نسیمہ تراب الحسن
آج کل سماج کا حال بڑا ہی ابتر ہے۔ ہر طرف انتشار ، بدامنی پھیلی ہوئی ہے اور زندگی کا ہر شعبہ اس کا شکار ہے۔ انسان کی ضروریات مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں چاہے وہ کھانے پینے کی ہوں یا استعمال کی، جس کو حاصل کرنے کیلئے ہاتھ بڑھائیں تو اس کی قیمت بچھو کے ڈنک کی طرح ہاتھ میں لغزش پیدا کردیتی ہے مگر زندہ رہنے کیلئے لینا ہی پڑتا ہے۔ لوازمات کو جانے دیجئے۔ اجناس ہو یا ترکاری ، گوشت ہو یا دودھ ، ان سے ہٹ کر بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے ۔ معمولی اسکول کی فیس دیکھئے ، اسکول یونیفارم، کتابیں اور پھر کچھ متفرق خرچے ان سے کنارہ کشی ممکن نہیں۔ بھلا آج کل بغیر تعلیم بچوں کا جینا دوبھر ہونے کا خدشہ دامن گیر ہے۔ اگر بچوں کا مستقبل سنوارنا ہے تو پھر بات لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ لوگ اولاد کو ڈاکٹر ، انجنیئر کیسے بناتے ہیں۔ لڑکوں پر کیا خرچہ وہ ان کی شادی پرلین دین کی صورت میں وصول کرتے ہیں لیکن لڑکیوں کے ماں باپ کیا کریں۔ ان کی لڑکیوں کی تعلیم ، جہیز اور گھوڑے جوڑے کی رقم کا نعم البدل نہیں۔ لڑکے والوں کے ہاتھ پھیلے رہتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ بچیاں خوابوں کے شہزادے کی منتظر ماں باپ کے کلیجے سے لگی بیٹی رہتی ہیں یا پھر سبز باغ دکھانے والے کے ساتھ نکل پڑتی ہیں۔ یہ حال تو ایک انسان کی ازدواجی زندگی کا ہے۔ اس سے ہٹ کر دیکھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سماج میں ہر طرح کی الجھنیں ہیں۔ نہ آپ محفوظ نہ آپ کے بچے ۔ پولیس عدالت ، ڈاکٹرس کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی وہ قابل اعتماد پیشے ہیں جن کے دم سے زندگی کے تحفظ کا دارومدار ہے۔ جب یہ لوگ ضرورت مندوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر بے حسی کا مظاہرہ کریں اور اپنے ذاتی مفاد کیلئے دوسرے انسانوں کا خون چوس کر اپنی جیب بھرنے لگیں تو مصیبت زدہ کس سے حاجت روائی کی امید کرسکتے ہیں۔ ہر جگہ پیسہ کا کھیل ہے۔
روز مرہ زندگی میں ہم لائیٹ ، پانی کی بنیادی ضرورتوں سے پریشان رہتے ہیں۔ کیا یہ سماجی الجھنیں نہیں ۔ نل کے پانی کو لیجئے ، نچلے طبقہ میں سرکاری نل پر پانی کیلئے لڑائی جھگڑے یا کرایہ کے گھر میں نل پر مالک مکان کا قبضہ ہزار طرح دشواریاں پیدا کرتا ہے ۔ پہلے تو دو دو دن کے بعد نل میں پانی آتا ہی نہیں اور جب آئے تو وقت مقررہ پرنہیں۔ کبھی صبح ، کبھی دوپہر اور کبھی رات کے ڈیڑھ دو بجے ۔ آپ نیند میں گرفتار ہوجائیں تو بس پھر ایک آدھ گھڑا پانی کی بلیک مانگئے یا پیسے خرچ کر کے خرید کر لائیے۔ لائیٹ کا حال اس سے مختلف نہیں ، آپ گھر سے باہر گئے ہیں۔ کوئی دوسرا نہیں جس نے بجلی سے فائدہ ا ٹھایا ہو مگر آپ کا لائیٹ کا بل بغیر کسی کمی کے ادا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ تو گھر کا قصہ ہے ۔ گھر سے باہر قدم رکھئیے۔ بڑھتی آبادی نے سڑکوں کو حشر کا میدان بنادیا ہے۔ ہرا یک جلدی میں ، حادثے ایک کھیل بن گئے ہیں ۔ لوگ دیکھ کر انجان بن جاتے ہیں، وہ کچھ کریں تو ہمدردی ان کیلئے سزا بن جاتی ہے۔ پولیس اسٹیشن کے چکر الگ اور کورٹ کچیری کی حاضری زندگی اجیرن کردیتی ہے۔
کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے ۔ ہر دن بڑھتی بیروزگاری ، غربت اور اس سے جڑی ہزار لعنتیں۔ گداگری ، رہزنی ، چوری ، لڑائی جھگڑے ، فساد، عصمت ریزی ، قتل و خون کی وارداتیں، دھوکہ ہر برائی سماج میں موجود ہے۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں الجھنیں ، پریشانیاں آپ کے دل و دماغ کو بوجھل کردیتی ہیں۔ زندگی کا سکون ختم کردیتی ہیں۔ زندگی کے خوشحال ماحول کو تہس نہس کردیتی ہیں۔ نہ گھر میں اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں نہ گھر کے باہر جائیں تو خوشی کے مناظر۔
آج کل انسان جس قدر روشن خیال ہورہا ہے اسی قدر ہر قدم پر نئے مسائل الجھنوں کا جال بن رہے ہیں، خوشحال زندگی بسر کرنے کی خواہش ہر دل میں جاگ رہی ہے۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دینے اور انہیں روزگار سے روکا نہیں جارہا ہے لیکن اس مساوات کے درجہ پر پہنچنے کے باوجود ہم خواتین سے گھریلو ذمہ داریوں کی وہی توقع رکھتے ہیں جو پہلے تھیں بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اس باہر نکلنے سے باہر کے کام بھی اس کے سر تھوپ دیئے گئے۔ جیسے بچوں کے اسکول کی فیس اور ان کی پڑھائی کے متعلق معلومات کرنا، لائیٹ ، نل کا بل دینا، گھر کا کوئی فرد بیمار ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جانا۔ اس کی دوا ، گھر کیلئے سودا سلف لانا یا پھر شادی بیاہ ، سالگرہ کی تقریب میں جاناہے تو تحفہ لانا ، کھانا پکانا وغیرہ ۔ مردوں کو ذرا خیال نہیں کہ وہ بھی آفس میں کام کرتی ہیں۔ اس کی کوتاہی فوراً قابل اعتراض ہوتی ہے ۔ مہنگائی کا بھتہ تو میاں کو ہضم ہوجاتا ہے لیکن بیوی کچھ رقم طلب کرے تو میاں کی پیشانی پر بل آجاتا ہے اور فضول خرچی کا الزام دینا معمولی بات ہے ۔ یہی سب حالات الجھنوں میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں تناؤ پیدا ہوتاہے ۔ اگر عورت سمجھداری سے کام نہ لے تو نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح عورت کا اپنی محنت کا ذ کر مرد کی ’’انا‘‘ کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ اس سے بھی بد مزگی اور کڑ واہٹ گھر کے ماحول پر اثر اندازہوتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر شوہر بیوی کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائے ، بیوی کی دلجوئی کرے تو بھی اس کو ’’بیوی کا غلام‘‘ کہنے میں دنیا والے نہیں چوکتے۔ اب ہم سماج میں بکھری ان الجھنوں کو دیکھیں گے جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے ۔ مثلاً کوئی شادی شدہ خاتون لا ولد رہے یا اگر کسی کے بطن سے صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوں تو دونوں صورتوں میں وہ لعنت کی مستحق ہے۔ انسانی عقل یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ وہ قصوروار نہیں۔ اگر ڈاکٹر سے رجوع ہوں اور وہ ان کے شوہر نامدار کو ساتھ لانے کے بعد کچھ ٹسٹ کرنے اور علاج کرنے کی بات کرے تو نہ میاں اس پر راضی اور نہ ان کی ماں۔ بہو کو دوشی ٹھہراکر دوسری شادی کا چکر شروع ہوجاتا ہے ۔ اب تو سائنس کی تحقیقات سے ہونے والے بچے کی صحت مندی کا حال بھی بتادیا جاتا ہے۔ اگر خاندانی نقائص یا قدرتی طور پر بچے کا نشو نما برابر نہیں ہورہا ہو تو بھی حمل ساقط کرنے کامشورہ دیا جاتا ہے کہ دنیا میں آنے والا بچہ دنیا سے بے خبر جھولے میں پڑا رہے اور ماں بیچاری اس کیلئے ہلکان رہتی ہے لیکن اس صلح کو ماننے والے شاذ و نادر ہی رہتے ہیں۔
سماجی مسائل اور ان سے جڑی الجھنوں کے تانے بانے نے ایک ایسی فضا بنادی ہے جس میں رہ کر سوائے فکر و پریشانی کے کچھ نہیں۔ یہ الجھنیں الگ الگ نوعیت کی رہتی ہیں، جو لوگ بہتر معاش کی خاطر پردیس میں مقیم ہیں ان کے خاندان کی کچھ اور برسر ملازمت خواتین کی اور ، بیوہ خواتین کی جدا ، طلاق شدہ میں اولاد والی خواتین اور لا ولد کی مختلف ، ان کی جداگانہ جو زندگی کے کسی موڑ پر کسی مرد کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ الجھنوں کا شکار صرف خواتین ہی نہیں مرد بھی ہوتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو عورت زندگی کا محور ہے ۔ وہ ہر طرح سماجی بندھنوں سے وابستہ رہتی ہے، کہیں ماں کی محبت کی خاطر ، کہیں شوہر اور سسرال ، کہیں اولاد اور سہاگ کا مسئلہ ، کبھی مذہب کی قید و بند ، کبھی خاندان کی عزت کا سوال ، کبھی سماج کا ڈر ۔ اس کے اپنے جذبات ، احساسات بے معنی سمجھے جاتے ہیں اور وہ ایک کٹھ پتلی کی طرح گردش کرتی رہتی ہے۔
مکمل طور پر سماجی الجھنوں کا احاطہ کرنا طویل داستان ہے۔ یوں تو سماج پر نظر ڈالیں تو آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ سماج میں ہر قسم کی بے راہ روی ہے جس میں بچے بڑے مرد و زن سبھی شامل ہیں۔ گھوڑے جوڑے لین دین کی مانگ الجھنیں پیدا کرتی ہیں۔ تو مذہبی تعلیم سے بے نیازی ، تہذیبی اقدار سے کنارہ کشی ، مشترکہ خاندان کو ختم کرنا صرف اپنے مفاد کی خاطر ، اقتدار کا بے جا استعمال اور ان سب پر بھاری رشوت کا شرمناک چلن جس میں سات خون معاف ہوجاتے ہیں۔ یہی سب وہ عناصر ہیں جس سے آج ہر شخص متفکر ہے ۔ سماجی الجھنوں میں گھرا ہوا ہے ۔ کیا ہمارے لیڈر ہمارے رہنما، ہمارے صاحب اقتدار عہدیدار ان گتھیوں کو سلجھا سکتے ہیں؟ ہمیں ان الجھنوں کے بھنور سے نکال سکتے ہیں؟