سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

مودی کی زبان پر وکاس… بی جے پی وناش کی سیاست پر
خونِ مسلم سے آلودہ ہاتھ … کچھ کم تو کچھ زیادہ

رشیدالدین
وزیراعظم نریندر مودی نے پھر ایک بار ترقی کا راگ الاپتے ہوئے کرناٹک میں پارٹی امیدواروں کی کامیابی کے منتر کے طور پر وکاس کا نعرہ دیا ہے۔ NAMO ایپ کے ذریعہ مودی نے پارٹی امیدواروں کو کانگریس سے مقابلے کے گر سکھائے ۔ 2014 ء کی انتخابی مہم اور پھر مرکز میں تشکیل حکومت کے بعد سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔ اب یہی نعرہ کرناٹک کی انتخابی مہم میں سنائی دیا۔ 4 سال بعد مودی کو کرناٹک میں اس نعرہ کی یاد کیوں آگئی ؟ کیا بی جے پی سدا رامیا کے ترقیاتی اقدامات سے خوفزدہ ہے ؟ کیا مودی کو احساس ہونے لگا ہے کہ کرناٹک میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ چلنے والا نہیں۔ وزیراعظم کے ترقی کے نعرہ کی حقیقت تو اس وقت آشکار ہوگی جب خود مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ کی آڑ میں نفرت کے سوداگروں نے ملک میں جو گل کھلائے وہ ہر کسی پر عیاں ہے۔ ترقی کا نعرہ محض ایک دکھاوا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں جن ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ، وہاں بی جے پی نے کن موضوعات پر الیکشن لڑا ۔ ترقی اور وکاس کہاں گم ہوگئے ، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یکم مئی سے مودی کرناٹک کی انتخابی مہم میں حصہ لیں گے اور 5 دن میں 15 ریالیوں سے خطاب کا پروگرام ہے۔ ملک میں ہندوتوا کی علامت سمجھے جانے والے یوگی ادتیہ ناتھ کی 30 سے زائد ریالیاں ہوں گی۔ بی جے پی کسی بھی صورت میں کانگریس کے اس قلعہ کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ مودی کے انتخابی میدان میں اترنے کے بعد منظر واضح ہوگا کہ وکاس اور وناش کا سیاست میں بی جے پی کی پسند کیا ہے۔

مودی بھلے ہی وکاس کا نعرہ لگاتے رہیں لیکن یوگی کو کون روک پائے گا۔ بی جے پی ارکان اسمبلی نے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ انتخابی ایجنڈہ طئے کردیا ہے۔ ایک رکن اسمبلی نے الیکشن کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں جنگ قرار دیا۔ اگر بی جے پی اور مودی کا انتخابی نعرہ ترقی ہے تو پھر رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ بی جے پی دراصل یہ طئے کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کرناٹک میں کن موضوعات کے ساتھ عوام سے رجوع ہو۔ سدا رامیا جس کامیاب حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ایسے میں نریندر مودی بی جے پی کے لئے امید کی آخری کرن ہیں۔ سدا رامیا کے خلاف کرپشن کے الزامات نہیں ہے جبکہ بی جے پی کے قائد یدی یورپا کو کئی معاملات میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ لمحہ آخر میں بی جے پی اپنے روایتی اور پسندیدہ ایجنڈہ پر واپس ہوسکتی ہے۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سنگھ پریوار کرناٹک میں اپنے کیڈر اور اپنی طاقت کو جھونک دے گا۔ مودی نے کانگریس پر انتخابات سے قبل عوام کو لالی پاپ دینے کا الزام عائد کیا ۔ بی جے پی نے عام انتخابات سے قبل وعدوں کی شکل میں ملک کی عوام کو کتنے لالی پاپ نہیں دیئے تھے لیکن بعد میں لالی پاپ کو انتخابی جملہ قرار دے کر ٹال دیا گیا۔ ہر شخص کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ جمع کرنے کا وعدہ کہاں گیا ؟ ہر سال 2 لاکھ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ لالی پاپ نہیں تو کیا تھا ؟ اچھے دن اور سب کا وکاس کا نعرہ لگا کر عوام کو نت نئے مسائل میں مبتلا کردیا گیا۔

نوٹ بندی کے ذریعہ عوام کی محنت اور خون پسینہ کی کمائی لوٹ لی گئی ۔ جی ایس ٹی کے نام پر عام زندگی کو مہنگائی کا شکار کردیا گیا ۔ عام آدمی اور متوسط طبقات کے چہروں سے خوشحالی چھن گئی لیکن حکومت سے قربت رکھنے والے چند صنعت کار بینکوں کو لوٹ کر ملک سے فرار ہوگئے۔ عوام کو اب اچھے دن نہیں بلکہ وہی پرانے دنوں کی یاد آرہی ہے۔ کرناٹک چناؤ میں مرکز اور ریاستی حکومت کے درمیان مقابلہ ہے۔ مرکز میں بی جے پی اور کانگریس ریاست میں برسر اقتدار ہے ، لہذا مقابلہ مساوی نوعیت کا دکھائی دے رہا ہے ۔ بی جے پی کو شکایت ہے کہ سدا رامیا نے شمالی ہند کے خلاف مہم چھیڑدی ہے۔ اس میں بی جے پی کو برا ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شمالی ہند والوں کی مخالفت کے مسئلہ پر بی جے پی کا دہرا معیار ہے۔ کرناٹک میں سدا رامیا جب شمال والوں کی مخالفت کریں تو بی جے پی ناراض لیکن ٹاملناڈو میں شمال کے خلاف نعرہ لگانے والی انا ڈی ایم کے سے دوستی۔ سدا رامیا کی طرح بی جے پی انا ڈی ایم کے کی مذمت نہیں کرسکتی۔ ایک ہی مسئلہ پر دہرے معیارات کیوں ؟ اپنی حلیف جماعت ہو تو نارتھ کی مخالفت بھی قبول ہے لیکن مخالف پارٹی ہو تو ناگواری کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ مسئلہ ایک ہے لیکن بی جے پی کی پالیسی جداگانہ ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کو سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اقتدار عزیز ہے۔ اصولوں سے کوئی مطلب نہیں۔
مرکز نے جموںکے کٹھوا اور اترپردیش کے اناؤ کے شرمناک واقعات کے بعد آرڈیننس کو منظوری دیتے ہوئے 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی عصمت ریزی پر سزائے موت کی گنجائش رکھی ہے۔ اس کے علاوہ مقدمات کی اندرون دو ماہ یکسوئی کا فیصلہ کیا گیا ۔ مرکز کے آرڈیننس کو صدر جمہوریہ نے منظوری دیدی لیکن اس کے نفاذ میں حکومت کی سنجیدگی کا امتحان رہے گا ۔ کسی بھی مقدمہ میں ملزمین کو سزا کا انحصار استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ ثبوت اور گواہ ہوتے ہیں۔

سرکاری ایجنسی اور اس کے وکیل اگر کمزور ثبوت اور گواہ پیش کریں تو ملزمین پھانسی کے پھندہ سے بآسانی بچ جائیں گے۔ یہ آرڈیننس بہت پہلے آنا چاہئے تھا لیکن حالیہ واقعات کے بعد عوامی دباؤ اور حکومت پر بڑھتی تنقیدوں کے سبب مجبوراً یہ فیصلہ کیا گیا۔ آرڈیننس کو ابھی قانونی شکل دینا باقی ہے۔ عام طور پر مقدمات کا فیصلہ تحت کی عدالت سے آنے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجائش موجود ہے لہذا ملزمین کو سزا ملنے تک برسوں لگ سکتے ہیں۔ عصمت ریزی جیسے شرمناک واقعات کے مقدمات کا فیصلہ کئی برسوں کے بجائے مقررہ مدت دوران ہونا چاہئے ۔ سزائے موت سے متعلق آرڈیننس مرکزی حکومت کی مجبوری ہے تاکہ خواتین کے تحفظ میں ناکامی کے الزام سے بچا جاسکے۔ دونوں واقعات بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔ ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اترپردیش کے واقعہ کو دباکر جموں کے واقعہ کو اچھال دیا گیا ۔ جموں کی متاثرہ لڑکی کے نام کو بھی میڈیا نے مخفی رکھنے کے بجائے عام کردیا جو سنگھ پریوار کی منصوبہ بند سازش تھی ۔ مسلم لڑکی کے نام کو عام کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوفزدہ ، مرعوب اور پست ہمت کرنے کی سازش کی گئی ہے اور مسلمان اس کا شکار ہوگئے ۔ ہندوستان جہاں خواتین کا احترام تہذیب کا حصہ ہے، اب خواتین کی عصمت سے کھلواڑ کرنے والوں کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ اترپردیش کے واقعہ میں چونکہ بی جے پی رکن اسمبلی ملزم ہے، لہذا انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح جموں کے معاملہ میں سنگھ پریوار کی تنظیمیں متحرک ہوچکی ہے۔ دوسری طرف کانگریس کے سینئر قائد سلمان خورشید کے ایک بیان نے سیاسی حلقوں اور خاص طور پر کانگریس میں ہلچل پیدا کردی ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ کانگریس پارٹی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ سلمان خورشید کا شمار کانگریس کے سینئر اور جہاندیدہ قائدین میں ہوتا ہے، وہ ایک نامور قانون داں بھی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے مکمل ذمہ داری کے ساتھ ہی بیان دیا ہوگا۔ سلمان خورشید کی حق گوئی کے ساتھ ہی کانگریس نے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلمان خورشید نے کوئی نئی بات یا غلط بات نہیں کہی کہ جس سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے ۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کانگریس پارٹی نے ملک میں سب سے زیادہ حکومت کی ، لہذا زیادہ فسادات بھی اسی کے دور میں ہوئے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے سبب ملک کے کئی علاقوں کا نام دوسرے علاقوں کے عوام کو معلوم ہوا ورنہ وہ گمنام علاقے تھے۔ کانگریس دور حکومت میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے اور ملک کی تاریخ فسادات کی تباہ کاریوں سے بھری پڑی ہے۔ کرناٹک کے انتخابات میں شکست کے خوف سے کانگریس نے سلمان خورشید کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ ظاہر ہے کہ جو پارٹی جس قدر زائد مدت تک اقتدار میں رہے گی ، اس کے دور میں زائد فسادات کا ریکارڈ شامل ہوگا۔ ویسے بھی کانگریس کے ہاتھ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ سکھوں کے خون سے بھی داغدار ہیں۔ سلمان خورشید نے دراصل ایک مباحثہ کے دوران تلخ حقیقت کا اعتراف کیا جو کانگریس کو پسند نہیں ہے۔ کانگریس کا انداز حسیناؤں کا ہوچکا ہے جنہیں صرف حسن و جمال کی تعریف چاہئے ۔ اگر کوئی آئینہ دکھا دے تو برہم ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کے خون سے سیاسی جماعتوں کے ہاتھ آلودہ ہونے کا سوال ہے، اس معاملہ میں کوئی بھی پارٹی مستثنیٰ نہیں۔ کوئی کم تو کوئی زیادہ ، ہرکسی کے دور میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ خود کو سیکولر اور مسلمانوں کا ہمدرد قرار دینے والی علاقائی جماعتیں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ ان کا دامن مسلمانوں کے خون سے داغدار نہیں ہے۔ ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کا خون سستا ہوچکا ہے۔ پانی کی قیمت ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی قیمت نہیں۔ ملک کے حالات پر ندا فاضلی کا یہ شعر یاد آگیا ؎
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو