سوامی ‘ خود بی جے پی کیلئے مسئلہ؟

ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والے سینئر لیڈر سبرامنین سوامی کو جب بی جے پی میں شامل کیا گیا اور انہیں راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا گیا تو بی جے پی کے حلقوں میں یہی تاثر تھا کہ وہ اپنی صفوں میں ایک ایسے لیڈر کو شامل کر رہے ہیںجو کانگریس اور اس کے قائدین کو مسلسل نشانہ بناتے ہوئے پریشان کرسکتا ہے اور انہیں عدالتی کشاکش اور مقدمہ بازی میں بھی الجھا سکتا ہے ۔ سبرامنین سوامی نے ایسا کیا بھی تھا ۔ نیشنل ہیرالڈمقدمہ در اصل سبرامنین سوامی کی کوشش ہی تھا ۔ اس مقدمہ میںکانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کو عدالت میں حاضری دینی پڑی تھی ۔ بی جے پی کو یہ امید تھی کہ سبرانین سوامی راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کو قابو میں رکھ سکتے ہیں جہاں کانگریس کو اکثریت حاصل ہے اور اسی وجہ سے حکومت ایوان بالا میں اہم بلوں کو اپنی مرضی سے منظوری دلانے میں کامیاب نہیں ہوپا رہی ہے ۔ ابتدائی ہنی مون دورانیہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سبرامنین سوامی اپنی روش کی وجہ سے خود بی جے پی کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ سوامی نے اب ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رگھو رام راجن کے خلاف مورچہ بنالیا ہے ۔ وہ رگھو رام راجن کے خلاف مسلسل وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب روانہ کر رہے ہیں اور انہیں اس عہدہ سے ہٹانے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ مسٹر سوامی کا کہنا ہے کہ مسٹر راجن کو یو پی اے دور حکومت میںیہ عہدہ دیا گیا تھا اور اب این ڈی اے دور حکومت میں انہیں اس عہدہ پر برقرار نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ مسٹر سوامی کا یہ بھی کہنا ہے کہ رگھو رام راجن ذہنی اعتبار سے ہندوستانی نہیں ہیں اور وہ مغربی طرز رکھتے ہیں اسی وجہ سے ملک میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور شرح ترقی متاثر ہو رہی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ رگھو رام راجن کو اس عہدہ سے ہٹادیا جانا چاہئے ۔ وہ سر عام ا س طرح کی بیان بازیاں کر رہے ہیںجس کی وجہ سے حکومت اور بی جے پی کیلئے قدرے پریشانی اور مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ سبرامنین سوامی اپنی رائے ظاہر کرنے کیلئے آزاد ہیںلیکن پارٹی سے وابستگی اور حکومت کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ سر عام اگر وہ اس طرح کی رائے ظاہر کرتے ہیں تو اس سے عوام میں منفی پیام جائیگا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سوامی کو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے قائدین اور اس کے صدر بھی اس مسئلہ پر ایسا کوئی بیان دینا نہیں چاہتے جس سے سوامی ناراض ہوجائیں ۔ پارٹی صدر امیت شاہ سے جب اس تعلق سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پارٹی کے موقف کا سوال ہے وہ صرف وہی ( شاہ ) ظاہر کرسکتے ہیں اور حکومت کے اداروں اور ان کے سربراہوں کے کام کاج پر وہ سر عام اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے ۔ اس طرح امیت شاہ نے پارٹی کو اور خود کو سبرامنین سوامی کے موقف سے بے تعلق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ در اصل ذمہ دارانہ سیاست کی نفی ہے ۔ بی جے پی صدر کو اس طرح اپنے آپ کو اس مسئلہ سے الگ تھلگ کرلینے کی بجائے پارٹی کا موقف واضح کرتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا چاہئے تھا ۔ امیت شاہ نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور یہ ذمہ دارانہ سیاست سے فرار اور اس کی نفی ہے ۔ اس طرح کی صورتحال ملک کی معیشت کیلئے صحت مند اور مناسب نہیں کہی جاسکتی ۔ گذشتہ دنوں جب وزیر فینانس ارون جیٹلی سے بھی سبرامنین سوامی کے بیانات کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اس کا راست جواب دینے یا حکومت کے موقف کو واضح کرنے سے گریز کیا تھا ۔ امیت شاہ ہوں یا ارون جیٹلی ہوں دونوں کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ سبرامنین سوامی کو خاموش کرواتے اور انہیں یہ ہدایت دی جاتی کہ وہ سر عام اس طرح کی بیان بازیوں کے ذریعہ حکومت اور اس کے اداروں کے ہی مابین کسی طرح کی سرد جنگ شروع کرنے کا باعث نہ بنیں۔

ایک تاثر ے بھی دیا جا رہا ہے کہ سوامی کے بیانات پر امیت شاہ اور جیٹلی کی خاموشی سے یہ تاثر نہیں لیا جاسکتا کہ مرکزی حکومت رگھو رام راجن کو ان کی معیاد مکمل ہونے کے بعد کوئی توسیع فراہم کریگی ۔ حکومت اس تعلق سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور ایسا کرنا اس کا اختیار تمیزی ہے لیکن سر عام اس پر مباحث کی اجازت دینا ایک جمہوری ڈھانچہ میں بنیادی اصولوں کے مغائر کہا جاسکتا ہے ۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ خود حکومت کے ایک اہم اور ذمہ دار ادارہ کے سربراہ کو اس میں گھسیٹا جائے ۔ بی جے پی کی قیادت ہو یا حکومت کے ذمہ داران ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے پالیسی فیصلوں میں اپنے اختیارات کا ضرور استعمال کریں لیکن حکومت کے اداروں اور ان کے سربراہوں کی کارکردگی پر خود اپنی پارٹی کے قائدین کو سر عام مباحث شروع کرنے کی اجازت یا موقع نہ دیا جائے یا جو مباحث شروع کرتے ہیں ان پر لگام کسی جائے ۔