محمد ریاض احمد
ہندوستان میں آج کل ہر سیاستداں، اعلیٰ سے لے کر ادنی عہدہ دار عام آدمی طلباء و طالبات ہر کسی کے ہاتھ میں جھاڑو دکھائی دے رہی ہے۔ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اپنے انتخابی نشان جھاڑوں کے ذریعہ دہلی اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے کانگریس بالخصوص بی جے پی کے امیدوں اور ارمانوں پر جھاڑو ماردی تب سے ہمارے ملک میں جھاڑو نے مقبولیت کے معاملہ میں ماضی کے سارے ریکارڈس توڑ دیئے ہیں۔ آج ملک میں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان، پرینکا چوپڑہ، دیپیکا پڈوکون، رانی مکرجی، کرینہ کپور، سیف علی خان، اکشے کمار یا پھر نریندر مودی سونیا گاندھی، ایل کے اڈوانی، راہول گاندھی، لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو بھی مقبولیت کے لحاظ سے جھاڑو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اروند کجریوال کی دیکھا دیکھی سارے ہندوستان کی صفائی کے لئے اپنے ہاتھوں میں جھاڑو تھام لینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد بی جے پی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کے ہاتھ میں جھاڑو دکھائی دے رہی ہے اور وہ کم از کم میڈیا کے سامنے سڑکوں، گلیوں، دفاتر اور اسکولوں میں جھاڑو مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہاں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ جھاڑو گرد و غبار، کچرا، آلودگی وغیرہ کی صفائی اور شفافیت کی علامت بن گئی ہے۔ اس کے ذریعہ جہاں بیویاں اپنے شوہروں کو سدھارنے کا کام لے رہی ہیں وہیں خواتین اور طالبات بالترتیب اپنے دفاتر کام کاج کے مقامات اور کالجس میں سڑک چھاپ فرہادوں کی پٹائی کے لئے استعمال کررہی ہیں۔
جھاڑو کی مقبولیت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں عوام اپنے مسائل کے حل نہ کئے جانے اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ رشوت خوری و بدعنوانیوں سے عاجز آکر ان ہی جھاڑؤں سے سیاستدانوں اور عہدہ داروں کی اچھی طرح صفائی ہمارا مطلب ہے پٹائی شروع کردیں گے۔ اپنے ہاتھوں میں جھاڑو تھامتے ہوئے شاید نریندر مودی اور اروند کجریوال کو بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ یہ ایک دن عوام کا موثر ہتھیار بن سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو جھاڑو عالمی سطح پر اپنی ایک خاص پہنچان و انفرادیت رکھتی ہے۔
جس طرح مختلف علاقوں کے رسم و رواج اور وایات مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ہر ملک ہر علاقہ میں جھاڑو بھی مختلف انداز کی ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں بے شمار ذاتیں ہیں جو مختلف انواع و اقسام کی جھاڑو استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بنجارے گھاس کی جھاڑو کو ترجیح دیتے ہیں اور دلت بمبو کی جھاڑو استعمال کرتے ہیں۔ ہندوستان میں گھاس، کھجور کے درخت کے پتوں، ناریل کے درخت کے پتوں، بانسری اور بمبو کی جھاڑؤں کا استعمال عام ہے۔ بمبو کی تجارت نے تو اب ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جھاڑوؤں کی تیاری میں خواتین بہت زیادہ ماہر مانی جاتی ہیں اور اکثر خواتین ہی جھاڑو تیار کرتی ہیں اور زیادہ تر جھاڑو دستی ہوتی ہیں۔ جھاڑو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ راجستھان کے جودھپور علاقہ میں ایک ایسا میوزیم قائم کیا گیا ہے جہاں بے شمار اقسام کی جھاڑوئیں رکھی گئی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے کہ جھاڑوؤں کو شہرت کی بلندی پر پہنچانے کا سہرہ عام آدمی کے سربراہ اروند کجریوال کے سر جاتا ہے۔ جب سے عام آدمی پارٹی نے جھاڑو کو اپنا انتخابی نشان بنایا تب سے وزیراعظم نریندر مودی میں ایک قسم کی بے چینی پائی جاتی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ کجریوال اور عام آدمی پارٹی کے ورکروں کے ہاتھوں میں جھاڑو دیکھ کر ہی انہیں ’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘ (ہندوستان کی صفائی مہم) کا خیال آیا ورنہ ہندوتوا کے خطوط پر سوچنے والوں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ملک اور ماحول کو پاک صاف رکھنے کے بارے میں کچھ فکر کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ عوام کو مذہب
ور ذات پات، رنگ و نسل، علاقہ اور زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہنے والوں کے ذہن فرقہ پرستی کی گندگی سے اس قدر آلودہ رہتے ہیں کہ وہاں صرف فرقہ پرستی تعصب، جانبداری بغض اور حسد کے خطرناک کیڑے اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ جہاں تک ملک میں سوچھ بھارت مہم کا تعلق ہے جھاڑو دینے والوں کی کثرت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ مہم ہندوستان میں ’’آئس بکٹ چیلنج‘‘ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فلمی ستاروں سے لے کر سیاستداں مرکزی و ریاستی وزراء اگرچہ اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے جھاڑو دینے لگے ہیں لیکن صفائی ایسے نہیں ہوتی جس طرح بدعنوان سیاستداں اور عہدہ دار عوامی دولت پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اس انداز میں کچرے کی صفائی کرنے لگیں تو بہتر ہے ورنہ یہ صرف ایک مذاق اور وقت گذاری کا مشغلہ ہے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں بڑے بڑے فلمی ستاروں وزراء اور صنعت کاروں کو صفائی کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ ان کی بڑی بڑی تصاویر شائع کی جارہی ہیں لیکن وہ صرف چنندہ مقامات اور دفاتر میں جہاں صفائی کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے صفائی کرنے کی زحمت کررہے ہیں اگر مودی یا ان کی کابینی رفقاء پارٹی ارکان،
حلیف جماعتوں کے قائدین اور وزیر اعظم کے ہمنوا فلمی ستاروں و صنعتکار ہندوستان میں صفائی کے لئے اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ عوام کی مرضی سے پسماندہ بستیوں میں صفائی کرنی چاہئے تب ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی سے لے کر ان کے پارٹی قائدین اور ہمنوا اس مہم کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ صرف ہاتھوں میں جھاڑو تھام کر صاف ستھرے مقامات پر جھاڑو دینا کوئی بڑی بات یا بڑا کام نہیں ہے۔ اس مہم کی ایک اچھی بات یہ سامنے آئی کہ جھاڑوؤں کی فروخت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔ جس طرح عام آدمی پارٹی کی ٹوپیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا اب جھاڑوؤں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ جو کم سے کم 10 روپے سے لے کر 30 روپے یہاں تک کہ 50 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں مختلف مذاہب جھاڑو کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ ہندوؤں کے پاس تو جھاڑوکتھا سنائی جاتی ہے۔ جبکہ مور کے پروں سے تیار کردہ جھاڑو نظر بدسے بچانے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ بعض ایسے مقامات ہیں جہاں بطور نذرانہ جھاڑو پیش کی جاتی ہے۔ جھاڑو جہاں صاف صفائی کی علامت ہے وہیں اسے تحقیر کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جاروب کشوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا حالانکہ وہ عوام کو پاک و صاف ماحول فراہم کرنے کے لئے ہر روز سڑکوں، گلیوں میں صفائی کرتے ہیں۔ جھاڑو دیتے ہیں۔ جھاڑو زندگی کے ہر شعبہ میں استعمال کی جاتی ہے۔ انڈر ورلڈ کی ٹولیاں بھی اکثر و بیشتر لفظ جھاڑو کا استعمال کرتی ہیں لیکن ان کے لئے جھاڑو کا مطلب AK57 اسالٹ رائفل ہوتا ہے۔ جو لمحوں میں بے شمار زندگیوں کا صفایا کردیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں جھاڑو نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔ 1925 میں مہاتما گاندھی ہمیشہ ہاتھ میں جھاڑو لئے آس پاس کے علاقوں کو صاف کرنے کے لئے تیار رہا کرتے تھے۔ جھاڑو کے حوالے سے ڈاکٹر ہری پرساد دیسائی سنت گڈگے پرساد وغیرہ بھی کافی مشہور ہیں۔ اب اس فہرست میں اروند کجریوال اور مودی بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جھاڑو کی اہمیت و افادیت کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جھاڑو کی صنعت ایک بہت بڑی صنعت میں تبدیل ہو جائے گی۔ میگھالیہ جیسی ریاست میں تو جھاڑوؤں کی تیاری میں استعمال ہونے والی گھاس یا مواد کی صنعت کے باعث سیاحت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ بہرحال ہندوستانی عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں جمع گندگی غلاظت اور کچرہ کو صاف کیا جائے لیکن سرکاری خزانے پر جھاڑو دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
mriyaz2002@yahoo.com