غضنفر علی خان
اترپردیش کی برسر اقتدار پارٹی سماجی وادی پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہی ہے ۔ پارٹی کے بزرگ رہنما سابق چیف منسٹر ملائم سنگھ یادو اس انداز میں پارٹی کے اندرونی انتشار پر قابو نہیں پا رہے ہیں جس طرح سے وہ ماضی میں قابو پایا کرتے تھے۔ خود ان کی سیاسی بصیرت سے زیادہ اس وقت ان کے بیٹے اکھلیش یادو (موجودہ چیف منسٹر) ان کے بھائی شیوپال یادو ان کے دوست و رفیق امر سنگھ کی محبت میں ان کا سیاسی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ان باتوں کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے علاوہ پارٹی میں کوئی اور لیڈر نہیںہے جو یادو پریوار میں جاری رسہ کشی پر کنٹرول کرسکے ۔ سماج وادی پار ٹی کا یہ حال ہے کہ اس کی سیاسی کشتی کا بادباں حالات کے تندر و تھپیڑوں سے پھٹ گیا ہے ۔ اس کا ملاح (ملائم سنگھ) کمزور ہوگیا ہے۔ کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے لیکن ابھی یہ کشتی ڈوبی نہیں ہے ۔ اگر اب بھی ملائم سنگھ یادو سخت فیصلے کریں تو نیا پار لگ سکتی ہے ۔ ا یک ایسے وقت جبکہ اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی کو امید ہے کہ اس کے خفیہ ہندوتوا ایجنڈہ کی وجہ سے وہ انتخابات جیت سکتی ہے ۔ سماج وادی پارٹی کا یہ بکھراؤ سیکولرازم اور جمہوریت کیلئے ایک نہایت بری خبر ہے ۔ اکھلیش یادو کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ا پنی کوئی علحدہ نئی پارٹی قائم کریں گے اور انتخابات جیت جائیں گے ۔ اکھلیش یادو صرف 40 سال کے ہیں، ان کا اپنا کوئی سیاسی تجربہ بھی نہیں ہے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ پارٹی ملائم سنگھ کے بھروسے پر ہی چناؤ جیتی رہی ہے ۔ اکھلیش یادو یا ان کے چچا شیوپال یادو میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوسکیں گے ۔
اپنے بل بوتے پر ان کا نئی پارٹی قائم کرنے کا خیال یکسر غلط ہے ۔ 25 اکتوبر کو لکھنو میں ہوئے ہنگامہ میں خود ان کے والد ملائم سنگھ نے ان سے کہا ہے کہ ’’تمہاری کیا حیثیت ہے کیا چناؤ جیت سکتے ہو‘‘۔ ملائم سنگھ نے یہ بات محض غصہ کی حالت میں نہیں کہی بلکہ تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکھلیش یادو کوان کی حیثیت یاد دلائی ۔ اگر اکھلیش یادو میں علحدہ پارٹی بنانے اور چناؤ جیتنے کی طاقت نہیں تو شیوپال یادو ان سے بھی کمزور ہیں۔ 50 سالہ تجربہ رکھنے والے ملائم سنگھ کا اترپردیش کے عوام میں جو مقام ہے اس تک سماج وادی کے موجودہ دوسرے یا تیسرے درجہ کے کسی لیڈر میں کوئی نہیں ہے جو کوئی مقام رکھتا ہو۔ شاید اس بات سے اختلاف کیا جاسکتا لیکن راقم الحروف کا کہنا ہے کہ سماج وادی پارٹی اترپردیش کی دوسری با اثر جماعت بہوجن سماج پارٹی کی طرح ایک ہی شخصیت کے ارد گرد گھومتی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی میں مایاوتی کا دبدبہ رہا ہے اور آج بھی ہے ، ان کی موجودگی میں بہوجن سماج کے کسی لیڈر میں بھی کوئی دم خم نہیں ہے اور وہ پارٹی کو ووٹ نہیں دلاسکتا۔ دونوں علاقائی اور با اثر پارٹیوں میں یہی خامی رہی ہے ۔ ان میں کبھی کوئی متبادل پارٹی لیڈر پیدا نہ ہوسکا جبکہ سماج وادی پارٹی میں پھوٹ کے آثار نمودار ہوئے ہیں، اس کا سیاسی اثر و رسوخ بھی کم ہوجائے گا ۔ سیاسی امور پر نظر رکھنے والوں کا یہ احساس ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کے اثر اور مقبولیت میں کمی بی جے پی کیلئے سودمند ثابت ہوگی۔ بی جے پی کی یہ کوشش ہے کہ دلت مسلم ووٹ کے قلعہ میں شگاف ڈالے اور فی الحال یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔ سیاسی پنڈتوںکا خیال ہے کہ اگر دونوں علاقائی جماعتیں اپنے اپنے ووٹ بینک پر اپنی گرفت برقرار رکھیں تو دونوں کی اجتماعی طاقت بی جے پی کو روک سکتی ہے ۔ ملائم سنگھ، خاندان کے افراد کی محبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں وہ نہ تو اپنے بیٹے کی خوش کرسکتے ہیں اور نہ اپنے بھائی شیوپال یادو کو ڈرا دھمکا کر چپ کراسکتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے جو بات کہی کہ ’’ پارٹی میں سب ٹھیک ٹھاک ہے‘‘ غلط اندازہ ہے ۔ انتشار ہر روز بڑھتا جارہا ہے جب تک ملائم سنگھ یادو اپنی پارٹی کے سرکشی عناصر کی خواہ وہ بھائی ہو یا بیٹا سختی سے سرکوبی نہیں کرتے اس وقت تک پارٹی پر خطرات منڈلاتے رہیں گے ۔ ان کی پارٹی کا انتشار دو معنوں میںبہت زیادہ اہم نقصان دہ ہے ۔
ایک تو یہ کہ ان کی پارٹی کمزوری اور پھوٹ سے بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ملک کی ایک سیکولر پارٹی کا زوال ہوسکتا ہے ۔ دونوں باتیں اہم ہیں ۔ اس وقت ملک میں کسی بھی سیکولر طاقت کی کمزوری ملک کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگی ۔ سیکولر ہندوستان میں فی الحال ’’فرقہ پرستی کی بارود بچھی ہوئی ہے اور کبھی بھی کوئی عاقبت نااندیش پارٹی اس بارود پر چنگاری پھینک کر ہندوستان کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ اس کا قوی امکان ہی نہیں ہے کہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ملک کے موجودہ اور آزمودہ سیاسی نظام کو فرقہ پرست طاقتیں خدا نہ کرے درہم برہم کرسکتی ہیں۔ سماج وادی پارٹی یہ فراموش نہیں کرسکتی کہ اس کا انتشار اس میں پھوٹ اور گروہ بندی بی جے پی کی انتخابی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی مددگار نہیں رہی ہے ۔ انتخابات میں جو عنقریب ہونے والے ہیں، اس پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر اترپردیش کے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو اس کو اپنے خفیہ ہندوتوا ایجنڈہ کی عملی صورتگری میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہے گی ۔ حالات نے سماج وادی پارٹی کو ان ہی معنوں میں اہم بنادیا ہے۔ ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں دوسری بااثر سیاسی پارٹی یعنی بہوجن سماج پارٹی بھی ہے جو بی جے پی کی پیش قدمی کو روک سکتی ہے یا کم از کم اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ فرقہ پرست پارٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی ہے۔ اگر سماج وادی پارٹی کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کے اندرونی اور خاندانی اختلافات محض پارٹی کا معاملہ نہیں ہے کہ ملک کے سیاسی نظام کے لئے بھی پارٹی کا برقرار رہنا ضروری ہے تو پھر ملائم سنگھ یادو صورتحال پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت ان کے اثر انداز ہونے کی سخت ضرورت ہے ۔ ان کا یہ کہنا کہ پارٹی متحد ہے، صحیح نہیں ہے ۔
اگر فی الحال بحران ٹل بھی جاتا ہے تو یہ خدشہ ہمیشہ رہے گا کہ کبھی بھی کسی بھی گوشے سے بغاوت ہوسکتی ہے کیونکہ پارٹی کے کچھ لیڈروں کواندازہ ہوگیا ہے کہ علم بغاوت بلند کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔ ایسی کوشش آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ ملائم سنگھ کو ان سرگرمیوں کو روز اول ہی کچل دینا چاہئے تھا اس لئے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پارٹی کے وہ کرتا دھرتا ہیں لیکن خدا جانے وہ کیا مصلحتیں ہیں جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بعض لیڈروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے روک رہی ہیں۔ ان کا یہ مصلحانہ رویہ سماج وادی پارٹی کیلئے تو نقصان دہ ثابت ہوگا ہی لیکن اترپردیش کے مفادات کیلئے بھی ناقابل تلافی خسارہ ہوگا ۔ سماج وادی پارٹی میں اس وقت جو حالات ہیں وہ اس وقت تک پارٹی کیلئے خطرہ بنے رہیں گے جب تک ملائم سنگھ کوئی سخت قدم نہیں اٹھاتے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ بی جے پی مسلم پرسنل لا ،یکساں سیول کوڈ طلاق ثلاثہ کے تنازعات اٹھارہی ہے اوراکثریتی ووٹرس کو گمراہ کر رہی ہے ۔ سماج وادی پارٹی کو زیادہ محتاط رہنا چاہئے ۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ عین لڑائی کے وقت یا اس وقت جبکہ دشمن خم ٹھونک کر سامنے کھڑا ہے ، پارٹی منتشر ہورہی ہے ۔ ابھی تک انتشار کا یہ عمل بے شک پورا نہیں ہوا ہے لیکن وہ عوامل اور محرکات باقی ہے جن کے رہتے ہوئے آئندہ کبھی بھی انتشار کا یہ عنصریت ملائم سنگھ کی پارٹی کو ایسا شدید نقصان پہنچا سکتا ہے کہ وہ برسوں سنبھل نہیں سکے گی ۔ رام مندر کی تعمیر کا ارادہ بھی بی جے پی نے ظاہر کردیا ہے ۔ اس کی ابتداء ’’رامائن پارک‘‘ کی تعمیر سے ہونے والی ہے۔ اکثریتی طبقہ کے ووٹ اپنی جانب کرنے کیلئے بی جے پی پورا زور لگا رہی ہے اور سماج وادی پار ٹی کا انتشار بی جے پی کے مقصد کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔