہ کے مدحیہ قصیدہ کے چند اشعار پیش ہیں ۔ جس میں اپنی ضروریات کے حصول کا اظہار کررہے ہیں ۔ آپ بھی دیکھئے:
غرض کہ اس لئے تیری یہ میں نہیں کی مدح
کہ چاہوں تجھ سے میں اس صلے میں درہم ودام
عوض میں اس کے صلے کے کروں میں تجھ سے عرض
قبول ہو جو مرا حرف اے ذی الاکرام
مجھے تو گوشۂ خاطر میں اپنے دے جاگہ
کہ تابسر کروں لیل و نہار با آرام
اردو زبان و ادب میں سوداؔ کی اہمیت اور مقام کا تعین کریں تو وہ اونچا اور قصیدہ نگاری کے بنیاد گزاروں میں قرار پاتے ہیں ۔ کیوں کہ آپ نے زبان کے ابتدائی دور میں اسے سجایا سنوارا ہے ۔ انہوں نے ایہام گوئی کے بت کو توڑا ، اسے متروک قرار دیا اور ایک نئی تحریک کی بنیاد ڈالی جس کے بعد اردو زبان میں وسعت اور تنوع پیدا ہوئی ، دوسری جانب سوداؔ کے کلام میں اس زمانے کے تاریخی ، سیاسی ، عملی اور معاشرتی حالات و واقعات کی جھلکیاں پوشیدہ ہیں ۔ محمد شاہ سے آصف الدولہ کے زمانے تک کے تاریخی کوائف کے اشارے آپ کے کلام میں تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ اس طرح جو محقق سوداؔ کے زمانے کی تاریخ و شناخت کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہتا ہے اس ضمن میں سوداؔ کا کلام رہنمائی کرتا ہے ۔ سوداؔ نے اپنی شعری حیات میں فارسی دیوان ، کلیات سوداؔ جس میں اس زمانہ کے مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مثلاً قصائد ، ہجویات ، قطعات ، غزلیات واسوخت ، مثنویاں ، رباعیات ، مراثی اور سلام وغیرہ میں تخیل کی قوت اور خیالات و مضامین کے نازک اور لطیف پہلو تراشے ہیں ۔ جس کے تحت زبان سازی میں اپنی قدرت ثابت کی ہے ۔ جب کہ سوداؔ کا کلام اردو زبان کی نشو و نما کا حال بھی بیان کرتا ہے ۔ ساتھ ساتھ ہمارے بزرگوں کی ادبی و لسانی کاوشوںکا آئینہ دار بھی ہے ۔ اس طرح اردو کے معرکتہ الآرا قصیدہ نگار1781 ء میں رحلت فرماگئے اور آغا باقر کے امام باڑے لکھنؤ میں سپرد خاک ہوئے ۔