مرحومہ کے پنجوقتہ نمازی اور حافظہ ہونے والد اور بھائی کا ادعا
کابل ۔ 23 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) ایک افغانی خاتون جسے توہین رسالت ؐ کا مرتکب پایا گیا تھا اور جسے ہجوم نے زدوکوب کرکے ہلاک کردیا تھا اور بعدازاں اس کی نعش کو نذرآتش کردیا تھا، کی تدفین میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ وسطی کابل میں 27 سالہ فرخندہ جسے ایک ہجوم نے سنگسار کردیا تھا بعدازاں خواتین کے بڑے مجمع نے مہلوک خاتون کو قبرستان پہنچایا۔ اس وقت مردوںکی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اسے مردوں کے اجارہ داری والے سماج میں خواتین کے انوکھے احتجاج سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ خواتین کاہجوم اس وقت اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا تھا اور حکومت سے مطالبہ کررہا تھا کہ خاتون کے قاتلوں کو سزاء دی جائے۔ دریں اثناء انسانی حقوق کی ایک علمبردار باری سلام نے کہا کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جو انسانیت سوز ہے۔ خود اس کے خاندان کے خلاف ہے جسے مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ جس جس نے اسے مار ا جس جس نے اس کی ہلاکت کی تائید کی، ان سب کو قانون کا تقاضہ پورا کرتے ہوئے سزائیں دی جائیں۔ یہاں اس بات کاتذکرہ دلچسپ ہوگا کہ خاتون کو متعدد پولیس افسران کی موجودگی میں سنگسار کیا گیا اور وہ سب خاموش تماشائی بنے رہے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ فرخندہ کے والد کا کہنا ہیکہ ان کی بیٹی حافظہ تھی اور اسلامک اسٹڈیز کا ڈپلومہ بھی اس کے پاس تھا۔ لہٰذا وہ توہین رسالت ؐ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیسے کرسکتی ہے؟ فرخندہ کے بھائی نجیب اللہ ملک زادہ نے بھی اپنے والد کے بیان کی توثیق کی۔ اس نے وہاں جمع ہجوم سے مخاطب ہوکر کہا کہ فرخندہ پنجوقتہ نمازی تھی اور قرآن کی حافظہ تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ بتایا گیا ہیکہ فرخندہ کو کس طرح ہجوم نے پولیس والوں کی موجودگی میں ہلاک کیا، اس کی نعش کو جلایا اور بعدازاں دریابرد کردیا تھا جسے بعد میں وہاں سے نکالا گیا۔ تدفین میں شرکت کرنے والی ایک خاتون مریم مصطفوی نے کہا کہ اس واقعہ سے ایک بار پھر پولیس کے نااہل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا اب فضول ہیکہ پولیس والے ہمارے دشمنوں سے ہمارا تحفظ کیسے کریں گے۔ دوسری طرف صدر افغانستان اشرف غنی نے بھی اس شرمناک واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔