سوختہ جاں

نفیسہ خان
اپنے سجے سجائے مکان میں بڑی بیگم پچھلے بیس سال سے تنہا رہ رہی تھیں ، بچوں کی شادی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر اہل خانہ نے قبرستان آباد کرلیا تھا اور بیچاری بڑی بیگم قیامت کے بوریئے سمیٹنے زندہ رہ گئی تھیں ۔ رہا سوال اولاد کا تو آج کل بچے ماں باپ کے زیر سایہ زندگی گذارنے کے متمنی کب ہیں ۔ لڑکیوں کو تو سسرال بھیجا تھا لیکن دامادوں کو بھی اپنے بیٹوں کی طرح ماں باپ کا ساتھ منظور نہ تھا کیونکہ
اب تو بیٹے بھی چلے جاتے ہیں رخصت ہوکر
صرف بیٹی ہی کو مہمان نہ سمجھا جائے
یوں بھی خود ماں باپ نے بھی دوسرے خاندانوں سے اپنی مالی حیثیت کا موازنہ کرتے کرتے اپنے آپ کو کمتر سمجھنا شروع کردیا ہے اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ترک وطن پر مجبور کردیا ہے ۔ بیرونی ممالک میں بھی سخت محنت کرنی پڑتی ہے ۔ پیسہ ضرور زیادہ ملتا ہے لیکن وہاں بھی کونسا سکون و آرام میسر ہے صرف روپیہ قلبی سکون تو دے نہیں سکتا ۔ ماں باپ رشتے داروں کے ساتھ یہاں کے گھریلو کام کاج کرنے والے نوکروں کی آسائش و سہولت بھی تو یاد آتی ہی ہوگی لیکن والدین کی یاد کو فراموش کرنے کیلئے فون تو ہے ہی ایک دوسرے کے دل کے پھپھولے کو پھوڑنے کیلئے ۔ کبھی دلاسہ دینے کے بہانے کبھی اشکبار ہونے اور ہم کو اشکبار کرنے کیلئے تو کبھی فاصلوں و دوریوں کی طوالت کا احساس کم کرنے کیلئے فون ایک نعمت سے کم تھوڑا ہی ہے ۔ ہمارے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں اس لئے ہم چہرے کے تاثرات فون پر نہیں دیکھ سکتے اور صرف ارتعاش پیدا کرسکتی ہے غم و خوشی کا تھوڑا بہت احساس دلاسکتی ہے لیکن معانقہ و مصافحہ سے ایک بدن سے دوسرے بدن کو منتقل ہونے والی حرارت و گرمجوشی کو کہاں پہنچاپاتی ہے ۔ ہمارے چہرے کی اداسی ، آنکھوں میں تیرتے آنسو ، تھرتھراتے ہاتھ ، کانپتی انگلیاں پیار و خلوص کے احساسات کو محسوس کرنے کا فقدان ہے ۔ معانقہ کے بعد اپنے سینے اپنے گلے سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لگا کر جو آسودگی و سکون کا احساس ہوتا ہے جو ٹھنڈک دل و دماغ کو حاصل ہوتی ہے وہ اب کہاں۔ نئی نسل اپنوں سے دور اور غیروں سے قریب ہوگئی ہے ۔ اپنے ماں باپ ، رشتہ دار ، ملک ، شہر ، محلہ و گھر چھوڑ کر چلے جانے سے اپنا ماحول ، اپنے تہذیب ، اپنی زبان ، اپنی قدروں سے بیگانہ و بے نیاز ہوگئے ہیں ۔ اسلام پانچ ارکان کا پابندی سے انجام دہی کا نام نہیں ۔ پانچ ارکان پوری زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہیں ۔ ہم مشترکہ خاندان و ماحول سے دور الگ تھلگ محدود ماحول کے پروردہ ہو کر رہ گئے ہیں جہاں رشتے داری ایک بوجھ لگنے لگی ہے ۔ دنیاداری و روایات کی پابند لگ رہی ہے جس سے چھٹکارا پانے کے طریقے سونچے جانے لگے ہیں ۔ اب تو صرف شادی بیاہ تقاریب یا موت مٹی پر ہی ایک دوسرے کی صورتیں نظر آرہی ہیں ۔ ہم اب قریبی رشتے داروں کے ساتھ بھی خود کو خوش و مطمئن محسوس نہیں کرتے حالانکہ رشتہ داروں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن ذہن و احساسات مکدر ہوں تو کدورت ، نفرت ، حسد ، بغض کے جراثیم دل میں پل رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اچھے عمل برتاؤ و گفتگو کی توقع فضول ہوتی ہے ۔ مگر سب سے بچھڑ کر گھر میں تنہا رہ جانے والی عورت سے کوئی پوچھے کہ اس کی زندگی کے دن کیسے گذر رہے ہیں ۔ کسی خود غرض محبتیں ہوگئی ہیں ۔ رشتوں کے اٹوٹ بندھن کس قدر کمزور پڑگئے ہیں ۔
تہذیب و آگہی کی وہ قدریں کہاں گئیں
کس نے جھلسا کے رکھ دئے گنگ و جمن کے پھول

بڑی بیگم کے گھر دیار غیر کے پروردہ بچے بھی جب ایک ماہ کی چھٹیاں گذارنے آئے تو بڑوں سے زیادہ ان بچوں کو یہ احساس ہوا کہ دادا ، دادی ، نانا ، نانی کی شفقت ، محبت ، لاڈ و پیار سے وہ کتنے بیگانہ تھے ۔ یوں تو پردیس میں اپنوں کی موجودگی سے وہ غافل نہ تھے ۔ تصاویر و گفتگو کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ۔ لیکن اس دوری و جدائی کا انہیں احساس نہ تھا جو ایک کسک ایک تڑپ ان بزرگوں کے دل میں ہے ۔ وہ اس سے قطعی ناواقف و بیگانہ ہیں ۔ پر اس بار بڑی بیگم محسوس کررہی تھیں کہ اپنے بھرے پرے خاندان کے ہر گھر ہر فرد سے مل کر چند ہفتے گذار کر وہ لوٹے ہیں تو بے شمار رعنائیحوں ، سوغاتوں سے وہ بھی محروم ہوگئے ہیں ۔ پر چند دن ، چند ہفتوں یا ایک دو ماہ میں وہ پھر سے سب کچھ بھول کر اپنے ماحول میں کھوجائیں گے ۔ لیکن مختصر وقفے کیلئے بڑی بیگم کا گھر جو آباد ہوگیا تھا پھر سائیں سائیں کررہا تھا ۔ کسی کونے سے پوترے کے استعمال شدہ کپڑے جھانک رہے تھے ، تو تخت کے نیچے کسی کونے سے جھاڑو لگاتے ہوئے سکینہ بوا نواسی کی گڑیاں ، چوڑیاں نکال کر بڑی بیگم کے ہاتھ میں تھمارہی تھیں ۔ تب نواسی کی ننھی منی کانچ کی گولیوں جیسی آنکھیں انہیں یاد آجاتیں ، جو لائے ہوئے تحفوں اور سوغاتوں پر چمک اٹھتی تھیں۔ لیکن سب کچھ استعمال کرکے یادوں کے ساتھ یہ بھی واپس لوٹنے کی خوشی میں دانستہ یا نادانستہ طور پر یہیں چھوڑ گئی تھیں ۔ ہر ایک کو اپنے مستقل سکونت سے بے انتہا لگاؤ اور انس جو ہوتا ہے ۔ اسی طرح سال دو سال میں بچوں کی آمد کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ بڑی بیگم اپنی تنہا زندگی میں خود کو پوری طرح سنبھالنے کی بھرپور کوشش کرکے جب سکون پاتی ہیں تو پھر گویا ٹھہرے ہوئے پرسکون پانی میں گویا کوئی پتھر مار کر ارتعاش پیدا کرنے آدھمکتا ہے ۔ انکے آنے سے پہلے گھر کی صاف صفائی پردوں ، پلنگ کی چادروں کو بدل کر ان کے استقبال کی تیاریاں ہوتی ہیں تو جانے پر بکھرے سامان کو سمیٹنے میں دنوں لگ جاتے ہیں ۔ ان کی چھوڑی ہوئی چھوٹی سی چھوٹی چیزیں بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سنبھال کر رکھنا یا پھر کام والوں کے حوالے کرنا بڑی بیگم کی زندگی کا معمول بن گیا تھا ۔ بڑی بیگم کی تمنا تھی کہ ان کا سہاگ تاعمر سلامت رہے ۔ ان کے بیٹے بیٹیاں حیدرآباد میں ہی ان کے قریب رہیں ، ان کا گھر بچوں کے شور و غل اور شوخ ہنسی قہقہوں سے گونجتا رہے ۔ لیکن ان کی آرزوئیں ان کے خواب ریزہ ریزہ ہوچکے تھے ، اب ان کی تعبیریں ڈھونڈنے وہ کہاں جاتیں ؟ اب ان کے پاس جو کچھ بچا تھا وہ افسردہ مزاجی ، دکھ ، تکلیف ، اذیت ، کرب ، رنج و غم تھے ۔ ایک ہی جذبے کے اتنے سارے ناموں سے ان کی خالی جھولی بھرچکی تھی ۔ جاں گسل لمحات نے ان کی ہر خوشی پر آسودگی کو ان سے چھپین لیا تھا ۔ احباب سے ترک تعلق رشتے داروں سے دوریاں اپنوں سے فاصلے قائم رکھنے کے باوجود بھی دل کی بے چینیوں و بے قراریوں کو لمحہ بھر کا سکون نہ تھا نہ آرام ۔ بڑی بیگم سدا اپنے حالات کی روشنی میں خیالات سے برسرپیکار رہتیں کہ ان کی مرضی کے مطابق سب کچھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ اپنے آپ سے الجھتی رہتیں ، تنک مزاجی کو شیوہ بنائے اپنی زندگی اجیرن کئے جارہی تھیں نہ انہیں یہاں اس گھر میں سکون تھا نہ کسی بیٹے یا بیٹی کے ساتھ باقی ماندہ زندگی گذارنا منظور تھا ۔ ہم کو وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے ۔

یہ بات وہ ماننے تیار نہ تھیں ، اپنا موازنہ دوسروں سے کرتیں اور خود ہی درد کے دریا میں غوطے کھاتی رہتیں جبکہ خدا کی مصلحت کے آگے سرجھکانے کے سوا چارہ بھی تو نہیں ہے ۔ بڑی بیگم جب اپنے خیالات سے خود ہی شکست کھا جاتیں تو اپنے شریک حیات کا مدبرانہ و مشفقانہ سراپا اپنے قریب محسوس کرتیں ۔ وہ شخص بڑے صبر سے اپنی بیماری کی تکالیف کو برداشت کیا کرتاتھا ۔ ان کا سراپا بڑی بیگم کے روبرو آکھڑا ہوتا اور ہمت سے زندگی کی راہ میں نہ صرف پوری ہمت و استقلال سے بلکہ خوشدلی سے آگے بڑھنے کی تلقین و تاکید کرتا کہ زندگی اللہ کا دیا ہوا ایک بے مایہ تحفہ ہے ۔ اسے بوجھ سمجھوگے تو اٹھاتے ہوئے شانے دکھ جائیں گے اور اس بوجھ کے بار سے زندگی دب کر رہ جائے گی ۔ جب حالات کو نہ بدل سکو تو خود کو بدل کر دیکھیں اور حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیں ۔ کیونکہ بے مائیگی کے احساس کا تسلسل شخصیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور سماج میں ایک ناپسندیدہ فرد بنادیتا ہے ۔ بڑی بیگم ہر ایک سے نالاں تھیں ہر ایک سے انہیں شکایت تھی ۔ حد یہ کہ خود سے بھی برسرپیکار ہوا کرتی تھیں کہ انکی دعائیں نارسائی کی قسم کھاچکی ہیں ۔ اسلئے ہر دعا قبولیت کے مرحلوں سے کوسوں دور ہیں ۔ آخر وہ کب تک خدا کی نظر عنایت و رحمتوں کے نزول کی آس لگائے اسکے حضور میں سر بہ سجدہ رہیں گی ۔ بڑی بیگم کے حالات بدلنے کیلئے نہ کوئی مداوا ہے نہ کوئی چارہ ہے نہ ہی چارہ گر ہیں ۔ ہر بار بڑی بیگم اپنے گھر کی رونقوں کو دوبالا ہوتے ہوئے اور پھر افسردگی کا لبادہ اوڑھے سناٹے میں کھوتے ہوئے دیکھتیں اور دل مسوس کر رہ جاتیں ۔ ہر بار جی چاہتا کہ بچوں کے قدموں سے لپٹ جائیں اور انہیں احساس دلائیں کہ ان سب کے بغیر ان کا گھر ان کی زندگی کتنی ویران ہوجاتی ہے لیکن وہ جانتی تھیں کہ اولاد کے آگے نہ صرف ترقی کی راہیں کھلی ہیں بلکہ روپے پیسے کی بہتات ہے تعیش بھری زندگی ہے جبکہ یہاں حیدرآباد کا فرسودہ بندھا بندھایا ماحول ہے جس سے نئی نسل دور بھاگنا چاہتی ہے اور یہ دوڑ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ عمر کا سورج ڈھلنے نہ لگے گا ، بدن میں دوڑنے والے خون کی رفتار و حرارت دھیمی نہ پڑنے لگے گی ۔ تب وطن یاد آئے گا جبکہ ان کے سر پر بزرگوں کا سایہ نہ رہے گا وہ خود بزرگوں کی فہرست میں شامل نہ ہوجائیں گے اور پھر ان کے بچوں کو ان کا ساتھ منظور نہ ہوگا اور وہ نئے شجر نئی ٹہنیوں پر آشیانبہ بنانے کی چاہ لے کر ان کو چھوڑ جائیں گے ۔ اس لئے بڑی بیگم اکثر سوچتیں کہ بچوںکی ماں بننا ، ان کی پرورش کرنا ، پروان چڑھانا ، تعلیم یافتہ بنانا ، انکی تربیت کرنا ، یہ راستہ کارخیر کا ہے یا مرگ مسلسل کا ۔ بڑی بیگم کی سمجھ سے باہر تھا اسلئے وہ بھاری دل سے اپنے گھر کی رونقوں کو وداع کرتیں ۔ وہ زبان سے کبھی کہہ نہ پاتیں کہ رک جاؤ ۔ مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر نہ جاؤ کیونکہ وہ بچوں کا جواب بخوبی جانتی تھیں کہ

جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے
یہ سوچ کر اللہ پر سب کچھ چھوڑ دیں کہ صبر و تحمل و برداشت کا اجر بھی اس کو ملے گا یا نہیں خدا کو گویا بڑی بیگم کے ضبط کاامتحان مقصود تھا ۔ ان کے لئے بس یہی خیال باعث تقویت تھا کہ ان کا حاصل زندگی ، ان کی متاع بے پایاں۔ ان کی اولاد ہے خواہ وہ دور رہیں یا قریب ۔ ان پر مہربان ہوں یا بے اعتنائی برتیں ۔ ان کی خیر خبر لیں یا لاپرواہی برتیں ۔ ان تمام باتوں سے وہ بظاہر خود کو مبرا سمجھتی لیکن دراصل ایسا بھی قطعی نہ تھا ، ہر کوئی اپنی ڈگر پر چل رہا ہے یا یوں سمجھئے کہ چلنے پر مجبور تھا ۔ بڑی بیگم اپنے بچوں کو یہ سمجھانے اور اولاد فی الحال یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ ہم دل و جان سے زیادہ جسے چاہیں ان کا قرب کتنا سکون آمیز ہوتا ہے ۔ باعث مسرت دل و جان ہوتا ہے ۔ دوری کے اس درد کا احساس تو ان کو اس وقت ہوگا جب عمر کے ساٹھ سال ان کی دہلیز پر دستک دینے لگیں گے اور گھر کا لامتناہی سناٹا سارے گھر کواپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس مکان میں پروان چڑھے پودے کسی دوسری مزید زرخیز زمین کی تلاش میں ان کے آنگن سے اپنا رشتہ توڑ جائیں گے ۔