محمد ریاض احمد
ہندوستان میں پچھلے چار ساڑھے چار برسوں کے دوران مودی حکومت کے بارے میں اس کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف انتقامی جذبہ اپنایا گیا ہے۔ اس بات میں کسی قدر سچائی بھی ہے اس لئے کہ سیاسی مخالفین اور حریفوں کو اس مدت کے دوران حکومت کے حلیف اور دوست بنتے ہوئے دیکھا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت کے اشاروں پر اکثر ٹی وی چیانلس اور اخبارات کام کررہے ہیں اور جو حکومت کے خلاف مواد شائع کرتے ہیں انہیں مبینہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ این ڈی ٹی وی اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنانے والے سابق وزیر فینانس اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم، ان کے فرزند کے خلاف مقدمات بھی حکومت کی انتقامی کارروائی کی مثال تصور کی جارہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش رچنے کے الزام میں کئی ایک گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا۔ بقول صدر کانگریس راہول گاندھی حکومت تمام دستوری اداروں پر حملے کررہی ہے اور مرکزی ایجنسیوں کو کھلونے کی طرح استعمال میں لارہی ہے۔ الیکشن کمیشن، قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی کارروائیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وزیر اعظم مودی کو قتل کرنے کی سازش رچنے کے الزام میں چند دن قبل مہاراشٹرا پولیس نے 5 جہد کاروں کو گرفتار کیا جن میں تلگو رائٹر اور انسانی حقوق کے جہد کار وراورا راؤ، سدھا بھردواج، گوتم نولکھا، ارون فریرا اور ورنن گونسالویز شامل ہیں۔ انہیں مہاراشٹرا پولیس اپنی تحویل میں لینے کی خواہاں تھی اور ملک کے مختلف علاقوں سے انہیں گرفتار کرکے مہاراشٹرا منتقل کیا گیا تھا لیکن عین وقت پر سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ ان جہد کاروں کو 6 ستمبر تک گھر پر نظربند رکھا جائے، پولیس تحویل میں نہ لیا جائے، چنانچہ یہ پانچوں جہد کار اپنے مکانات واپس ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر قیادت بنچ نے جس میں جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچور بھی شامل تھے حکومت مہاراشٹرا اور اس کی پولیس پر واضح کردیا کہ ناراضگی دراصل جمہوریت کی حفاظتی پرتھ اور اس کی ڈھال ہے۔ اگر ان حفاظتی پرتھوں اور ڈھالوں کو رہنے نہیں دیا جائے گا تو پھر وہ پھٹ پڑے گی۔ سپریم کورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام جہد کاروں کی گرفتاریاں بھیما کوریگاؤں تشدد کیس کے سلسلہ میں عمل میں آئی۔ یہ واقعہ 9 ماہ قبل پیش آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکومت مہاراشٹرا سے سوال کیا کہ اس قدر طویل عرصہ کے بعد ان گرفتاریوں کا مقصد کیا ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کے جہد کاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ گرفتاریاں دراصل سیاسی انتقام لینے کے لئے مودی حکومت کی شروع کردہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ان معاملات میں مداخلت کررہی ہیں جس کے نتیجہ میں سماجی و حقوق انسانی کے جہدکاروں کو راحت مل رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار نہیں کرسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ سماجی جہد کار یا دانشور قانون سے بالاتر نہیں ہوتے لیکن حکومت اور اقتدار پر فائز عناصر بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوتے۔ وہ بھی عوام اور قانون کو جواب دہ ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ دلتوں نے 9 ماہ قبل مہاراشٹرا کے بھیما کوریگاؤں میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس تشدد کے لئے سماجی جہد کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کی بعض تنظیمیں ذمہ دار ہیں جبکہ ان تنظیموں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ سماجی جہد کاروں کی اشتعال انگیز تقاریر کے نتیجہ میں یہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس سلسلہ میں انسانی حقوق اور مہذب سماج کے جن جہد کاروں کو گرفتار کیا گیا ان میں جہد کار اور قانونداں ارون فریرا سرفہرست ہیں۔ انہیں پونے سے گرفتار کیا گیا۔ حقوق انسانی کے جہدکاروں خاص طور پر متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والوں کو پولیس نے ہمیشہ ہراساں کیا ہے یہاں تک کہ انتہا پسندوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے شبہ میں ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اکثر و بیشتر ان جہد کاروں کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پولیس جہدکاروں کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
جہاں تک ہمارے وطن عزیز کا سوال ہے پچھلے چند برسوں سے ان جہد کاروں اور حکومت کے مخالف سیاستدانوں کے خلاف غداری حکومت کے خلاف جنگ کرنے اور ریاست کے خلاف لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ کسی کے بھی خلاف غداری کے مقدمات عائد کرنا مودی حکومت میں ایک فیشن بن گیا ہے۔ جے این یو طلبہ یونین کے لیڈر کنہیا کمار، عمر خالد، شہلا راشد اور دیگر کے خلاف غداری کے مقدمات عائد کئے گئے۔ اسی طرح گجرات میں پٹیلوں کو تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک شروع کرنے والے نوجوان ہاردک پٹیل کے خلاف بھی غداری کے الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے جبکہ بعض مسلم قائدین کو بھی غداری کے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اپنے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے والے حکمراں جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے قائدین کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی شاید سیاسی دباؤ کے باعث یکطرفہ کارروائیوں کے لئے مجبور ہوگئی ہیں۔ حالانکہ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ بلا لحاظ سیاسی وابستگی اشتعال پھیلانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو نفاذ قانون کی ایجنسیاں منصفانہ کارروائیاں کرتی تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے بے شمار قائدین جیلوں کی سلاخوںکے پیچھے دکھائی دیتے اس لئے کہ مختلف مسائل پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین بشمول مرکزی و ریاستی وزرائ، ارکان پارلیمنٹ و ارکان اسمبلی کے اشتعال انگیز بیانات کے نتیجہ میں ملک کے بیشتر حصوں میں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات برپا ہو رہے ہیں جن میں اب تک بے شمار مسلمان اور دلت مارے گئے ہیں۔ جہاں تک ہجومی تشدد کا سوال ہے گائے کے سرقہ اور گاؤ کشی کے جھوٹے الزامات میں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں تاحال 40 سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ گائے اور بیلوں کے سرقوں کے الزام میں کرناٹک کے علاقہ بیدر کے قریب چند ماہ قبل حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سافٹ ویر انجینئر محمد اعظم احمد اور ان کے تین ساتھیوں پر حملہ کردیا گیا جس میں گوگل میں خدمات انجام دے رہا یہ نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ ان کا ایک دوست جو قطری شہری تھا اس حملہ میں شدید زخمی ہوگیا۔
پولیس وقت پر کارروائی کرتی تو ایک ہونہار مسلم انجینئر کی جان بچ سکتی تھی۔ ان نوجوانوں کا قصور یہ تھا کہ وہ چائے پینے کے دوران قریب سے گذرنے والے غریب اسکولی بچوں میں چاکلیٹس تقسیم کررہے تھے جو ان کا قطری دوست اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان درندوں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ مسلمان چاہے وہ ہندوستان کا ہو یا قطر کا انتہائی رحم دل ہوتا ہے۔ غریبوں کی مدد کرنے کو مسلمان عبادت تصور کرتے ہیں اور اپنے رب کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ دن قبل اترپردیش میں ایک نوجوان اور اس کے ساتھیوں پر فرقہ پرستوں نے بیل کے سرقہ کا شبہ کرتے ہوئے حملہ کردیا۔ جس میں شاہ رخ خان نامی 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ اس کے تین دوست بال بال بچ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ رخ دوبئی سے واپس ہوا تھا۔ یہ واقعہ منگل کی شب ضلع بریلی کے بھولاپور ہندولیا موضع میں پیش آیا۔ ہجومی تشدد میں شاہ رخ شدید زخمی ہوگیا تھا جسے پولیس کے حوالے کردیا گیا لیکن دوران علاج وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکا۔ پولیس نے الزام عائد کیا کہ شاہ رخ منشیات کا عادی تھا اور ہو سکتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ منشیات لے چکا تھا لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ نے پولیس کے دعویٰ کو غلط ثابت کیا اور شاہ رخ کی موت کی وجہ جسم کے اندرونی زخم بتائے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شاہ رخ کا کلیجہ اور گردوں کو مار پیٹ سے نقصان پہنچا تھا۔ شاہ رخ خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ دوبئی کی ایک ایمبرائیڈری یونٹ میں کام کرتا تھا اور ایک ماہ قبل ہی اپنے وطن واپس ہوا تھا۔ شاہ رخ کے بھائی فیروز کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دوست کے فون آنے کے بعد دوستوں کے ساتھ باہر گیا تھا اور جب وہ رات بھر واپس نہیں آیا تب گھر والے تشویش میں مبتلا ہوگئے لیکن صبح پولیس نے فون کرکے بتایا کہ شاہ رخ ہسپتال میں ہے۔ شاہ رخ کے خاندان نے بھینسوں کی چوری کے الزامات کو بکواس قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ دوبئی اور خلیج کے دیگر مقامات پر رہا ہے، دہلی اور ممبئی میں بھی قیام کیا لیکن کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ ہجومی تشدد میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے پولیس نے شاہ رخ اور اس کے تین دوستوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کس طرح جانبدارانہ انداز میں کام کررہی ہے۔ گاؤ رکھشکوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے اشتعال دلانے کے باعث ہی ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں جن میں شہید ہونے والے اکثر لوگ شادی شدہ تھے اور کئی بچوں کے باپ تھے۔ اس طرح ان بچوں کو یتیم و یسیر بنانے کے لئے نہ صرف ہجومی تشدد برپا کرنے والے بلکہ انہیں اپنے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ اکسانے والے ذمہ دار ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ لوگ انسان نہیں بلکہ درندے ہیں جو صرف اور صرف اپنے سیاسی و دیگر ناپاک مفادات کی تکمیل کے لئے معصوم انسانوں کا قتل کررہے ہیں لیکن ان کی یہ روش مستقبل میں ان کے لئے تباہی و بربادی کا باعث بنے گی کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور اس کے دربار میں دیر میں اندھیر نہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com