غضنفر علی خان
بڑی مشکلات کے بعد اور ناراضگیوں کے باوجود اترپردیش میں دونوں سیکولر پارٹیوں کانگریس اور حکمراں سماج وادی پارٹی میں انتخابی مفاہمت تو ہوگئی لیکن یہ مجوزہ انتخابی پس منظر میں کتنی کارگر ثابت ہوگی، ابھی کہا نہیں جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں پارٹیوں کا اپنا پنا اثر ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اترپردیش میں یا پھر شمالی ہندوستان نے ملک کو کئی وزراء اعظم دیئے ۔ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو سے لیکر آنجہانی راجیو گاندھی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آج بھی کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی اترپردیش ہی سے رکن پارلیمنٹ ہوتی ہیں۔ ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی بھی یہیں سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے ہیںلیکن 1980 ء کے دہے کے بعد اس ملک کی سب سے بڑی ریاست سے کانگریس کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا ۔ اب اس بات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کانگریس کو سماج وادی پارٹی کی بات مان کر 100 سے زیادہ سیٹوں پر ہی امیدوار کھڑا کرنے پر رضامند ہونا پڑا۔ انتخابی مفاہمت تو ہوگی لیکن کانگریس اپنی عددی طاقت پر اترپردیش میں حکومت نہیں بناسکتی ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے قبل از وقت انتخابی مفاہمت کے نتیجہ میں کانگریس یہاں شریک حکومت ہوسکتی ہے لیکن اس بات کا انحصار بھی مفاہمت میں شامل دونوں پارٹیوں کے عددی موقف پر ہوگا ۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس مفاہمت کی وجہ فرقہ پرست بی جے پی کو اترپردیش کے انتخابات جیتنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا ۔ دونوں پارٹیوں کی انتخابی سمجھوتے کے بارے میں اگر اس وقت کوئی پیش قیاسی کی جاسکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ بی جے پی جو سمجھ رہی تھی کہ اس کو آسانی سے کامیابی حاصل ہوجائے گی یا اترپردیش انتخابات اس کیلئے Cake-walk ہوگا ، بالکل غلط بات ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہیکہ اترپردیش میں دونوں کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی ۔ اگر بی جے پی کا ووٹ صرف ا کثریتی فرقہ تک ہی محدود رہے تو بی جے پی کو شکست ہوسکتی ہے لیکن اگر ریاست کے مسلم اور دلت ووٹ کا بٹوارہ ہوجائے توپھر صورتحال کانگریس اور سماج وادی پارٹی دونوں کے لئے ہی مایوس کن ثابت ہوسکتی ہے ۔ یہ اندیشہ اس لئے بھی ہے کہ سیکولر مسلم اور ہندو ووٹ کے حصہ دار اس ریاست کی ایک اور پارٹی بہوجن سماج پارٹی اور اس کی قائد مایاوتی بھی ہیں جنہوں نے ان اسمبلی چناؤ میں دل کھول کر مسلم امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مایاوتی کا ریاست میں اثر و رسوخ ہے ، یہ کتنا موثر ہے یا انتخابات میں کتنا موثر ثابت ہوگا نہیں کہا جاسکتا۔ بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ بینک بھی مسلم اور دلت ووٹرس پر منحصر ہے ۔ دلتوں نے مایاوتی کا پچھلے تجربوں کی روشنی میں قابل لحاظ ساتھ دیا۔ اگر ان کا اثر دلت اور مسلم ووٹرس میں کم ہوا ہے (جسکا اندازہ انتخابی مہم کے شروعات ہی سے ہوسکتا ہے تو لامحالہ مسلم دلت ووٹ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو ملے گا۔ ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور ریاست کے موجودہ چیف منسٹر اکھلیش یادو نے اپنی انتخابی حکمت عملی میں ترقی اور خوشحالی کو ہی مقدم رکھا ۔ انہوں نے کسانوں ، غریب طبقات اور دلتوں کی فلاح کیلئے کئی نئے اسکیمات کا اعلان کیا ہے ۔ یہ وہی منتر ہے جو وزیراعظم مودی الاپتے ہیں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس’‘ یہ اسکیمات جو سماج وادی پارٹی کی موجودہ حکومت نے مرتب کئے ہیں اور ان پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے ۔ اگر ووٹرس کو متاثر کرتی ہیں تو پھر دلت ۔ مسلم ووٹ سماج وادی پار ٹی یا کانگریس کو بھی مل سکتا ہے ۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ دونوں طبقات کے ووٹ ایک طرح کی الجھن Confusion کا شکار ہے اور یہی الجھن ان کے ووٹ کی تقسیم کی وجہ بھی ہوسکتی ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے اس سیکولر مفاہمت میں بہوجن سماج پارٹی بھی شامل ہوئی تو پھر اترپردیش کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے بارے میں خوش آئند پیش قیاسی کی جاسکتی تھی کہ یہاں سیکولر طاقتوں کو کامیابی حاصل ہوگی ۔ بہوجن سماج کو نہ تو یکسر نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ قرین قیاس کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اگر بہوجن سماج کا ووٹ بینک ٹوٹتا ہے یا اس میں کوئی انتشار پیدا ہوتا ہے تو سماج وادی پار ٹی اور کانگریس کا یہ اتحاد اپنے مقصد یعنی فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار پر آنا یا روکنا اگر مقصد ہے تو پھر کامیاب ہوسکتی ہیں ۔ تیسرا اہم عنصر جبکہ X-Factor کہا جاسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مفاہمت میں شریک دونوں پار ٹیوں کا کیڈر کتنی دیانتداری اور جانفشانی سے ایک دوسرے کے امیدواروں کیلئے کام کرتا ہے ۔ اگر کانگریس اور سماج وادی پار ٹی کے کارکن یہ سمجھ کر انتخابی مہم چلائیں کہ دنوں الگ الگ پارٹیاں ہیں تو پھر اس کی قیمت بھی انہیں ادا کرنی پڑے گی ۔ دونوں پارٹیوں کے ملاپ کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہ دو علحدہ پارٹیاں ہونے کے باوجو دان کا مقصد فرقہ پرستوں کو ہرانا ہے تو بات ٹھیک ہے ورنہ مفاہمت کوئی کارگر حربہ نہیں ثابت ہوگی کیونکہ بی جے پی کا کیڈر مضبو ہے اس کے علاوہ سنگھ پریوار میں شامل دوسرے عناصر یا پارٹیاں خاص طور پر آر ایس ایس انتہائی منظم کیڈر رکھتی ہیں۔ گزشتہ عام چناؤ میں بی جے پی کی شاندار کامیابی میں اس آر ایس ایس ورکر کا اہم رول رہا ہے بلکہ بی جے پی ہر طرح سے آر ایس ایس کے اس خاموش تائید کی مرہون منت ہے ۔ یہ بھی ا یک وجہ ہیںکہ آر ایس ایس کی کسی بات پر بی جے پی میں اعتراض نہیں کرتی۔ ایک طرف سنگھ پریوار کا یہ مستحکم ورکر ہے تو دوسری طرف کانگریس اور سماج وادی پار ٹی کا کیڈر ہے جو بظاہر اتنا مضبوط دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ انتخابی مہم کے شروع ہونے سے پہلے ہی کانگریس اور سماج وادی پا رٹی کو مسئلہ کے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے کہ چناؤ میں مفاہمت کے بعد کھڑے ہونے والا امیدوار صرف کانگریس یا صرف سماج وادی پارٹی ہی کا امیدوار نہیں ہے بلکہ یہ ماقبل انتخابات ط ئے شدہ مفاہمت کا مشترکہ امیدوار ہے۔ بارہا اس کی جیت دونوں پارٹیوں کی ہار یا جیت ہوگی ۔ ان چند باتوں کو اگر دونوں نے ملحوظ رکھا تو پھر انتخابی نتائج ایسے برآمد ہوں گے جس پر ہندوستان کے سیکولر عوام خوش اور مطمئن ہوسکتے ہیں ورنہ سیکولر عوام کو سخت مایوس اور دل شکنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتخابی نتائج تک صرف ’’دیکھئے اور انتظار کیجئے ‘‘ کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔