سوئس بینکوں میں کالا دھن

یہ آگ تو دشمن کے کلیجے کو جلائے
شعلہ یہ وہی ہے جسے دریا نہ بجھائے
سوئس بینکوں میں کالا دھن
کالے دھن کو واپس لانے میں ناکام نریندر مودی حکومت پر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی تنقید بہت اہم ہے۔ شائد انھوں نے 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل ملک کی ہوا کا رُخ پرکھ لیا ہے۔ سبرامنیم سوامی نے جو بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن ہیں، کالے دھن کو واپس لانے میں حکومت کی ناکامی کا نوٹ لیتے ہوئے کہاکہ سوئس بینک کے خفیہ اکاؤنٹس میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران ہندوستانیوں کی جمع کردہ رقم میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی صاف و شفاف فضاء میں مودی حکومت کے لئے سبرامنیم سوامی کا یہ ریمارک انتخابی امکانات پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اپوزیشن کانگریس کے لئے کالے دھن، نوٹ بندی، رشوت ستانی اور جی ایس ٹی جیسے موضوعات 2019 ء میں انتخابات جیتنے کا اہم ہتھیار ہوں گے۔ اُصولاً دیکھا جائے تو 2014 ء میں نریندر مودی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے کسی بھی وعدہ کو پورا نہیں کیا۔ عوام کے بینک کھاتوں میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ وفا نہ ہوا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو ایک موقع ہاتھ لگ گیا ہے کہ وہ وزیراعظم مودی کے بلند بانگ دعوؤں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیں۔ سوئس بینکوں میں ڈپازٹ ہندوستانیوں کے کالے دھن کی تعداد 2017 ء میں 7000 کروڑ روپئے تھی اب اس میں ایک سال کے اندر 50 فیصد کا اضافہ ہونا مودی حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ مرکزی حکومت کو آنے والے دنوں میں کئی موضوعات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ اس نے ملک کے مسائل کو ابتری کی جانب ڈھکیلا ہے اس نے قومی و عالمی سطح پر ہندوستان کے موقف کو کمزور بنادیا ہے۔ ایک طرف سوئس بینکوں میں کالے دھن کے ڈپازٹ کرانے کی شرح میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں گراوٹ آئی ہے۔ 69 روپئے فی ڈالر کی گراوٹ باعث تشویش ہے۔ ایران سے پٹرول نہ خریدنے کے لئے ہندوستان پر امریکی دباؤ کے درمیان 2+2 مذاکرات کا التواء بھی مودی حکومت کی خراب خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ مابعد مالدیپ، سری لنکا کے راجہ پکسے نے داخلی اُمور میں مداخلت کے خلاف ہندوستان کو خبردار کیا ہے۔ سری لنکا کی قیادت جب ہندوستان کو انتباہ دینے کا حوصلہ کررہی ہے تو اندازہ کیجئے کہ مودی حکومت نے ہندوستان کی قدر کو کس طرح کمزٰر کردیا ہے۔ جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلائی گئی ہے۔ گاؤ رکھشکوں کو کھلی چھوٹ دے کر پولیس کی موجودگی میں مویشیوں کے غریب مسلم بیوپاریوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ ان تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے این ڈی اے بی جے پی حکومت اچھے دن آرہے ہیں کہ ویڈیوز وائرل کررہی ہے۔ ہندوستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی یہ کوشش آنے والے دنوں میں ہندوستانیوں کو بڑے مصائب سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے مودی کو ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مودی نے بحیثیت وزیراعظم اپنے بلند بانگ وعدوں کو فراموش کردیا ہے۔ روپے کی قدر کو مضبوط بنانے، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ ان وعدوں کے ذریعہ ہندوستانیوں کی توہین و تذلیل کی گئی۔ مودی کی عین ناک کے نیچے لاکھوں کروڑہا روپئے کے بینک قرضہ جات حاصل کرنے والے کارپوریٹ گھرانوں کے ذمہ داران اور تاجرین ملک سے فرار ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے بھی مودی حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کرکے عوام کو باخبر کردیا ہے کہ وہ ایسی حکمرانی کے تحت گمراہ ہوتے رہیں گے تو مطلب صاف ہے ملک میں رونما ہونے والے حالات کے لئے وہ خود بھی ذمہ دار ہوں گے۔ عوام اب خود سے سوال کرسکتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں آخر کونسی تدابیر اختیار کی جائیں۔ سوئس بینک میں کالے دھن کے جمع کرانے سے متعلق حکومت نے وضاحت کی کہ یہ کالا دھن نہیں ہے بلکہ ہندوستانیوں نے اپنے محنت کی رقم جمع کی ہے۔ وزیر فینانس پیوش گوئل نے کہاکہ سوئس بینکوں میں جمع رقومات کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ یہی حکمراں پارٹی 2014 ء سے قبل سوئس بینک اکاؤنٹس پر اپنی ہر بحث میں اس رقم کو کالا دھن سمجھتی تھی اور حکومت پر الزام عائد کرتی تھی کہ اس نے سوٹ بوٹ والے دوستوں کے لئے سوئس بینک کی شکل میں محفوظ مقام فراہم کیا ہے تاکہ یہ لوگ اپنے کالے دھن کو سفید بناسکیں۔ آج جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو سوئس بینک میں جمع تمام رقومات کالا دھن نہیں بلکہ سفید دھن دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ہندوستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے انھیں احمق سمجھا جارہا ہے تو پھر عوام بھی اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ سال بی جے پی حکومت کو واپسی کی راہ دکھادیں گے۔
تلنگانہ اور آندھراپردیش میں کانگریس کے روشن امکانات!
تلگو کی دو ریاستیں آندھراپردیش اور تلنگانہ عام انتخابات سے قبل ایک عجیب سیاسی اُلجھن سے گزر رہی ہیں۔ دونوں ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کا اپنے ہی قائدین پر بھروسہ اُٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔ گزشتہ ایک ماہ سے تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکمراں پارٹیاں ٹی آر ایس اور تلگودیشم میں قائدین کی مخالف پارٹی سرگرمیوں کا تنازعہ زور پکڑا ہے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو نظام آباد کے راجیہ سبھا ایم پی سابق کانگریس لیڈر ڈی سرینواس کے باعث پریشانی لاحق ہے تو آندھراپردیش میں سابق چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کو کانگریس میں واپس لانے پر غور ہورہا ہے۔ ڈی سرینواس کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو کانگریس انھیں دوبارہ اپنی صف میں شامل کرے گی۔ آندھرا کانگریس کے قائدین ایم پلم راجو اور ٹی سبی رامی ریڈی نے کرن کمار ریڈی کو کانگریس میں واپس آنے کی ترغیب دی ہے۔ پارٹی ہائی کمان انھیں قومی سطح کا رتبہ دینے کی بھی پیشکش کی ہے۔ آندھراپردیش میں کانگریس کے امکانات بھی اس وقت روشن ہوگئے جب بی جے پی نے منقسم ریاست اے پی کو خصوصی موقف دینے سے انکار کردیا۔ راہول گاندھی نے تیقن دیا ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت آتی ہے تو وہ اے پی کو خصوصی موقف دیں گے۔ آنے والے 2019 ء کے انتخابات جہاں دونوں ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کے لئے کڑی آزمائش ہوں گے وہیں کانگریس کے امکانات کو روشن کرنے والے حالات پیدا ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ان روشن حالات سے کس حد تک فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔