سفیر حرم ،حسن الزماں ایڈوکیٹ

رحمن جامی
جناب سید حسن الزماں پیشہ کے اعتبار سے تو کامیاب وکیل رہے ہیں جب تک حیدرآباد میں رہے ان کی وکالت نہایت کامیابی سے چلتی رہی ہے اور ظاہر ہے کہ کامیاب وکیل کے پاس اتنا وقت کہاں بچتا ہے کہ اس میں وہ شاعری بھی باضابطہ کرے چنانچہ زماں صاحب جب تک حیدرآباد میں رہے شاعری سے دور رہے ۔ پھر خدا کی کرنی ایسی ہوئی حسن الزماں برادر خُرد ڈاکٹر وحید الزماں اختر جو کنگ کوٹھی میں آصف سابع کی رحلت کے بعد سعودی عرب چلے گئے وہاں بھی سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے شاہی ڈاکٹر مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں مکہ میں رہائش اختیار کرلی تو پھر انھوں نے اپنے بڑے بھائی حسن الزماں ایڈوکیٹ کو بھی مکہ بلالیا ۔ اس طرح حسن الزماں ایڈوکیٹ 43 سالوں سے مکہ میں رہ رہے ہیں ۔ مکہ میں یہ ملازمت کے ساتھ ساتھ حسب توفیق و حسب فرصت شاعری بھی کرتے رہے ۔ 1998 میں حسن الزماں حیدرآباد آئے ہوئے تھے تو انھیں خیال ہوا کہ کیوں نہ وہ اپنے مجموعہ کلام کی نوک پلک درست کروالیں۔ چنانچہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ میرے پاس تشریف لے آئے ۔ اس طرح مجھے ان کا استاد کہلانے کا شرف حاصل ہوا ۔ ویسے تو میرے کئی شاگرد برسرروزگار ہیں ، لیکن مکہ میں میرا کوئی شاگرد نہیں تھا ۔ اس کمی کو حسن الزماں ایڈوکیٹ نے پورا کیا ۔ اس طرح وہ میرے شاگردوں کی طویل فہرست میں شامل ہوگئے اور اب ان کی نسبت سے مجھے اس بات سے افتخار رہا ہے کہ میرا ایک شاگرد ایسا بھی ہے جو دو چار سال سے نہیں بلکہ 43 سال سے مکہ میں رہ رہا ہے ۔

جہاں حرم کعبہ ہے اور حرم میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔ مکہ میں دیرینہ رہائش حسن الزماں ایڈوکیٹ کیلئے یقیناً خوش بختی کا باعث ہے ان کی نسبت سے میرے لئے بھی بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ حسن الزماں جیسا ’’سفیر حرم‘‘ میرا شاگرد ہے ۔ سفیر حرم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب زماں صاحب نے اپنے مجموعہ کلام کا نام تجویز کرنے کیلئے مجھ سے فرمائش کی تو میں نے ان کے ملک کی دیرینہ رہائش کے پیش نظر مجموعہ کلام کا نام ’’سفیر حرم‘‘ تجویز کیا ۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ نام خود زماں صاحب کے علاوہ اور احباب کو بھی پسند آیا ۔ اس کے بعد ان کے احباب اور ہمارے دیگر شاگردوں نے ان کے مجموعہ کلام کی مناسبت سے انھیں بھی ’’سفیر حرم‘‘ پکارنا شروع کردیا ۔ اس اعتبار سے مجھے یقین ہے یہ نام اللہ تعالی کی پسندیدگی اور خوشنودی کا باعث بنا ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام ’’سفیر حرم‘‘ کی مشمولات میں حرم کعبہ کے عنوان سے سب سے پہلے ایک نظم ہے اس کے بعد متواتر چار مناجات ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک نعت ہے ۔ مختلف عنوانات کے تحت جملہ 15 نظمیں جو سب کی سب فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں ۔ ان سب سے زیادہ اہم اور قابل غور و فکر نظم ’’ضمیر‘‘ ہے جسے شاعر ہر جگہ تلاش کرتا ہے ، لیکن کہیں نہیں پاتا ۔ اخیر خود ضمیر ہی اسے بتاتا ہے کہ وہ خود شاعر کے اندر چھپا بیٹھا ہے ۔ بہرحال نظمیں غور وفکر کے ساتھ ساتھ دعوت عمل بھی دیتی ہیں ۔ نظموں کے ساتھ ساتھ شاعر کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر وحید الزماں اختر جنھوں نے حسن الزماں ایڈوکیٹ کو مکہ بلانے کا اہتمام کیا تھا کا ایک گوشہ الگ ہی دیا گیا ہے ۔ یہ گوشہ اس بات کا شاہد ہے کہ شاعر ’’سفیر حرم‘‘ کو اپنے چھوٹے بھائی سے کس قدر محبت تھی ۔ اس گوشہ کے تحت تین نظمیں ہیں جن کے عنوانات (۱) احوال سکونت حرمین شریفین (۲) در مدح دکتور سید وحید الزماں (۳) برادر خُرد ڈاکٹر وحید الزماں کی رحلت پر ۔ اس گوشہ کے بعد حسن الزماں ایڈوکیٹ کی جملہ 21 غزلیں ہیں جو بے شک داد و تحسین کی قابل ہیں ۔

آخر میں چند رباعیات و قطعات بھی شامل ہیں جو جناب حسن الزماں ایڈوکیٹ کی مثبت فکر کا سرمایہ ہیں ۔ عرض حال کے تحت خود حسن الزماں ایڈوکیٹ اپنے بارے میں کہتے ہیں ’’مجھے بچپن سے شعر و سخن سے دلچسپی رہی ہے ہمارے طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں بعض طلباء اور اہل خاندان کے نوجوانوں نے مل کر اپنے علمی و ادبی ذوق کو ترقی دینے کے جذبہ سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’بزم احباب‘‘ رکھا گیا ۔ بزم احباب کے صدر مولوی شمشیر علی صاحب تھے جو ادب کا ذوق رکھتے تھے ہمارے ارکان میں ڈاکٹر بشیر حسین ٹی بی اسپیشلسٹ (جو آئندہ میں برادر نسبتی ہوگئے) ، ڈاکٹر سید مہدی جعفری جو ناظم طبابت کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ سید انور الحسن جعفری جو سکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ اس انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے بعض سینئر عثمانین مثلاً مخدوم محی الدین ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ،جناب عابد علی خاں ، جناب بدر شکیب ، جناب بادشاہ حسینی ، جناب غلام علی (مزاح نگار) وقتاً فوقتاً تشریف لاکر ہماری عزت افزائی فرماتے تھے ۔ اور یہ بزم احباب عابد شاپ چوراہا بہ مکان الحاج حضرت محمد امیر حسن صاحب ناظم طبابت پائیگاہ (میرے ماموں خسر) بشیر اینڈ کو میں قائم تھی ۔ بشیر اینڈ کو (دواخانہ قدیم) میرے برادر نسبتی محمد بشیر حسین کے نام سے قائم ہوا تھا جو حیدرآباد میں مشہور و معروف تھا ۔

ایک ایڈوکیٹ ہونے کے ناطے میں نے ’’دی حیدرآباد بینک لمیٹڈ‘‘ اور ’’دی فینانس کارپوریشن لمیٹڈ‘‘ کے مشیر قانونی کی حیثیت سے تقریباً 15 سال تک خدمات انجام دیں ۔ حضرت والد صاحب قبلہ مولوی شاہ سید شاہ غلام علی حسن صاحب ریاست حیدرآباد سلطنت آصفیہ میں ’’رجسٹرار بلدہ‘‘ کے عہدہ پر فائز رہے ۔ اس کے بعد ہجرت کرکے مکتہ المکرمہ تشریف لے گئے ۔ جن کا وہیں انتقال ہوا اور جنت المعلیٰ میں مدفون ہوئے ۔ میرے دونوں برادران خُرد میں ڈاکٹر سید وحید الزماں اختر جن کو سعودی حکومت نے جنسیہ سعودی یعنی سعودی نیشنلٹی بھی عطا فرمائی تھی ۔ مستشفی الزھراء مکۃ المکرمہ میں مدیر رہ کر وظیفہ حسن خدمت حاصل کرنے کے بعد مکہ ہی میں انتقال فرماگئے اور جنت المعلی میں تدفین ہوئی ۔ ڈاکٹر وحید الزماں اختر کے فرزند سید یوسف الزماں شرکتہ الزاھد للترکتورات جدہ میں چیف انجینئر ہیں اور ان کی دختر رضوانہ وحید کی شادی میرے بڑے فرزند سید خلیل الزماں انجینئر کعبہ شریف میں انجام پائی جن کے پانچ فرزندان ہیں ۔

میرے دوسرے برادر ڈاکٹر سید قمر الزماں کچھ سال سعودی عرب میں رہ کر لندن روانہ ہوگئے اور وہیں کی شہریت حاصل کی اور وہیں شیفیلڈ میں رہتے ہیں ۔ میرے تین فرزندان میں سید خلیل الزماں انجینئر سعودی عرب میں رہتے ہیں اور اپنی سعودی زوجہ کے ساتھ مقیم ہیں اور دوسرے فرزند سید مسیح الزماں انجینئر نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی ہے لیکن اس وقت کلیتہ الہند سعودی عرب الریاض میں استاد ہیں ۔ اور تیسرے فرزند سید عقیل الزماں امریکن شہریت کے حامل ہیں ۔ اس وقت بینک الریاض میں شعبہ کمپیوٹر کے انچارج ہیں ۔ احقر بھی مکۃ المکرمہ میں مقیم ہے اور جنت المعلی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا ہے ۔ چونکہ میری سکونت بہ فضل تعالی مکۃ المکرمہ میں ہے اس لئے اپنے فرصت کے اوقات میں اپنی طبیعت کی مناسبت سے کلام موزوں کرنے کا داعیہ رہتا ہے اور بعض اوقات رات کے اوقات وقفہ وقفہ سے شعر موزوں ہوجاتے ہیں جن کو میں اپنے تکیہ کے نیچے رکھی ہوئی کاپی میں قلم اور بیٹری کی مدد سے تحریر کردیتا ہوں اور صبح اٹھ کر نظرثانی کے بعد مبیضہ کرلیتا ہوں ۔ یہ سلسلہ زمانہ سے چل رہا ہے ۔ لیکن قبل طباعت اس کی اصلاح ضروری تھی چنانچہ حسن اتفاق سے میرا تعارف الحاج حضرت مولانا رحمن جامی سے ہوا جن کے حلقہ بگوش سیکڑوں شاگرد ہیں ۔ ہندوستان و پاکستان کے علاوہ بلاد خلیج و یوروپ و امریکہ کے شعراء کرام بھی ان سے رجوع ہیں ۔ مولانا موصوف نے تقریباً دو ہفتوں میں میرے کلام کی استادانہ تصحیح فرما کر میرے کلام کو مزین و مکلف جامہ عطا فرمایا ۔ جس کیلئے میں مولانا کا بے حد ممنون ہوں‘‘ ۔
جناب حسن الزماں ایڈوکیٹ کا مندرجہ بالا تعارف خود ان کی اپنی زبان میں نہایت شافی و کافی ہے ۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ آج بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ حیدرآبادی تہذیب و شعر و ادب کی نمائندگی مکہ میں رہ کر فرماتے ہیں اگرچیکہ وہ سعودی شہریت ملنے کے بعد سے سعودی لباس زیب تن فرماتے ہیں ۔