سعودی عرب کی مسجد میں حملہ تشویشناک

یا خدا پھر کوئی پیدا ہو صداقت کا امین
ایک مدت سے نگاہوں کو ہے انساں کی تلاش
سعودی عرب کی مسجد میں حملہ تشویشناک
سعودی عرب کی مسجد میں داعش کا دہشت گرد حملہ اس اسلامی مرکزی ملک میں سکیوریٹی کی تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ عراق سے لے کر شام، افغانستان اور لیبیا کے بعد یمن و سعودی عرب تک اس کی سرگرمیوں نے عالم اسلام کو شدید نقصانات سے دوچار کردیا ہے۔ کل تک دولت اسلامیہ کو صرف ان ملکوں میں محاذ آراء دیکھا گیا تھا جہاں انسانی بستیوں کے خلاف ظلم و زیادتیاں ہونا متصور کیا جاتا تھا۔ اب دولت اسلامیہ (داعش) نے سعودی عرب کی سرزمین کو لہو لہان کرنے کا ناپاک مظاہرہ شروع کیا ہے تو اس پر فوری توجہ دینا وقت کا تقاضہ ہے۔ اسلام میں تعصب اور منافرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض تنظیمیں تشدد کے ذریعہ دین اسلام کے تشخص کو مسخ کررہی ہیں۔ دولت اسلامیہ کا رول اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار بننے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ جس امریکہ نے افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو کارپٹ بمباری کے ذریعہ موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا تو اس دہشت گردی کی تشریح کرنے والوں نے لب کشائی نہیں کی تھی۔ اب اس کی پالیسیوں اور ظلم و زیادتیوں کی کوکھ سے جنم لینے والی تنظیموں نے انسانی جانوں کا صفایا کرنے کی مہم شروع کی ہے تو اس طرح کی تنظیموں کی سرکوبی کے لئے عالم اسلام کے حکمرانوں کو سنجیدہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام کو اپنی سکیوریٹی مضبوط کرنے کے لئے یوروپ اور امریکہ میں دہشت گردی اور تشدد سے نمٹنے کے لئے اختیار کردہ اصولوں کو اختیار کرنے پر دھیان دینا ہوگا۔ ان مغربی ملکوں میں تشدد سے نمٹنے کے لئے جو نیٹ ورک بنایا گیا ہے وہ اتنا مضبوط اور فعال ہے کہ وہ کسی اور ملک میں نہیں ہے۔ اگر عصبیت سے بالاتر ہوکر منصفانہ ذہن سے پوری دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ اور اسرائیل کو سرفہرست پایا جائے گا۔ کئی دہشت گرد گروپ امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کی زیرنگرانی مسلم ممالک میں قتل عام کرنے کی اطلاعات کو بھی نظرانداز کیا جانے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سعودی عرب تک یہ دہشت گرد رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے داعش کے کارکنوں نے حکمراں کو چیلنج کردیا ہے۔ یہ حملہ سراسر سعودی عرب کی سلامتی کو دھکہ پہونچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ ایسے میں حکومت سعودی عرب کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی سکیوریٹی کو مضبوط بنادے۔ بلاشبہ سعودی حکومت اس سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ ولیعہد ہی شاہی خاندان کے فرد ہیں جنھوں نے کئی برس تک کامیابی سے القاعدہ کے خلاف مہم چلائی ہے۔ اگر سعودی عرب کا انسداد دہشت گردی پروگرام دولت اسلامیہ کو شکست دینے اور سعودی حکومت کی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو سرزمین عرب میں عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کی امیدیں بھی قوی ہوں گی۔ سعودی عرب کو کمزور کرنے کی سازش کرنے والی طاقتوں کے آلہ کار بن کر جو اسلامی نام نہاد تنظیمیں سرگرم ہیں ان کی سرکوبی کے لئے مؤثر حکمت عملی بنانا ضروری ہے۔ حکومت سعودی عرب کو اپنی انٹلی جنس سرگرمیوں میں شدت لاکر اس طرح کی قاتل تنظیموں کے خلاف چوکسی اختیار کرنا ہوگا۔ 22 مئی کو بھی ایک مسجد میں حملہ کرکے 22 مصلیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ ایک ہفتہ بعد دوسری مسجد میں دھماکہ کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت سعودی عرب اور سکیوریٹی ایجنسیوں کی کارروائیوں کے دوران 400 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح کی گرفتاریوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ داعش نے ریاض تک رسائی حاصل کرکے مسجد میں دھماکہ کیا۔ یہ سراسر سکیوریٹی اور انٹلی جنس کی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے بعض سے پوچھ گچھ کے دوران ہی پولیس اور انٹلی جنس کو یہ پتہ چلا تھا کہ سعودی عرب کی مختلف مساجد کو نشانہ بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے تو سکیوریٹی ایجنسیوں کو فوری چوکسی اختیار کرنی چاہئے تھی۔ شام، عراق اور یمن میں آج جو کچھ ہورہا ہے اس کا اعادہ سعودی عرب میں کرنے کا منصوبہ رکھنے والی طاقتوں کو ناکام بنانا سعودی سکیوریٹی ایجنسیوں کا کام ہے۔ ہولناک نظریات کو فروغ دینے والی تنظیم سے نمٹنے کے لئے حکمرانوں کو بیدار ہونا ضروری ہے۔ ریاض کی مسجد کا دھماکہ بھی اس طرح سے عرب حکمرانوں کی آنکھ کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب دولت اسلامیہ کے 3 منظم حملوں کا نشانہ بن چکا ہے تو یہ نہایت ہی تشویش کی بات ہے۔
تلنگانہ میں بارش کی کمی
تلنگانہ میں جاریہ سال مانسون کی کمی سے پیدا ہونے والی صورتحال تمام کے لئے تشویشناک ہے۔ بارش نہ ہونے سے زرعی پیداوار پر بُرا اثر پڑے گا اور چاول کی قلت سے نمٹنے کے لئے تلنگانہ حکومت کو کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ بارش کی ناکامی کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کی قلت ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کو سربراہی آب کے دو بڑے آبی ذخائر عثمان ساگر اور حمایت ساگر تقریباً خشک ہورہے ہیں۔ دیگر ذرائع آب سے پانی کی سربراہی تشویشناک بنتی جارہی ہے۔ ایسے میں حکومت تلنگانہ کے لئے آنے والے دنوں میں جو مسائل رونما ہوں گے ان سے نمٹنے کے لئے پیشگی انتظامات وقت کا تقاضہ سمجھے جارہے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ بارش کی کمی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے میں دلچسپی کم لے رہے ہیں تو ریاست میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سال مانسون کی بے رخی کے باعث 25 فیصد بارش کم ہوئی ہے۔ اس طرح کی تشویشناک صورتحال کے باوجود حکومت احتیاطی اقدامات کے لئے منصوبے بنانے سے عاری معلوم ہوتی ہے۔ موسم خریف کے دوران ریاست میں 33 لاکھ ٹن چاول کی پیداوار ہوتی تھی مگر اس سال چاول کی پیداوار میں شدید کمی نوٹ کی جارہی ہے۔ خریف اور ربیع کی فصلوں کی تباہی سے کسانوں کا تو بُرا حال ہوگا اس کے ساتھ عام انسانوں کو اشیاء کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تلنگانہ میں غریب کسانوں، طلباء برادری اور صاف صفائی ورکرس کے مسائل کی یکسوئی ایک مسئلہ بن رہی ہو وہاں کی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہوں تو ایسے میں بارش کی کمی سے ہونے والے نقصانات آنے والے دنوں میں بھیانک حالات پیدا کریں گے۔