سناتھن سنستھا اور دہشت گردی کا دھندہ۔ شکیل شمسی

ہندو مذہب کے عہد ماضی میں تین نام رہے ہیں سناتن ‘ ویدک او رآریہ دھرم ۔ سناتن کا مطلب ہوتا ہے اندی او ردائمی یعنی جو ہمیشہ سے ہے او رہمیشہ رہے گا‘ ویدک دھرم کا مطلب ہوتا ہے ویدوں کے مطابق زندگی گذارنے والو ں کا مذہب۔ آریہ مذہب اس وجہہ سے کہاجاتاتھا کہ ہزاروں سال پہلے سینٹر ایشیاء سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہونے والیہ آریائی باشندے اپنے ساتھ ا س مذہب کو لائے تھے۔

جہا ں تک ہندو کا سوال ہے تو یہ لفظ یہاں کی لغت میں موجود نہیں تھا۔ ہمارے پڑوسی میں ایران تھا جہاں کے باشندے اپنے آپ کو سفید فام اور برصغیر میں رہنے والے لوگوں کو سیاہ فام تصور کرتے تھے ۔

اس لئے اپنی زبان میں کالے کے لئے استعمال ہونے والے لفظ ہندو کی مناسبت سے یہاں والوں کو ہندو کہا کرتے تھے اور اہل عرب سندھ کی وجہہ سے اس کو ہند کہتے تھے۔

پھر جب مسلمانوں کو یہاں پر حکومت کرنے کا موقع ملا او رانہوں نے اس سرزمین کو اپنا وطن بنایا تو انہو ں نے خود کو مسلمان اور مقامی لوگوں کو ہند و کہنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کا مذہب ہندو کہلایاجانے لگا۔

ہند فرقہ خود کو عدم تشد د او رپرامن پر یقین رکھنے والا کہتا آیاہے مگر پچھلی صدی میں ہندوؤں کے درمیان سے ایک ایسا طبقہ ابھرا ہے جس نے تشدد کو اپنے مذہب کا ایک اہم حصہ سمجھا اور پھر اس کو فرقہ وارایت میں تبدیل کرکے طاقت کے بل پر اپنے لئے مذہبی ریاست ہندو راشٹرکے نام سے بنانے کی کوشش کی۔

اس طبقے میںآر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظمیں شامل ہیں او ران سے وابستہ رہ چکے ناتھو رام گوڈ سے نام کے ایک ہندو نے عدم تشدد پر یقین رکھنے والے دوسرے ہندو مہاتما گاندھی کو ان ہی کے خون میں نہلادیا۔

گاندھی جی کے قتل کے بعد تمام ہندو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ لوگ کچھ وقت کے لئے گوشہ نشین ہوگئے ۔ لیکن ایمرجنسی کے بعد جب انھیں آزادی ملی تو ان سب نے سیاست میں اپنے پاؤ ں پھیلانے شروع کردئے اور پھر ایک دن ایسا آیاکہ انہیں ملک پر حکومت کرنے کا موقع بھی مل گیا‘ لیکناس سیاسی گروہ نے نہ تو خود کو گاندھی سے الگ کیااو رنہ ہی گوڈ سے کو کبھی اپنا رہنما بنایا۔

مگر پچھلے کچھ سالوں سے اچانک گاندھی کے قاتل کو ہیرو بنانے والے کھل کر سامنے آگئے ہیں اور یہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے گوڈسے کا مندر بناڈالا۔

گوڈسے کے جیسی ذہنیت رکھنے والے ان ہی لوگوں نے پہلے ابھینو بھارت نام کی دہشت گرد تنظیم بنائی جس نے مکہ مسجد‘ اجمیر اور مالیگاؤں کے قبرستان او رسمجھوتا ایکسپرس میں بم دھماکے انجام دئیاور جب اس کابھید کھلا اور بھگوادھاری دہشت گردپکڑے گئے تو یہ کہنا شروع کیاکہ ہیمنت کرکرے کی سازش کانتیجہ ہے۔

پھر ان دہشت گردوں کی حمایت میں ہندوتوا وادی تنظیمیں نکل کر سامنے ائیں جنھوں نے حکومت پر اس قدر زور ڈالا کہ مقدمات کو کمزور بنادیاگیااور دہشت گردوں کوضمانت مل گئی۔

ادھر کرناٹک ‘ مہارشٹرا اور کیرالا جیسی ریاستوں میں دہشت گرد عناصر کلبرگی ‘ پنسارے ‘ اور گوری لنکیش جیسے درجنوں لوگوں کو چھپ چھپ کر مارتے رہے اور ان کے تار سناتن سنستھا سے جاکر ملے‘ مگر سب بھگوادھاری جماعتیں اس کو غلط قراردیتی رہیں۔

اب اچانک مہارشٹرا کی اے ٹی ایس نے سناتن سنستھا پر خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر چھاپے مار کر بڑی تعداد میں بم اور وافر مقدار میں دھماکہ خیزمادہ برآمد کیاتو اس بھگوادھاری تنظیم کااصلی چہرہ بے نقاب ہوگیاہے۔

حالانکہ اب بھی کچھ لوگ اس کو سازش قراردے رہے ہیں مگر سونچنے کی بات یہ ہے کہ اس بار تو مرکز او رمہارشٹرا دونوں جگہ بی جے پی حکومت ہے وہ بھلا ہندوتوا وادیوں کو دہت گردی کے الزام میں کیو ں گرفتار کرے گی؟

اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے دہشت گردی کو ہی اپنے مذہب کی فلاح کا ضامن سمجھ لیاہے‘ پہلے سکھوں نے تشد د کاراستہ اختیار پھر تملوں نے لوگوں کو جیناحرام کردیا اس کے بعد کچھ گمراہ مسلمانوں نے دہشت گردی اک راستہ اختیار کیااوراب ہندوؤں کا ایک گروہ دہشت گردی اور تشدد کو اپنے مذہب کا حصہ سمجھ رہا ہے ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہندوتوا وادی گروہ مسلسل یہ پروپگنڈہ کررہے ہیں کہ ہندومذہب خطرے میں ہے لیکن ہمارے ایک دوست پروین شرما نے فیس بک پر بڑا اچھالکھا کہ ہندو مذہب کو آج سب سے بڑاخطرہ ہندوتوا وادیوں سے ہی ہے۔