محمود شام، کراچی (پاکستان)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بسائی ہوئی بستی بنی گالا میں عمران خان کے محل نما گھر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی آمد پاکستان کے الجھے ہوئے سیاسی حالات میں یقینی طور پر ایک چونکادینے والی پیش رفت تھی ۔اس کا انتظار اگرچہ کچھ دنوں سے تھا لیکن زیادہ امکان یہ تھا کہ عمران خان رائیونڈ جائیں گے۔دونوں کو کہا جارہا تھا کہ وہ آپس میں ملیں اور طالبان سے مذاکرات پر عوام کے سامنے ایک رائے ہونے کا اعلان کریں ۔وزیر اعظم کو زیادہ جلدی ہے اس لئے انہوں نے عمران کے گھر جانے کے لئے ہاں کردی ۔اب قومی سطح پر صرف پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نمایاں رہ گئی ہیں،گزشتہ پانچ سال ملک پر حکومت کرنے والی اور دو بڑے شہیدوں کی وارث پاکستان پیپلز پارٹی تھر کی ریت میںبھٹک رہی ہے۔پارٹی کے سربراہ آصف زرداری دوبئی میں ریت کے قلعے بناکر مستقبل محفوظ کرنا چاہتے ہیں ۔حالانکہ ریگ زاروں میں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں ۔
ملک میں دہشت گردی سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے اسی لئے طالبان سے مذاکرات یا ان کے خلاف آپریشن کا سوال اس وقت دیگر سب امور پر فوقیت رکھتا ہے۔ قوم کی نظریں وزیر اعظم ہائوس اور جی ایچ کیو یعنی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر پر لگی ہوئی ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہو جلد ہو اور اس پرمکمل عمل درآمد کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں نواز لیگ اور عمران کی تحریک انصاف مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن الیکشن کی تلخ یادیں انہیں مل کر بیٹھنے نہیں دیتیں۔مذاکرات خطرے میں پڑتے دکھائی دے رہے تھے اس لئے سفارتی حلقے بھی حرکت میں آگئے ۔خاص طور پر سعودی عرب نے بہت دلچسپی لی اور نواز عمران ملاقات کے لئے گزشتہ دو ہفتے میں دونوں کے ملکی غیر ملکی دوستوں، ضامنوں کو بار بار متحرک کیا گیا یہی کہا گیا کہ اگر دونوں ایک آواز نہ ہوئے تو بوٹ حرکت میں آ سکتے ہیں ،ایک میڈیا گروپ نے بھی اس میں زور لگایا کیونکہ اس کی بقا بھی مذاکرات سے وابستہ ہے ۔ملاقات تو ہو گئی ہے عمران خان کو اس سے اہمیت بھی مل گئی ہے لیکن کیا طالبان اس اتحاد کو پسند کریں گے ۔عمران طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن ان کا زیادہ ووٹ بینک لبرل اور سیکولر لوگوں پر مشتمل ہے ۔
نواز کا وو ٹ بینک طالبان کے حامیوں کا ہے عمران کی پارٹی میں یہ بحث پہلے ہی زوروں پر ہے کہ طالبان کی حمایت صرف خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت بچانے کے لئے کی جارہی ہے جو اچھا سودا نہیں ہے اگلے الیکشن میں اس حکمت عملی سے نقصان ہو سکتا ہے سب کا خیال ہے کہ ہندوستان اور افغانستان دونوں کے اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد پاکستان میں بھی نئے الیکشن کے لئے شور زور پکڑے گا۔مذاکرات کی کامیابی کے لئے دعائیں تو سب کرتے ہیں لیکن طالبان کے بیانات اب تک کے رویوں کے باعث کسی کو مذاکرات کے کسی نتیجے تک پہنچنے کا یقین نہیں ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ فوج اور طالبان دونوں اس وقفے میں اپنی اپنی تیاریاں کریں گے ۔ایک حلقہ سعودی عرب سے یہ ہلکی سی امید کررہا ہے کہ اس کا دبائو طالبان کے بعض گروپوں کو دہشت گردی ترک کرنے پرآمادہ کر سکتا ہے۔اس کی مالی امداد ہی ان جہادی تنظیموں کو طاقتور بناتی ہے۔
پاکستان میں اس ہفتے ڈالر کی قیمت تیزی سے نیچے آئی ہے ایک سو دس روپے تک پہنچنے والا ڈالر چھیانوے تک گرا ہے اس میں بھی سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا کمال بتایا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں یہ بات عام سطح پر کی جارہی ہے کہ پاکستان نے شام کے مسئلے پر سعودی عرب کے کہنے پر پالیسی بدل لی ہے اس لئے بادشاہ نے خوش ہو کر یہ انعام دیا ہے ۔حقیقت جو بھی ہو جنتا ڈالر کے گرنے سے خوش ہو رہی ہے اور دعا کر رہی ہے کہ ڈالر اور نیچے آ ئے تاکہ کھانے پینے کی چیزیں سستی ہوں ۔سعودی عرب اس خطے میں اپنا اثر پھر بڑھانا چاہ رہا ہے امریکہ ایران کے بڑھتے تعلقات بھی اس کے لئے پریشان کن ہیں دوسری طرف وہ پاکستان میں ابو ظہبی دوبئی کے مضبوط ہوتے رسوخ کو بھی پسند نہیںکرتا۔ یو اے ای نے نواز شریف کے مقابلے میں مشرف کی بعد میں زرداری کی حمایت کی۔ اب بھی سعودیوں کو خدشہ ہے کہ یو اے ای نواز کے سامنے عمران کو لا رہا ہے زرداری بھی درپردہ عمران کے حامی ہیں ۔ اب پاکستان میں اس حوالے سے نئی صف بندی ہو رہی ہے ۔
زرداری کے بارے میں سعودیوں کا یہ تاثر بھی ہے کہ وہ پاکستان کو ایران کے قریب لیجانا چاہتے تھے ۔ سعودیہ نے اگر نواز حکومت کی مالی مدد جاری رکھی تو مسلم لیگ کو ملکی معیشت میں بہتری لانے میں کامیابی ہو سکے گی جس سے پاکستان کے عوام بھی مطمئن ہونگے ۔لیکن یہ کوششیں پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات پر کیسا اثر ڈالیں گی۔ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ واگھا کے ذریعے تجارت کی مخالفت میں 31 مارچ کو پرزور احتجاج کی تیاریاں جو حلقے کر رہے ہیں وہ بھی مسلم لیگ ن کے حامی بتائے جاتے ہیں۔ مرکز کی یا صوبے کی سرکار اسے روکنے کی بجائے در پردہ حمایت کر رہی ہے۔ آخر میں ایک دکھ کی بات راجستھان کی سرحد سے قریب ہمارے تھر میں ایک سو چالیس سے زیادہ بچے بھوک اور بیماری سے ہلاک ہونے پر سندھ کی پی پی پی سرکار کے خلاف ملک بھر میں بڑا غصہ پایا جاتا ہے اور یہ ذکر ہو رہا ہے کہ سرحد پار ایسا کیوں نہیں ہوتا وہاں اتنی ہریالی کیسے جبکہ زمین ایک سی پانی کا مسئلہ وہاں بھی ۔اگر آپ میں سے کسی کے پاس سوال کا جواب ہو اور بھارت سرکارکی طرف سے کی گئی کوششوں اور منصوبوں کی تفصیل مجھے بھیج سکیں تو ہم یہاں کی سرکار کو بتا سکیں گے شاید اس سے ہی تھر کے لوگوں کو کچھ سکھ مل سکے ۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800