سن تو سہی جہاں میں تیرا فسانہ کیا!

محمد مبشرالدین خرم
ملک سے شاہی کا خاتمہ ہوئے سینکڑوں برس گزرچکے ہیں لیکن اب بھی شاہی کے کئی اثرات ملک میں باقی ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے دور کی کئی اچھی یادیں سرزمین ہند پر موجود ہیں جو کہ ہندوستان کا فخر کہلانے کی مستحق ہیں لیکن ان تاریخی یادگاروں پر موجود شاہی کے اثرات ملک میں سلطنت مغلیہ کو رسواء کرنے کے سبب بھی بن رہی ہیں۔ ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت میں جو تعمیری شاہکار تیار کئے گئے، ان میں کئی شاہکار آج بھی ہندوستان کا دورہ کرنے والے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے جن میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کوئی تاریخی وپرشکوہ عمارت ہے تو اسے تاج محل کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی طرح جب دارالحکومت میں مغلیہ دور کی یاد تازہ کرنی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کئی تاریخی عمارتیں جو کہ اس وقت کے مغلیہ طرز تعمیر کا شاہکار ہے، ذہنوں میں کوند جاتی ہیں جن میں جامع مسجد دہلی، قطب مینار، لال قلعہ و دیگر عمارتیں شامل ہیں جو شاہی طرز حکمرانی کی شاہکار ہیں۔

زوال شاہی کے بعد جن اقوام نے زوال پر گریہ وزاری نہیں کی بلکہ طرز کہن پر اڑنے کے بجائے زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوریت کو اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کی کوشش کی، وہ قومیں آج بھی خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں جبکہ طرز کہن پر اڑتے ہوئے آئین نو سے خوف پیدا کرنے والوں نے ملک میں جو احساس کمتری پیدا کر رکھا ہے، اس کے جمہوری دور میں ہزاروں مرتبہ منفی نتائج برآمد ہوچکے ہیں، اس کے باوجود بعض لوگ اپنی بقاء کی خاطر قوم کی تباہی کے سامان تیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں ان کی ایک شخصیت کے بجائے پوری قوم کو اسی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے جو نظریہ ان کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے کہ آج بھی وہ شاہی کے زوال پر ماتم کناں ہیں اور خود کو شاہ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں تاکہ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کو یقینی بناسکیں۔ جمہوری دور حکمرانی میں شاہی کا سہارا لیتے ہوئے زندگی گزارنے والوں کو اس بات کا بھی احساس باقی نہیں رہتا کہ وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہی سہی دیگر ابنائے وطن کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس سرزمین پر خود کو محکوم تصور کرتے ہیں۔

جامع مسجد دہلی کی ایک وسیع و عریض تاریخ جس کی تعمیر پانچویں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 1656 ء میں کروائی تھی جبکہ اس کا سنگ بنیاد 1650 ء میں رکھا گیا تھا۔ 6 سال میں تعمیر کے تمام مراحل مکمل کرنے والی یہ عظیم الشان عمارت سرزمین ہند کے کئی عروج و زوال کی شاہد ہے ۔ مغلیہ دور کے خاتمے اور انگریزوں کے تسلط کے ایک طویل عرصہ کے بعد جب سرزمین ہند کو آزادی میسر آئی اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے جھگڑوں کا آغاز ہوا اور ہندوستان سے مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کے نام پر کوچ کرنے لگے تھے تو اس وقت اسی جامع مسجد دہلی کی فصیل سے مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستانی مسلمانوںکو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اپیل کی کہ وہ مادر وطن کو نہ چھوڑیں اور اس ملک میں برابری کے حقوق حاصل کرتے ہوئے عزت کی زندگی گزاریں۔ مولانا آزاد کی اس اپیل کا ان لوگوں پر مثبت اثر ہوا جو جدوجہد کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے پاکستان کوچ کرنے میں عافیت سمجھی لیکن افسوس کہ مادر وطن کو چھوڑ کر پاکستان میں قیام کرنے والے آج بھی قومی سطح پر تحریک چلاتے ہوئے مہاجرین کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن جن لوگوں نے جمہوری ملک ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، وہ آج بھی ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہر اس طاقت سے الجھنے کیلئے تیار ہیں جن کی نگاہِ بد سرحد پر پہنچ رہی ہیں۔

شاہی کے خاتمہ کے ساتھ ہی تمام منصبِ شاہی بھی ختم ہوگئے لیکن شاہی منصب امامت پر اب بھی کچھ لوگ برقرار جو خود کے منصب کے آگے شاہی تو لگاتے ہیں لیکن جمہوری عمل میں بھی اپنی ٹانگ اڑانا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ جامع مسجد دہلی کے منصب امامت پر فائز موجودہ پیش امام مولانا سید احمد بخاری کا تعلق مولانا سید عبدالغفور شاہ بخاریؒ کی نسل سے ہے اور وہ سابق پیش امام جامع مسجد دہلی سید عبداللہ بخاری کے فرزند ہیں جو 22 نومبر کو اپنے 19 سالہ فرزند سید شعبان بخاری کو جانشین مقرر کرنے جارہے ہیں۔ شاہی امام کے جانشین و نائب تقرر کیلئے منعقد ہونے والی تقریب کے مہمانوں کی فہرست میں پڑوسی ملک پاکستان کے وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف کے نام کی موجودگی نے جو ہنگامہ کھڑا کیا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طرز کہن پر اڑنے والوں نے نہ صرف قوم کو نقصان پہنچانے کوئی کسر نہ رکھی بلکہ اپنی ذاتی شہرت کیلئے ایسے تنازعات بھی کھڑا کردیئے جو ان کے منصب کو زیب نہیں دیتے۔

نسل در نسل شاہی کی برقراری کی تمنا رکھنے والوں کو شاید اپنے ہی خاندان میں قابل و لائق افراد نظر آتے ہیں جبکہ دنیا میں اور بھی متقی، پرہیز گار، اہل علم ، اہل تقویٰ، باشعور، مدبر، اہل دانش موجود ہوتے ہیں لیکن شاہی کی نظریں اکثر ان پر نہیں پہنچتی اور اگر پہنچتی بھی ہے تو شاید ایسے اہل علم و تقویٰ ، باشعور ، مدبر ، اہل دانش سے انہیں اپنی شاہی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اسی لئے وہ انہیں نظر انداز کرجاتے ہیں تاکہ اگر موقع ہی نہ دیا جائے تو کیا وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں گے اور کیا لوگوں کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ سینٹ زیویئرس نامی معروف عیسائی مشنری اسکول کے فارغ سید شعبان بخاری جو کہ 22 نومبر کو نائب شاہی امام کا لقب حاصل کرنے جارہے ہیں، ان کی تقریب جانشینی میں پاکستانی وزیراعظم کو مدعو کیا گیا ہے۔ بیشک یہ معاملہ بخاری خاندان کا ہو لیکن بخاری خاندان کو ملک کے مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیا جانا درست نہیں ہے چونکہ سید احمد بخاری کا اقدام اپنے خاندان کی اہمیت کو وضع کرنا ہے جس کا ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ خود کے نام کے آگے شاہی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اپنی اہمیت جتانے والے بخاری شاید یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ شاہی کا رد کرنے والی جمہوریت میں بھی وہ اکثر و بیشتر ٹانگ اڑاتے رہے ہیں۔ انہوں نے دوران انتخاب کبھی اپنے داماد کو کونسل کا رکن بنانے سماج واد کی تائید کی لیکن انہیں مظفر نگر یاد نہیں آیا۔ جب انہوں نے کانگریس کی تائید کی تو شاید بھاگلپور کو فراموش کر گئے۔ جب وقت آیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تائید کی جائے تو انہیں بابری مسجد کا غم نہیں ستایا۔ اسی طرح اکثر و بیشتر ’’شاہی‘‘ کے لفظ کا مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ استحصال ہوتا رہا تاکہ جمہوری طرز انتخاب میں رائے دہندوں کو راغب کروایا جاسکے۔

جامع مسجد دہلی وقف بورڈ کی ملکیت ہے اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ سید احمد بخاری کے والد سید عبداللہ بخاری نے 1976 ء میں وقف بورڈ کو ایک عرضداشت پیش کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی تھی کہ ان کی تنخواہ جو کہ اس وقت 130 روپئے تھی، اسی بڑھاکر 840 روپئے کیا جائے۔ سید عبداللہ بخاری مرحوم کے اس اقدام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ پیشۂ امامت سے وابستہ دہلی وقف بورڈ کے ایک ملازم تھے جنہوں نے جامع مسجد دہلی کی امامت کے فرائض ایک طویل عرصہ تک انجام دیئے ہیں۔ مسجد ضرور شاہی ہوسکتی ہے لیکن امام کا شاہی ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ انہیں مسلمانوں کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے ان کے اقدامات پر تنقیدوں کے بجائے اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آخر اس شخص کے کتنے چاہنے والے ملک میں موجود ہیں جو ان کے اقدامات اور اعلانات کی حمایت کرتے ہیں۔
سید احمد بخاری کا یہ کہنا ہے کہ فرزند کی جانشینی تقریب ان کا شخصی معاملہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں چونکہ حکومت کے تحت خدمت انجام دینے والے وقف بورڈ کے زیر انتظام چلائی جانے والی مسجد کے نائب امام کی حیثیت سے اپنے فرزند کو مقرر کرنے کی وہ بات کر رہے ہیں۔ جہاں تک تعلق وزیراعظم ہند نریندر مودی کو دعوت نہ دیا جانا اور وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کئے جانے کا ہے، اس کے تعلق سے بس اتنا ہی کہا جارہا ہے کہ بخاری نے صرف ان ہی لوگوں کو مدعو کیا ہے جن سے ان کے تعلقات ہیں، جب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فرزند کی جانشینی کے معاملہ کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے تو انہیں اس بات کا بھی احساس رکھنا چاہئے کہ یہ تقریب کی بنیاد ہی غلط ہے اور شاہی امام کا یہ اقدام ہی قانونی اعتبار سے درست نہیں۔ حالیہ عرصہ میں مسجد کی آمدنی کے علاوہ دیگر امور سے حاصل ہورہی دولت کے حساب مانگتے ہوئے جامع مسجد کی دیواروں پر پوسٹرس چسپاں کئے ہوئے تھے اور بارہا مسجد کے اندرونی حصوں میں تعمیری تبدیلیوں کے خلاف تاریخی و تہذیبی عمارتوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والوں میں شکایات بھی درج کروائی ہیں۔

ذرائع ابلاغ اداروں کی جانب سے سید احمد بخاری کے نریندر مودی کو دعوت نہ دیئے جانے پر جو مسئلہ پیدا کیا جارہا ہے بجائے اس کے بنیادی مسئلہ پر توجہ دیتے ہوئے شاہی کے اس منصب کو ہی جمہوریت میں باقی نہ رکھتے ہوئے شرعی نقطہ نظر سے امام کے انتخاب کو یقینی بنانے پر توجہ مبذول کرنی چاہئے ۔ وزیراعظم پاکستان کو مدعو کیا جانا اگر بخاری کا شخصی فیصلہ ہے تو وہ انہیں مبارک لیکن اس کا ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ ذرائع ابلاغ اداروں کی جانب سے اس بات پرتوجہ دی جارہی ہے کہ کون بخاری کے اقدام کی حمایت یا مذمت کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ ادارے اگر واقع ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے تئیں صاف ذہن رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کے بجائے مسلمانوں کی املاک جو غیر مجاز غاضبین کے قبضوں میں ہیں انہیں واپس دلوانے کی جدوجہد کا حصہ بنیں تاکہ مسلمان جو کہ ملک کی عدلیہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں، انہیں جمہوری حکومت اور جمہوریت کے چوتھے ستون ذرائع ابلاغ پر بھی حکمرانی یقین ہو جتنا عدالتوں پر وہ کرتے ہیں تب ہی جاکر ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو شاہی پر ماتم کناں رکھنے والوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے اور وہ جمہوریت کا حصہ بنتے ہوئے ملک کی ترقی کی میں برابر کی حصہ داری ادا کرسکتے ہیں۔
سن تو سہی جہاں میں تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا