مسلم ووٹ کیلئے مودی کی نئی چال
ہمدردوں کی تلاش… گجرات کے زخم ابھی تازہ
رشیدالدین
سعودی عرب کے دورہ سے واپسی اور چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی یاد کچھ زیادہ ہی ستانے لگی ہے۔ سعودی عرب روانگی سے قبل صوفی کانفرنس میں شرکت اور پھر واپسی کے بعد مسلم وفود سے ملاقات اور اقلیتوں کی ترقی سے متعلق 15 نکاتی پروگرام کا جائزہ ، یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ سے راست تعلق ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جس انداز میں اقلیتوں کے بارے میں ہمدردی اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں، وہ بی جے پی حکومت کے نہیں بلکہ یو پی اے حکومت کے وزیراعظم دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ دورہ سعودی عرب کے بعد نریندر مودی کافی بدل چکے ہیں۔ ملک میں اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو سیاسی داؤ پیج سے ناواقف اور بھولے ہیں۔ نریندر مودی اور تبدیلی سمندر کے دو کناروں کی طرح ہیں، جن کے ملاپ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی اس وقت نہیں بدلے جب گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ان کا دل اس وقت نرم نہیں ہوا، جب حملہ آوروں میں گھرے اور موت کو سامنے دیکھتے ہوئے احسان جعفری نے مدد کیلئے آواز دی ۔ مودی کو امریکہ کی جانب سے ویزا جاری کرنے سے انکار اور دنیا بھر میں مذمت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ نریندر مودی اس وقت نہیں بدلے جب گجرات میں فرضی انکاؤنٹر میں بے قصور افراد کو ہلاک کیا گیا۔ فرضی مقدمات میں حیدرآباد اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم نوجوانوں بشمول علماء کو مقدمات کے بغیر گجرات کی جیلوں میں بند رکھا گیا۔ مودی کو اس وقت مسلمانوں سے ہمدردی نہیں ہوئی ، جب لوجہاد، گھر واپسی ، بیف اور متنازعہ نعروں کی سیاست کے ذریعہ نفرت کے سوداگروں نے مسلمان اور دیگر لسانی اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ مودی کو بدلنا ہوتا تو وہ مظفر نگر کے خاطیوں کو اپنی کابینہ میں شامل نہ کرتے اور اخلاق کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا۔ راج دھرم نبھانے، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور اچھے دن کا وعدہ کرنے والے وزیراعظم نے ایک دن بھی اپنے عمل سے خود کو 125 کروڑ ہندوستانیوں کا وزیراعظم ثابت نہیںکیا۔
ہاں نریندر مودی نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر یو پی اے حکومت سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور یہی ان کا کارنامہ ہے۔ آسام ، کیرالا اورمغربی بنگال میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے تمام مسالک کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ صوفی کانفرنس کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ شیعہ فرقہ کی ناراضگی دور کرنے ، ان کے مذہبی رہنما سے ملاقات کی۔ سعودی عرب کا اعلیٰ سیویلین اعزاز نریندر مودی کے دامن پر لگے گجرات کے داغ کو دھو نہیں سکتا۔ مسلمانوںکے لئے کوئی مسلم ملک مثال نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن اور حدیث ان کی رہنمائی کیلئے کافی ہے۔ اگر تمام مسلم اور اسلامی ممالک بھی مودی کو اس طرح کا اعزاز دیں تب بھی گجرات کے زخم مندمل نہیں ہوسکتے اور نریندر مودی کو کلین چٹ نہیں مل سکتی۔ اس کی تازہ مثال امریکہ کی وزارت خارجہ کی رپورٹ ہے ، جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ گجرات حکومت کی بے عملی کے نتیجہ میں فسادات ہوئے اور متاثرین آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ نریندرمودی بھلے ہی دنیا بھر میں سربراہان مملکت کے ساتھ نظر آئیں لیکن گجرات کے مظلوموں کی آہیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ انتخابات سے عین قبل منصوبہ بند انداز میں دورہ کا مقصد بنگال ، آسام اور کیرالا میں مسلم ووٹ حاصل کرنا ہے۔ مودی نے سعودی عرب میں کیرالا اور مغربی بنگال کے ورکرس سے ملاقات کو ترجیح دی اور اسے سرکاری ٹی وی چیانل پر اہمیت کے ساتھ پیش کیا گیا جو سعودی عرب سے انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ وزیراعظم کی ہندوستانی تارکین وطن سے ملاقات کے پروگرام میں مسلمانوں کو آگے رکھا گیا۔ بتایاجاتا ہے کہ وزیراعظم سے قربت کیلئے تارکین وطن میں دوڑ دیکھی گئی۔ بعض تارکین وطن ایسے بھی تھے جنہوں نے ملی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارتخانہ کی دعوت کو نظرانداز کردیا۔ سفارتخانہ کی خوشنودی اور چند سفارشی ویزے اور ذاتی مفادات کے لئے ایک گروہ نے ملی حمیت کو بالائے طاق رکھ کر سج دھج کر مودی کے دربار میں حاضری دی۔ کسی نے ان سے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف سنگھ پریوار کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ ان سے بہتر تو فلم ایکٹریس رانی مکرجی ہیں جنہوں نے گجرات فسادات کی یاد تازہ کی۔ نریندر مودی نے سعودی عرب میں بھی حکمرانوں کے ساتھ خوب تصویرکشی کی ۔ اگر انہیں مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تو ہندوستان کیلئے حج کوٹہ میں اضافہ کی خواہش کرتے ۔
سیاسی جماعتوں کو ہر دور میں چند سکہ رائج الوقت مل جاتے ہیں، جو ان کے سیاسی مفادات کی تکمیل میں کٹھ پتلی کا رول ادا کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے دربار میں گزشتہ دنوں چند نام نہاد دانشور حاضر ہوئے جنہیں وزیراعظم کے دفتر نے مسلم نمائندوں اور نامور دانشوروں کی حیثیت سے پیش کیا۔ انہوں نے اقلیتوںکی ترقی کے حوالہ سے وزیراعظم کی جم کر تعریف کی۔ دہلی میں جو اقتدار کا مرکز ہے، اس طرح کے گنبدان اقتدار کے کبوتروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہیں صرف دربار سے بلاوے کا انتظار ہوتا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو شناخت کے بحران کا شکار ہیں اور سیاسی بازآبادکاری کیلئے نریندر مودی کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔ ان میں بعض ماہر دل بدلو ہیں، جن کی نظر راجیہ سبھا کی نشست پر ہے۔ کل تک سیکولرازم کے علمبردار اور مسلمانوں کے حق کی لڑائی کا دعویٰ کرنے والے آج مودی کے دربار میں پہنچ گئے۔ انہوں نے وزیراعظم کے ترقیاتی ایجنڈہ پر کامیاب عمل آوری کا دعویٰ کیا اور ستائش کی۔ یہ قائدین کل تک مودی پر نکتہ چینی کرتے رہے لیکن آج فسادات اور عدم رواداری کو بھلاکر تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ دراصل وزیراعظم کے دفتر سے اس ملاقات کے اہتمام کا مقصد اسمبلی انتخابات پر اثرانداز ہونا تھا۔ ملک میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والی تین ریاستوں آسام ، کیرالا اور مغربی بنگال میں انتخابات کا عمل جاری ہے اور بی جے پی کو وہاں مسلم ووٹ حاصل کرنے کی فکر ہے۔ کیرالا میں مسلمان مسلم لیگ اور بائیں بازو کے ساتھ ہیں جبکہ آسام میں بدرالدین اجمل اور بنگال میں ممتا بنرجی کی تائید کرر ہے ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ تینوں ریاستوں کے نتائج خود یہ ثابت کردیں گے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو کس طرح نظرانداز کردیا۔ گزشتہ دو برسوں میں نریندر مودی کی حکومت نے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہ ہر کسی پر عیاں ہے۔ چند مذہبی شخصیتوں اور دانشوروں کی نریندر مودی سے ملاقات پر اگر بی جے پی مطمئن ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔
بی جے پی ہرگز نہ سمجھے کہ مسلمان کبھی اس کی تائید کرسکتے ہیں۔ گجرات سے لیکر دادری اور پھر نفرت کی جاری مہم نے مسلمانوں کو مزید شدت کے ساتھ سیکولر جماعتوںکے قریب کردیا ہے۔ وزیراعظم نے انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقلیتوں کی ترقی سے متعلق 15نکاتی پروگرام کا جائزہ لیا اور 2015-16 ء میں اقلیتوں کے تقررات پر رپورٹ طلب کی۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے گھٹتے ہوئے تناسب پر جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم بننے کے دو سال بعد نریندر مودی کو اچانک 15 نکاتی پروگرام کا خیال آیا۔ انہیں اقلیتوںکے تقررات کی فکر کیوں لاحق ہے؟ اگر وہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کو تقررات میں زائد نمائندگی دینا چاہتے ہیں تو انہیں یو پی اے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مسلم تحفظات کے حق میں سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کرناچاہئے ۔ صرف تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ ہی مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبہ میں زائد نمائندگی دی جاسکتی ہے۔ صرف تقررات کی تفصیلات طلب کرنے اور اسے انتخابی نتائج کے بعد برفدان کی نذر کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ بی جے پی نے مسلم تحفظات کے خلاف اپنی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ پھر نریندر مودی کو تقررات کی فکر کیوں؟ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ تقررات کی فکر کرنے سے پہلے گجرات کے ان ہزاروں متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری اور انہیں انصاف فراہم کرنے پر توجہ دیں۔ سکھوں کو جب 20 سال بعد معاوضہ ادا کیا جاسکتا ہے تو پھر گجرات کے مسلمانوں کو کیوں نہیں؟ نریندر مودی کی مسلمانوں سے ہمدردی کے بارے میں خود ان کے وزراء نجمہ ہپت اللہ اور مختار عباس نقوی اچھی طرح اظہار کرسکتے ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ وزیراعظم کے سعودی عرب دورہ کے موقع پر دونوں وزراء نے ساتھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اس کیلئے کافی دوڑ دھوپ کی لیکن وزیراعظم نے کسی مسلم وزیر اور پارٹی قائد کو دورہ میں شامل نہیں رکھا۔ شاید اس لئے کہ نریندر مودی کو اندیشہ تھا کہ مسلم وزراء کو ساتھ رکھنے سے سعودی حکمرانوں کی توجہ ان سے ہٹ جائے گی اور وہ میڈیا کے کیمروں کی نظرسے اوجھل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پبلسٹی کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے مودی نے مسلم ہی نہیں بلکہ کسی غیر مسلم وزیر کو بھی دورہ میں شامل نہیں کیا۔ حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
سلگتے شہر زہریلی زبانیں
دلوں میں ان کے ہندوستان کب ہے