سعودی عرب کا ویژن 2030

عالمی مارکٹ میں اس وقت تیل کی اتنی فراوانی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ صورتِ حال تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ مستقبل کی صورتحال کا اندازہ کرنے میں ہی کمال حکمرانی ہوتی ہے، اس لئے سعودی عرب نے آئندہ تیل پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر معاشی راہ داریوں کو وسعت دینے کا ویژن تیار کرلیا ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان نے ویژن 2030 کے شاندار منصوبے کو منظوری دی ہے۔ کابینہ کی ہفتہ واری میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے شاہ سلمان نے سعودی عرب کی معیشت کو تیل پر منحصر کرنے سے گریز کرتے ہوئے دیگر شعبوں میں ترقیات کے کام انجام دیئے جانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دی۔ سعودی عرب کی جامع ترقی کو یقینی بنانے کی بڑی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اسلامی اُصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔ سعودی عرب کے محل وقوع کی اہمیت اور حکمت عملی پر مبنی علاقہ سے فوائد حاصل کریں گے۔ قدرتی وسائل سے بھرپور مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے سعودی عرب کے باشندوں کے بہتر مستقبل کے نشانہ کو پورا کرلیا جائے گا۔ دین اسلام اور ساری دنیا کی امت مسلمہ کی خدمت میں سعودی عرب نے اب تک ملک کی ثقافت اور روایتی انداز کو ملحوظ رکھا، اس تناظر میں مستقبل کا منصوبہ اس ملک کو نئی ترقی کی سمت لے جائے گا۔ یہ نیا روڈ میاپ سعودی عرب کے نئے مستقبل کو روشن بنانے میں معاون ثابت ہو تو بہترین نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب کو تعلیمی اور صنعتی شعبوںمیں ترقی کیلئے اولین اقدامات کرنے ہوں گے۔ علم اور تحقیق کے مراکز بناکر معاشی راہداری کی نئی شاہراہیں کھولی جانی چاہئے۔ بلاشبہ سرزمین سعودی عرب میں علم و دانش کے قافلے برسوں سے سفر کرتے آرہے ہیں۔ اس سرزمین کو عصری تقاضوں سے لیس کرتے ہوئے عالم اسلام کا مضبوط نمائندہ منزل میں تبدیل کردیا جائے تو ساری دنیا کی طاقتیں اس کی مطیع ہوجائیں گی۔ تیل کی دولت سے درست طریقہ سے استفادہ کرنے اور اس میں برکت ہونے کا ثبوت سعودی عرب کی ترقی سے ہی مل جاتی ہے

جبکہ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں تیل کی دولت پائی جاتی ہے پھر بھی یہ ممالک ترقی اور خوشحالی کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔عرب ممالک کے علاوہ نائجیریا کے پاس بھی تیل کے بھاری ذخائر موجود ہیں لیکن یہ ایک غریب ملک کہلاتا ہے، اس کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ وینیزویلا کے پاس بھی تیل ہے لیکن اس کی معاشی حالت کمزور ہے جس ملک کے رہنما تخیل اور بصیرت رکھتے ہیں، وہ ترقی کے میدان میں دیگر کے مقابل فتح حاصل کرتے ہیں۔ یہاں متحدہ عرب امارات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کیونکہ یہ ملک تیل کی دولت سے مالامال نہ ہونے کے باوجود دولت پیدا کرنے کے دیگر ذرائع پیدا کرتے ہوئے اختراعی کام انجام دیئے  اور یہ بات ساری دنیا نے تسلیم کرلی ہے کہ دوبئی اب دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں آگے ہے۔ اس طرح سعودی عرب بھی تیل کی دولت رکھتے ہوئے بھی آئندہ اس پر انحصار کرنے کے بجائے دوسرے اختراعی شعبوں پر توجہ دیتا ہے تو بلاشبہ اس میں ترقی و برکت ہوگی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں اگر اپنے ملک سے حاصل ہونے والی دولت اور وسائل کو عالم اسلام کی فلاح و بہبود اور امن و خوشحالی کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر مرکوز کرے تو شاید عالم اسلام کی بھلائی ہوگی اور اس عزم و حوصلہ میں غیبی طور پر طاقت و رہنمائی بھی حاصل ہوجائے گی۔ سعودی عرب کے حکمرانوں نے اپنا ملک کس طرح چلائیں کا گُر گانٹھ بناکر رکھ لیا ہے۔ اب انہیں نئے طریقہ اور نئی منزلوں سے ہوکر گذرناہے تاکہ دولت کیساتھ علم و سائنس و صنعت کی پائیدار تخلیق سے سعودی باشندوں کے علاوہ عالم اسلام استفادہ کرکے ترقی حاصل کرسکے۔ سعودی عرب کی موجودہ کابینہ کے تمام ارکان نے اپنی قابلیت اور دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے ویژن 2030 تیار کیا ہے تو یہ بھی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ عمرہ اور عازمین حج کیلئے جو انتظامات کئے جارہے ہیں، اس سے موجودہ 8 ملین عازمین عمرہ کی تعداد سال 2030 تک بڑھ کر 30 ملین ہوجائے گی اور معتمرین کے مقدس سفر سے سعودی عرب کو حاصل ہونے والا مالیہ ایک نئی طاقت کا ذریعہ ہوگا۔