ثریا جبین
جب تک بھائی جان کی شادی نہ ہوئی تھی، وہ ہم دونوں بہنوں کو بے حد چاہتے تھے۔ ہماری اس طرح حفاظت کرتے جیسے مرغی اپنے پروں میں بچوں کو چھپا لیتی ہے۔ ہمارے سونے، اُٹھنے کام کاج، غرض ہر چیز پر ان کی نظر تھی۔ رات کو سوتے وقت وہ کمبل اُڑھانا نہ بھولتے۔ مبادہ سردی نہ لگ جائے۔ ایک دن میری بڑی بہن ثمینہ کو بخارا آگیا۔ مارے فکر کے بھائی جان سو نہ سکے۔ وہ رات انہوں نے اس کے سرہانے بیٹھ کر گزار دی۔ دودھ اور پانی سب اپنے ہاتھ سے پلاتے۔ بچپن میں ہمارے والدین کا سایہ اُٹھ گیا تھا۔ بھائی جان ماں اور باپ بن کر ہماری پرورش کررہے تھے۔ ہم دونوں بہنیں نویں اور دسویں جماعتوں میں تھیں۔ ہماری پڑھائی پر خاص طور سے توجہ دیتے۔ امتحانات شروع ہوتے تو وہ ایسے تیاری کرتے جیسے خود انہیں امتحان دینا ہو۔ رات دیر گئے تک پڑھاتے اہم سوالات یاد کرواتے۔ اپنی طرف سے پرچہ تیار کرتے اور کہتے خوب اچھی طرح یاد کرلو ، اس میں سے ضرور سوالات آئیں گے۔ ہمارا ان پر اتنا یقین اور بھروسہ تھا کہ ہم آنکھ بند کرکے ان کی ہر بات مانتے تھے۔ جب امتحان کا دن آتا تو سنٹر کے مقام پر پرچہ ختم ہونے تک بیٹھے رہتے، پھر آتے ہی بڑی بے چینی سے پوچھتے۔ ’’تمام سوالات حل کرلئے نا؟ جب ہمیں خوش دیکھتے تو کہتے، میں نے کہا تھا، یہی سوالات آئیں گے۔ میں چھوٹی تھی۔ وہ مجھے بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ میری ہر خواہش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اگر بے جا خواہش ہوتی تو بڑے پیار سے سمجھاتے۔
بھائی جان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ حکومت کے ایک بڑے آفس میں جوائنٹ ڈائریکٹر تھے۔ آفس کے علاوہ خاندان میں بھی اپنی اعلیٰ قابلیت اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ہم دونوں کو کسی کے پاس اکیلا کبھی نہ چھوڑتے۔ خاندان کی تقریب میں ہم سب ساتھ جاتے۔ بھائی جان سنجیدہ اور بردباد ہونے کے علاوہ بذلہ سنج بھی تھے۔ رشتہ کے بھائی کبھی کبھی ملتے آتے لیکن ایک حد کے اندر۔ بہنوں سے زیادہ بے تکلف ہونے کی اجازت نہ تھی۔ چائے کے بے حد شوقین تھے۔ ان کا یہ شوق میں خوشی خوشی پورا کرتی۔
پھر بھائی جان کے لئے رشتے آنے لگے۔ جب بھی کوئی رشتہ آتا ہم دونوں سے مشورہ کرتے اور کہتے پہلے ثمینہ کی شادی ہوگی۔ ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ بھائی جان ہمارے لئے اتنی قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہیں بھی تو ایک محبت کرنے والی بیوی کی ضرورت ہوگی، لیکن وہ پہلے ہم دونوں کی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتے تھے۔ ہم دونوں نے بھائی کو سمجھایا۔ آپ شادی کرلیں۔ بھابی آئیں گی تو گھر میں کتنی رونق آجائے گی۔ ہم تو انہیں خوب چاہیں گے۔ ان کے ساتھ سیر تفریح کو جائیں گے، کتنا مزہ آئے گا۔اس طرح ہم دونوں بہنوں نے بھائی جان کو اتنا مجبور کیا کہ وہ راضی ہوگئے۔ اب ہم نے ان کے لئے لڑکیاں دیکھنی شروع کیں۔ ہمارے ساتھ ہماری آنٹی بھی ہوتیں۔ ایک جگہ لڑکی پسند آگئی۔ اکلوتی لڑکی تھی اور دو بھائی تھے۔ متوسط گھرانہ تھا۔
ہم دونوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ اس طرح بھابی ہمارے گھر آگئیں۔ پڑھی لکھی، بی اے، بی ایڈ تھیں۔ ہم دونوں B.Sc. میں تھے۔ صبح اُٹھ کر کچن میں جاتے۔ پھر کام والی آجاتی۔ بھابی کو ہم کوئی کام کرنے نہ دیتے۔ وہ سارا سارا دن کمرے میں بیٹھی TV دیکھتی رہتیں۔ ہمیں ان سے کوئی شکایت نہ تھی۔ محبت کے مارے ہم کالج سے آتے ہی ان کے کمرے میں پہنچ جاتے۔
پھر رفتہ رفتہ بھابی کو ہمارا یوں ان کے کمرے میں بے دھڑک آنا اچھا نہیں لگنے لگا۔ انہوں نے بھائی جان سے شکایت کی ان لڑکیوں کو ذرا بھی تمیز نہیں ہے۔ بلاضرورت میرے کمرے میں گھسی رہتی ہیں۔ ہماری تو Privacy ختم ہوگئی ہے۔ بھائی جان بولے۔ میرے بہنیں ہیں، یہ ان کا گھر ہے جہاں چاہے وہ آجاسکتی ہیں۔ آئندہ انہیں منع کرنے کی ضرورت نہیں۔ بھابی غصہ سے ایک نظر ہم پر ڈالتیں۔ ہم دونوں فوراً کمرے سے نکل جاتے۔ کبھی پکچر دیکھنے کا موڈ بنتا تو بھائی جان ہم دونوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے لیکن بھابی کا منہ پھول جاتا۔ اب تو اکثر بھائی جان سے لڑنے لگیں کہ ہمیشہ بہنوں کی فکر رہتی ہے۔ ہر کام بہنوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے۔ میری کوئی حیثیت نہیں۔
بھائی جان سمجھاتے ’’یہ دونوں میری ذمہ داری ہیں بلکہ میری دو آنکھیں ہیں، ان کو خوش دیکھ کر ہی میں خوش رہ سکتا ہوں، لیکن بھابی کو تو ہم ایک آنکھ نہ بھاتے۔ ہر وقت بھائی جان کو تنگ کرتیں کہ کم از کم بڑی کی تو شادی کردو۔ مطلب یہ کہ ایک بلا توٹلے ،لیکن بھائی جان کہتے، اس کا فائنل ایّر ختم ہونے کے بعد ہی اس کی شادی کی جائے گی لیکن رشتے دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ اگر کوئی مناسب رشتہ آئے تو ضرور غور کیا جائے گا۔ کچھ دنوں کے بعد بھابی نے اپنے جان پہچان والے لڑکے کا رشتہ پیش کیا۔ کہنے لگیں لڑکے کا ذاتی فوٹو اسٹوڈیو ہے۔ لڑکا بھی اچھا ہے۔ اس کا Bio-Data دیکھ لیں۔ بھائی جان نے تفصیلات پڑھیں۔ انہیں خاندان پسند نہ آیا۔ اس کے علاوہ لڑکا صرف انٹر تھا۔ بھائی جان بولے ہماری ثمینہ B.Sc ہے اور اس کے لئے ایک انٹر پاس لڑکا ۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ ’’انٹر ہے تو کیا ہوا۔ پیسے والا تو ہے، بھابی بولیں۔
پیسے والا تو ہمارا ٹیلر بھی ہے اور بھی کئی لوگ ہیں جو مختلف طریقے سے پیسے کمالیتے ہیں۔ ’’یوں کہئے کہ آپ کو اپنی بہن کے لئے کسی خاندانی رئیس زادے کی تلاش ہے‘‘۔
بھابی طنز سے بولیں۔رئیس ہونا شرط نہیں لیکن لڑکا پڑھا لکھا اور برسرروزگار ہو اور ایک اچھی پوسٹ پر ہو۔ اس کے علاوہ خاندانی رکھ رکھاؤ بھی ضروری ہے۔ ’’اس طرح تو آچکے رشتے ۔ آپ ہر رشتے کو صرف اپنی نظر سے دیکھتے ہیں، یقینا جب تک میں مطمئن نہ ہوجاؤں آگے بڑھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘‘۔بھابی جزبز ہوکر رہ جاتیں۔پھر ایک اچھا رشتہ دیکھ کر بھائی جان نے ثمینہ کی شادی کردی۔
اب میں اکیلی گھر میں رہتی تھی۔ بھابی تو سیدھے منہ بات نہ کرتیں۔ شادی کو دیڑھ سال ہوگیا تھا۔ ہمارے گھر ننھا منا بھتیجہ آگیا تھا۔ میں شوق اور محبت کے مارے اسے لینا چاہتی۔ وہ فوراً ہاتھ سے کھینچ لیتیں۔ ’’تم نے ہاتھ دھوئے‘‘۔ ایسی دل شکنی والی باتیں سن کر ہم ان کی صورت دیکھتے رہ جاتے۔اباکا بڑا گھر بھائی جان کے نام تھا۔ میں ایک کمرے میں الگ تھلگ پڑی رہتی، میری دنیا ہی الگ ہوگئی تھی۔ جس میں کوئی خوشنما امیدیں تھیں، نہ کوئی ارمان ابا اور امی کی فوٹو میں نے اپنے کمرے میں لگا رکھی تھی۔ صبح اٹھتے ہی ان پر نظر پڑتی تو دل میں کچھ حوصلہ اور اُمیدیں جاگتیں کہ شاید تقدیر کروٹ لے۔ بھائی جان بھی اب زیادہ وقت اپنے بچے کے ساتھ گذارتے۔ بھابی نے پتہ نہیں کیا منتر پڑھ دیا تھا کہ اب ان کی محبت میں کمی آنے لگی تھی اور مجھ سے انجان ہوتے جارہے تھے۔ کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو مجھے پکارتے۔ اب میرا دل اس گھر سے اچاٹ ہونے لگا۔ بھائی جان کی وہ محبت نہ جانے کہاں کھوگئی تھی۔ بھابی کے سامنے تو وہ مجھ سے بات کرنے بھی ڈرتے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ کسی طرح میں بھی اس ماحول سے نکل جاؤں۔ روز روز کے طعنے تشنے، طنز، مجھ سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔ بس خاموش بیٹھی انتظار اور صبر کی گھڑیاں گنتی رہتی۔ یہی دو سہارے تھے جن کی موہوم منزل کی طرف رواں دواں تھی۔بھائی جان کبھی کبھی میرے پاس بیٹھتے، محبت اور پیار سے گلے لگاتے لیکن صرف اس وقت جب بھابی گھر میں نہ ہوتیں۔ بھائی جان میری شادی کے لئے فکرمند تھے۔ میرا رنگ گیہواں تھا، قبول صورت تھی۔ جب بھی لوگ مجھے دیکھنے آتے۔ بھائی جان خاصا اہتمام کرتے۔ میری خوبیاں گناتے۔ بھابی سامنے بت بنی بیٹھی رہتیں۔ جب لڑکے والے کوئی جواب نہ دیتے تو پھر دوسرے رشتے کی تلاش ہوتی۔ اس طرح چار پانچ جگہ ناکامی ہوئی۔ لڑکے والوں کی خاطر تواضع کرنا بھی بھابی کو ناگوار گذرتا، لیکن بھائی جان اپنی خاندانی روایات کی پاسداری کرتے۔ اس بات کو لے کر بھابی ان سے خواب جھگڑتیں۔ میری طرف شعلے برساتی نظروں سے دیکھتیں۔
بھائی جان ہر ماہ مجھے 100 روپئے بھابی سے چھپا کر دیتے تھے۔ میرا اپنا خرچ ہی کیا تھا، مفت کی روٹی توڑ رہی تھی۔ کبھی بخار آجاتا تو کوئی گولی منگاکر کھالیتی۔ اگر میں بھائی جان سے اپنی خرابی صحت کا ذکر کرتی تو وہ مجھے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، لیکن اب میں نے بھائی جان سے اپنی کسی ضرورت، بیماری کے بارے میں کہنا چھوڑ دیا تھا، کیونکہ مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ بھائی جان اور بھابی کا زبردست کنٹرول ہے، پھر خواہ مخواہ دونوں میں جھگڑا کرانا میں نہیں چاہتی تھی۔ مجھے وہ دن یاد آتے جب میری طبیعت معمولی خراب ہوتی اور بھائی جان مجھے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جاتے اور جب تک میں ٹھیک نہ ہوجاتی، بڑا خیال رکھتے۔ اب بھائی جان کیوں بدل گئے۔ دل سے ایک آہ نکل جاتی۔ میری طرف سے کیوں اتنے بے پروا ہوگئے۔ دل ہی دل میں دُعا مانگتی کہ اللہ مجھے عزت سے یہاں سے نکال دے۔ بھابی کی دلخراش، جگر چیرنے والی باتیں کب تک سہتی رہوں گی! مجھے تعجب ہوتا کہ بھائی جان بھابی سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں۔ اتنا تو میں سمجھ گئی تھی کہ بھابی کی بدزبانی اور دل شکنی والی باتیں وہ برداشت نہ کرپاتے اور خاموش ہوجاتے۔ شریف النفس اور خاندانی ہونے کی وجہ سے وہ لڑائی جھگڑے سے دُور رہنا پسند کرتے تھے۔ ایسی باتوں سے انہیں کہاں پالا پڑا تھا۔ اب عافیت اسی میں تھی کہ جیسے گذر رہی ہے، یہ زندگی، گذار دو۔ ایک دن بھابی کہنے لگیں تم گریجویٹ ہو، تمہاری شادی تو ہونے سے رہی۔ کب تک بھائی پر بوجھ بنی رہوگی۔ کوئی ملازمت کرلو تو چار پیسے مل جائیں گے۔ یوں سارا دن بیکار پڑی رہتی ہو حالانکہ کچن اور گھر کے دوسرے کام میں ان سے زیادہ کرتی۔
اب تو مجھے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں بھی شرم آنے لگی۔ میں نے سوچا چھوٹی موٹی جو بھی ملازمت مل جائے کرلوں گی۔ بھابی تو روزانہ مفت خوری کے طعنے دیتی تھیں۔ کب تک برداشت کرتی۔ بھائی سے میں نے کہا کہ ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کی نوکری ہے۔ شام میں 5 سے 7 بجے تک، اگر آپ اجازت دیں تو!
بھائی جان نے پوچھا کہاں جانا ہے، کیسے لوگ ہیں، میں نے کہا اخبار میں اشتہار دیکھا ہے۔ دو چھوٹے بچوں کو پڑھانا ہے۔ بھائی جان بولے کیا نوکری کرنا ضروری ہے؟ ابھی وہ اور کچھ کہنے والے تھے کہ بھابی جھٹ سامنے آگئیں۔ ’’ہاں ہاں ضرور جاؤ، گھر میں بیکار بیٹھی کاہل اور موٹی ہوتی جارہی ہو‘‘۔بھائی جان نے غصہ اور نفرت سے ایک نظر بھابی پر ڈالی اور وہاں سے چلے گئے۔ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ اُمڈ کر آنے لگے۔ بھائی جان کتنے مجبور ہوگئے تھے۔ بھابی کے لئے تو میں ایک ناکارہ شئے تھی، جسے وہ کچرا سمجھ کر باہر پھینکنے کی تیاری کررہی تھیں۔
میں نے آنسو پونچھنے اور نئی جگہ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ شام 5 بجے سے 7 بجے تک میں بچوں کو دل لگاکر پڑھاتی۔ بچوں کی ماں مسز عمر بڑی اچھی خاتون تھیں۔ اکثر وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھتیں، لیکن کچھ بتانے سے پہلے ہی میری آنکھیں لبریز ہوجاتیں۔
ایک دن انہوں نے زبردستی کھانے پر روک لیا۔ میرے خیالات پوچھے اور کہنے لگیں۔ تم اچھی گھر کی معلوم ہوتی ہو، تمہارے ماں باپ کیا کرتے ہیں، اتنی محبت و ہمدردی پاکر مجھے اپنے اوپر قابو نہ رہا۔ آنکھیں سمندر ہونے لگیں۔ انہوں نے دلاسہ دیا۔ پھر میں نے انہیں اپنے حالات بتائے۔ بھائی کے بارے میں بتایا کہ وہ محکمہ امداد باہمی میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے بھائی جان کا نام پوچھا۔ میں نے کہا زاہد حسین۔’’تو تم زاہد حسین صاحب کی بہن ہو‘‘؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔جی میرے شوہر بھی اسی محکمہ میں کام کرتے ہیں وہ انہیں ضرور جانتے ہوں گے۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھیں کہ ان کے شوہر اور دیور دونوں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔مسز عمر نے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’کیا آپ زاہد حسین صاحب کو جانتے ہیں، جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں آپ کے محکمہ میں؟‘‘’’ہاں ہاں، انہیں تو میں اچھی طرح جانتا ہوں بلکہ وہ تو میرے دوست بھی ہیں، لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں؟
’’اس لئے کہ زاہد حسین صاحب کی بہن روزانہ ہمارے بچوں کو پڑھانے آتی ہیں؟
عمر صاحب نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور حیران ہوکر بولے جہاں تک مجھے معلوم ہے، زاہد صاحب کی دو بہنیں ہیں۔ ایک کی شادی ہوچکی ہے۔ ان کی بہن کی شادی میں، مَیں نے بھی شرکت کی تھی۔ کیا شاندار پیمانے پر شادی کی تھی، انہوں نے بہن کی۔ مجھے یقین نہیں ہورہا ہے۔ وہ تو اتنے بڑے پوسٹ پر ہیں، پھر بہن کو ٹیوشن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھی رہی۔انہوں نے کہا ’’وہ تو بہنوں پر جان دیتے تھے، اپنی شادی سے پہلے انہوں نے بہن کی شادی کردی تھی۔ آپ شاید بہت چھوٹی ہوں گی، اسی لئے انہوں نے اپنی شادی کرلی تاکہ آپ کی تنہائی دور ہو‘‘۔میں نے دکھ بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں۔پھر جیسے تیسے دن گذرتے گئے۔
گھر میں ایک بار پھر میری شادی کے چرچے ہونے لگے۔ ایک دن بھائی جان نے مجھے بلایا اور بڑی شفقت سے کہا تمہارے لئے ایک رشتہ آیا ہے، میری جان پہچان کے لوگ ہیں۔ میرے دوست کا چھوٹا بھائی ہے۔ بہت شریف لوگ ہیں ، لڑکا بھی برسرروزگار ہے، گھر میں صرف اس کے بھائی بھاوج اور بچے رہتے ہیں۔ میں لڑکے اور اس کے خاندان سے مطمئن ہوں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟
’’اس کی رائے لینا کیا ضروری ہے، بھابی ہر وقت نوالہ دینے تیار رہتیں۔کرو شادی، اب اس سے کیا پوچھنا۔’’تمہاری مرضی ضروری ہے‘‘۔ بھائی جان مجھ سے مخاطب ہوئے، اس کے بغیر میں کچھ نہیں کروں گا، تم سوچ کر جواب دینا۔مجھے کیا سوچنا ہے بھائی جان، میں نے کبھی آپ کی مرضی کے خلاف کچھ کیا ہے؟
آپ جو کریں گے مجھے منظور ہے۔ میں نے ڈبڈبائی نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ دو دن بعد وہ ٹیوشن کو گئی۔ ابھی اس نے بچوں کو پڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ مسز عمر آگئیں اور آتے ہی کہنے لگیں، اب تمہارا ٹیوشن بند۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ ایک نئی ٹیچر کا میں نے انتظام کرلیا ہے۔ مسز عمر کی بات سن کر اسے ایک دھکہ لگا۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مسز عمر نے کہا کہ ان آنسوؤں کو سنبھال کر رکھو، تمہاری رخصتی میں کام آئیں گے۔ پھر اچانک آگے بڑھ کر انہوں نے اسے گلے لگالیا۔’’تم میری دیورانی بننے جارہی ہو، تمہارے بھائی نے رشتہ منظور کرلیا ہے‘‘۔
میں حیرت اور خوشی سے انہیں دیکھتی رہی۔ کیا اللہ میاں نے میری دعائیں سن لیں۔ میرے صبر اور انتظار کا مجھے اتنا خوبصورت صلہ ملے گا۔ میرا رواں رواں مالک حقیقی کا شکر گزار ہوگیا۔ میری زندگی میں اب بہار آگئی تھی۔ اب مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔