سیاست فیچر
آج سے 9 برس قبل پرانے شہر کے ایک اسکول میں سیاست کے زیر اہتمام ایمسٹ کوچنگ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقر یب میں پرانے شہر کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی شریک تھی جس نے کمرشیل پائلٹ بننے کا خواب اپنے ذہن میں سجا رکھا تھا۔ خاندان کی معاشی کمزوری اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اپنی اس خواہش کا والدین سے اظہار کرے۔ والدین کی مرضی کے مطابق اس نے انجنیئر بننے کی حامی بھردی اور ایمسٹ کوچنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور کوچنگ کلاسس کی یہ تقریب اس لڑکی کے خواب کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی ۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے اس لڑکی سے سوال کیا کہ وہ ایمسٹ کوچنگ کے ذریعہ کیا بننا چاہتی ہے، لڑکی کا جواب تھا کہ اگرچہ اس کا خواب پائلٹ بننے کاہے لیکن گھریلو حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ سننا تھا کہ جناب زاہد علی خاں نے اس لڑکی کے خواب کی تکمیل کا عہد کرلیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج ایک غریب خاندان کی لڑکی کمرشیل پائلٹ بننے کیلئے تیار ہے۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ پرانے شہر کے علاقہ سلطان شاہی سے تعلق رکھنے والی سیدہ سلویٰ فاطمہ ہے۔ جس کی ٹریننگ کیلئے جناب زاہد علی خاں کی مساعی پر تلنگانہ حکومت نے 35 لاکھ 50 ہزار روپئے منظور کئے ہیں۔ سلویٰ فاطمہ کی ابتدائی ٹریننگ اور لائسنس کے حصول تک کے مراحل کی تکمیل پر جناب زاہد علی خاں نے اپنے جیب خاص اور قریبی ساتھیوں کے تعاون سے 16 لاکھ روپئے صرف کئے۔ کمرشیل پائلٹ کیلئے درکار ملٹی انجن ریٹنگ کورس اور ٹائپ ریٹنگ کورس کی تکمیل کیلئے جس رقم کی ضرورت تھی ، اس کی تکمیل چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کردی۔
جناب زاہد علی خاں کی خواہش پر رکن قانون ساز کونسل جناب فاروق حسین نے چیف منسٹر کو سفارشی مکتوب حوالے کیا اور مسلسل نمائندگی جاری رکھی۔ چیف منسٹر جب سلویٰ فاطمہ کے خاندان کے کمزور معاشی موقف اور اس کی جدوجہد اور دلچسپی کے بارے میں جاننے کے بعد اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے رقم منظور کرتے ہوئے مکتوب سلویٰ فاطمہ کے حوالے کردیا۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے ڈائرکٹر اور اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود کی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے چیف منسٹر کو سلویٰ فاطمہ کی ٹریننگ اور ضرورت سے متعلق تفصیلی نوٹ روانہ کیا۔ 2007 ء میں جناب زاہد علی خاں نے سلویٰ فاطمہ کو آندھراپردیش اسٹیٹ ایویشن اکیڈیمی میں داخلہ کا اہتمام کیا اور 200 گھنٹوں کی فلائینگ (اڑان) کی تکمیل کیلئے درکار تعاون کیا۔ سلویٰ فاطمہ کو پائلٹ کا لائسنس حاصل ہوچکا ہے۔ تاہم اسے باقاعدہ کمرشیل پائلٹ بننے کیلئے مزید دو ٹریننگ کورسس کی تکمیل کی ضرورت ہے۔ یہ ٹریننگ تلنگانہ اسٹیٹ ایویشن اکیڈیمی اور ایر انڈیا سے حاصل کی جائے گی۔ حکومت نے 2014-15 ء کے بجٹ سے اس رقم کی منظوری دی ہے جو فیس باز ادائیگی کے مد سے ادا کی جائے گی۔
ٹریننگ کے آغاز سے قبل جولائی میں امتحان ہوگا جس کے بعد باقاعدہ رجسٹریشن اور ٹریننگ کا آغاز ہوگا۔ سلویٰ فاطمہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جن کے والد ایک بیکری میں ملازم ہیں۔ جناب زاہد علی خاں اور ان کے قریبی احباب کے تعاون سے یہ خاندان غربت سے خوشحال بن چکا ہے۔ اس خاندان میں تین بہن اور ایک بھائی ہیں جن میں سلویٰ فاطمہ بڑی بیٹی ہیں۔ ان کے ایک بھائی پالی ٹیکنک سے میکانیکل ڈپلوما کا کورس کر رہے ہیں جبکہ چھوٹی بہن نے بی اے کی تکمیل کی۔ مزید دو بہنیں پری میٹرک کورسس میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ٹریننگ کی تکمیل کے بعد سلویٰ فاطمہ پرانے شہر سے تعلق رکھنے والی پہلی مسلم کمرشیل پائلٹ بن جائیں گی۔ پرانے شہر کی تنگ گلیوں میں زندگی بسر کرنے والی سلویٰ فاطمہ ٹریننگ کی تکمیل کے بعد کھلی فضاؤں میں اڑان بھرے گی اور وہ دن دور نہیں جب اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اس خواب کی تکمیل میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کا اہم رول ہے، جنہوں نے نہ صرف ابتدائی ٹریننگ کا اہتمام کیا بلکہ حکومت سے امداد کی منظوری کو یقینی بنایا۔ سلویٰ فاطمہ اور ان کے گھر والے جناب زاہد علی خاں کے شکر گزار ہیں
جنہوں نے اس خاندان کی لڑکی کو قومی اور عالمی سطح پر شہرت دلائی۔ جناب زاہد علی خاں جو ملت کی سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی کے سلسلہ میں مساعی کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سلویٰ فاطمہ کی کامیابی دراصل ملت کی ان تمام لڑکیوں کی کامیابی ہے جو محدود وسائل کے سبب ترقی کی منزلیں طئے کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے انہوں نے یہ بیڑہ اٹھایا تھا اور اس میں کامیابی پر وہ بارگاہِ خداوندی میں سربسجود ہیں۔ جناب زاہد علی خاں کی کوشش ہے کہ پرانے شہر سے تعلق رکھنے والی کسی لڑکی کو آئی اے ایس کیلئے تیار کیا جائے تاکہ قوم کی دیگر لڑکیوں میں ترقی کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ سلویٰ فاطمہ کو نہ صرف سیاست کا برانڈ ایمبسڈر بنایا گیا بلکہ ترقی کی ہر منزل پر ان کے ساتھ سیاست ہم قدم رہا ۔ اس قدر سلویٰ فاطمہ کا نام سیاست سے جڑ چکا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے سلویٰ فاطمہ کیلئے امداد کی منظوری پر ہزاروں کی تعداد میں پیامات تہنیت جناب زاہد علی خاں کو وصول ہورہے ہیں لیکن وہ کسی شہرت اور نام و نمود کے بغیر اپنی خدمات جاری رکھنے کا عہد کرچکے ہیں۔ ملت کی خدمت کے بارے میں سیاست اور جناب زاہد علی خاں نے ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھا کہ نام کے بجائے کام کو ترجیح دی جائے۔ یہی سیاست کی کامیابی اور عوامی مقبولیت کا راز ہے۔