سنجیو بھٹ کی برطرفی

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
سنجیو بھٹ کی برطرفی
نریندر مودی کی ریاست گجرات کی حکومت نے بالآخر ایک دیانتدار ‘ فرض شناس ‘ حوصلہ مند پولیس عہدیدار کے کیرئیر کو ختم کردیا ۔ حکومت گجرات نے آ:ی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ کو خدمات سے برطرف کردیا ہے ۔ سنجیو بھٹ کو 2011 میں معطل کردیا گیا تھا جب نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے ۔ اب مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں اور گجرات میں ان کی پارٹی کی ہی حکومت ہے ۔ حکومت گجرات نے اسی وقت سے سنجیو بھٹ کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا تھا جب سنجیو بھٹ نے نریندر مودی کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تھی ۔ سنجیو بھٹ نے گجرات میں ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس قتل عام کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ سنجیو بھٹ نے یہ انکشاف کردیا تھا کہ خود نریندر مودی نے گجرات پولیس کے اعلی عہدیداروں کو ہدایت دی تھی کہ وہ گودھرا ٹرین واقعہ کے بعد ہندووں کو اپنی برہمی نکالنے کا موقع دیں۔ اس طرح مودی نے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دینے کی ہدایت دی تھی جس کا انکشاف سنجیو بھٹ نے کیا تھا ۔ سنجیو بھٹ نے یہ ادعا بھی کیا تھا کہ وہ خود نریندر مودی کی قیامگاہ پر منعقدہ ایک اجلاس میںشریک تھے اور اسی اجلاس میں یہ ہدایت دی گئی تھی ۔ سنجیو بھٹ کے اس انکشاف کے بعد سے حکومت گجرات نے ان کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں جو کل بالآخر خدمات سے ان کی برطرفی کی شکل میں اپنے منطقی انجام کو پہونچ گئیں۔ خود سنجیو بھٹ نے سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر انہیں برطرف کردئے جانے کا انکشاف کیا اور کہا کہ وہ ایک بار پھر روزگار تلاش کرنے کے اہل ہوگئے ہیں۔ یہ ان کے اندر کا طنز تھا جو شائد مودی یا گجرات کی حکومتیں محسوس نہ کرسکیں۔ سنجیو بھٹ نے ان کی برطرفی کے حکمنامہ کو چیلنج نہ کرنے کا بھی اعلان کردیا اور کہا کہ جب حکومت وقت ہی ان کی خدمات حاصل کرنے کی خواہشمند نہیں ہیں تو وہ خود بھی اپنے آپ کو حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرینگے۔ یہ حکومت کی انتقام پسندانہ کارروائی پر فطری رد عمل تھا اور اس سے سنجیو بھٹ کے کردار کا پتہ چلتا ہے۔ گجرات کی حکومت نے سنجیو بھٹ مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے خدمات سے علیحدہ کیا ہے ۔
حکومت گجرات چاہتی تھی کہ سنجیو بھٹ ناناوتی کمیشن کے روبرو حاضر نہ ہوں اور نہ ہی وہاں نریندر مودی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن جب سنجیو بھٹ نے ناناوتی کمیشن میں حاضری دی اور اپنا بیان دیا تو حکومت نے ان پر ڈیوٹی سے غیر مجاز طور پر غیر حاضر رہنے کا الزام عائد کیا ۔ اس وقت سنجیو بھٹ کی والدہ بھی علیل تھیں لیکن اس انسانی پہلو کو بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ سنجیو بھٹ نے ان پر عائد تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور حکومت پر یکطرفہ تحقیقات کرواتے ہوئے انہیں بیدخل کرنے کا ادعا کیا ہے ۔ سنجیو بھٹ وہ آفیسر ہیں جنہوں نے نہ صرف حکومت وقت سے ٹکرانے کا حوصلہ اپنے آپ میںپیدا کیا تھا بلکہ انہوں نے نریندر مودی کو جب وہ چیف منسٹر تھے چبھتے ہوئے الفاظ میں مکتوب روانہ کیا تھا ۔ انہوں نے مودی سے سوال کیا تھا کہ آیا انہوں نے کبھی میڈیا کی جانب سے سجائے سنوارے ہوئے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے حقیقی چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی تھی ؟ ۔ یہ در اصل گجرات فسادات کا حوالہ تھا جو مودی کے دور حکومت میں ہوئے تھے ۔ انہوں نے سوال کیا تھا کیا مودی نے کبھی فساد ملزمین کے افراد خاندان کے دکھ درد کو سمجھا ہے ؟ ۔ یہ ملزمین تو بہکاوے اور اشتعال کی وجہ سے فسادات میں ملوث ہوئے تھے لیکن جب وہ جیلوں میں چلے گئے تو ان کے افراد خاندان کن مسائل سے گذرے ہیں کیا کبھی مودی نے ان کے تعلق سے سوچا ہے ؟ ۔ سنجیو بھٹ نے مودی سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ کیا اقتدار اتنا پیارا ہوتا ہے کہ انسانوں کو قربان کرتے ہوئے اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے ؟ ۔
سنجیو بھٹ کو ڈسیپلن شکنی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گجرات نے یا پھر بالواسطہ طور پر خود نریندر مودی نے افسر شاہی کو یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہی عہدیدار عہدوں اور انعامات کے مستحق سمجھے جائیں گے جو حکومت کے ہر اشارے کو حکم سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرض شناسی کو کہیں پس پشت ڈال دیا جائے ۔ جو عہدیدار حکومت کے سیاہ و سفید کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کرینگے ان کا حال بھی سنجیو بھٹ جیسا ہوگا ۔ بحیثیت مجموعی حکومت گجرات کی کارروائی انتقامی کارروائی ہی کہی جاسکتی ہے اور یہ انتہائی افسوسناک اور بدبختانہ ہے ۔ اگر اس طرح کے فرض شناس اور ذمہ دار عہدیداروں کا یہ حشر کیا جاتا ہے تو پھر مستقبل میں افسر شاہی سے کسی ایمانداری اور فرض شناسی و حوصلہ مندی کی امید رکھنا فضول ہی ہوگا۔