عامر علی خان
سعودی عرب میں تقریبا 90 لاکھ بیرونی ورکرس کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا بھر میں ایک بڑی بیرونی ورک فورس رکھنے والا ملک ہے ۔ یہاں 2.96 لاکھ سے زیادہ تعداد میں ہندوستانی برادری ہے ۔ مملکت میں ہندوستانی تارکین وطن دوسرے ممالک کی تعداد کی نسبت زیادہ ہیں۔ ایک اور ذریعہ کے بموجب سعودی عرب میں 3.05 ملین ہندوستانی تارکین وطن کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ سعودی معیشت کے تقریبا تمام شعبوں میں سرگرم ہیں۔ ان میں اعلی معیادی سائنٹفک اور ریسرچ کی ذمہ داریوں سے لے کر تعمیراتی شعبہ بھی شامل ہے ۔
ہندوستانی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے ہندوستانی تاجروں کو بھی تجارتی مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ سعودی مملکت میں تجارت اور سرمایہ کاری کے بہترین مواقع دستیاب ہیں۔ وہاں ایک فراخدلانہ تجارتی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے جس کی بنیاد آزادانہ تجارت پر مبنی ہے ۔ سعودی عرب نے تارکین وطن کی حفاظت اور ان کے تحفظ کیلئے کئی قوانین بھی تیار کئے ہیں جن پر وہاں عمل آوری کی جاتی ہے ۔ ماہرین کے بموجب موجودہ سعودی قانون میں حروب کا دفعہ موجود ہے جس کا کچھ اسپانسرس نے بیجا استعمال کیا ہے ۔ سرکاری قوانین میں اسپانسرس کو یہ اجازت ہے کہ وہ ان ملازمین کو مفرور قرار دیدے جو ایک مدت تک کام پر رجوع نہ ہوپائیں۔
سعودی عرب نے رحمدلانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کئی مرتبہ مواقع فراہم کئے تاکہ مملکت میں جو ورکرس اور ملازمین مناسب دستاویزات کے بغیر موجود ہیں وہ اپنے آپ کو قانونی موقف حاصل کرلیں۔ اپریل 2013 میں تین ماہ کا ایک عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ہز میجسٹی شاہ عبداللہ نے مزید رعایتی مدت کا اعلان کیا تھا تاکہ جو تارکین وطن وہاں اپنے ویزوں کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی قیام کر رہے ہیں وہ بھی اپنے موقف کو بہتر بنالیں۔ نئے روزگار حاصل کرلیں یا پھر کسی تعزیری کارروائی کا سامنا کئے بغیر وہ اپنے ملک واپس ہوجائیں۔ اس رعایتی مدت کا اختتام 3 نومبر 2013 کو عمل میں آیا ۔ اس سے تقریبا 1.4 ملین ( 14 لاکھ ) ہندوستانیوں نے استفادہ کیا اور وہ یا تو قانونی موقف حاصل کرنے میں کامیاب ر ہے یا پھر وہ اپنے وطن واپس ہوگئے ۔
نومبر 2014 میں مفرور قرار دئے جانے والے یا حروب تارکین وطن کی کثیر تعداد کیلئے ایک بڑی رعایت کا بھی اعلان کیا گیا تھا ۔ حکومت سعودی عرب کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اپنی ملازمتوں پر حاضر نہ ہونے اور مفرور رہنے والے تارکین وطن جیل جانے سے بچے بغیر اپنے ملکوں کو واپس ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ زیر دوران نہ ہو ‘ وہ اپنے واجب الادا جرمانے ادا کردیں ‘ اپنے ٹکٹس کی قیمت خود فراہم کریں اور اپنے قونصل خانوں سے یہ تیقن دلائیں کہ یہ لوگ اندرون 72 گھنٹے وطن واپس ہوجائیں گے ۔ اسی طرح کے ایک رحمدلانہ اقدام میں جو ماہ اگسٹ 2016 میں ہوا تھا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان نے 100 ملین سعودی ریال کی رقم مختص کی تھی تاکہ وہاں پھنسے ہوئے ورکرس کی مدد کی جاسکے ۔ ان میں اکثریت پاکستان ‘ ہندوستان ‘ فلپائن اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تھی ۔ حال ہی میں مارچ 2017 میں مملکت سعودی عرب میں ایک مہم ’’ قوانین کی خلاف ورزی سے پاک قوم ‘‘ کے نام سے شروع کی ہے ۔ اس مہم کے حصے کے طور پر 90 دن کی رعایتی مہلت دی گئی جس کا آغاز 29 مارچ سے ہوا تھا ۔ جنرل ڈائرکٹوریٹ آف پاسپورٹس نے اعلان کیا تھا کہ اس مہم کے دوران ایسے تارکین وطن ورکرس جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں وہ اپنے قانونی موقف کو 90 دن کی معافی کے ایام میں بحال کرسکتے ہیں اور قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے دوبارہ مملکت میں واپس آسکتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے ورکرس کو deportee fingerprint system کے عواقب سے استثنی دیا گیا تھا اور یہ لوگ اس شرط پر مملکت واپس آسکتے ہیں کہ وہ دوبارہ داخلہ کیلئے صرف قانونی طریقہ کار اختیار کریں۔ عرب نیوز کی اطلاع کے بموجب اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن جو اپنے موقف کو قانونی بنانے کیلئے اس 90 دن کے رعایتی وقفہ کے دوران کوشش کر رہے ہیں انہیں سعودی اقامتی قوانین ‘ لیبر سسٹم اور وسیع تر سکیوریٹی سے متعلق جرمانہ اور پنالٹی سے بھی چھوٹ دیدی جائیگی ۔ سعودی عرب میں ’’ قوانین کی خلاف ورزی سے پاک قوم ‘‘ مہم وزارت داخلہ کی جانب سے چلائی جا رہی ہے ۔
اس مہم سے وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو سعودی عرب میں قانونی مدت سے زیادہ قیام کر رہے ہوں۔ یا یہ لوگ حج ‘ یا عمرہ یا ویزٹ یا ٹرانزٹ ویزہ پر آئے تھے ۔ اس مہم سے جن افراد کو فائدہ ہوگا ان میں وہ ورکرس شامل ہیں جو ورک پرمٹ کے ساتھ مملکت کو آئے تھے لیکن انہوں نے اپنی آمد کے اندرون 90 دن اقامہ شناختی کارڈ حاصل نہ ہو‘ یا سعودی سرحد عبور کرکے آنے والے در انداز ہوں ‘ یا وہ مقیم افراد ہوں جن کے اقامہ کی مدت ختم ہوگئی ہو ‘ وہ زائرین ہوں جنہوں نے حج پرمٹ کے حصول کے بغیر حج کرلیا ہو اور وہ ورکرس ہیں جو اپنے آجرین سے بچ کر فرار ہوگئے ہوں۔ ہندوستانی سفیر جاوید احمد نے یہ بھی واضح کیا کہ سعودی عرب میں جملہ تارکین وطن میں ہندوستانی سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ دمام میں ہندوستانی برادری کے والینٹرس اور قائدین سے خطاب کرتے ہوئے جاوید احمد نے سعودی عرب کے ساتھ ہندوستان کے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کی یاد دہانی کروائی تھی اور کہا تھا کہ اس ملک کو اب بھی ہندوستانی ورکرس کی جانب سے ترجیح دی جاتی ہے ۔ دوسری جانب ہندوستان ‘ سعودی شہریوں کیلئے چھٹیاں گذارنے کا ایک پسندیدہ مقام بھی بنتا جا رہا ہے ۔ اپنے خطاب میں جاوید احمد نے ہندوستان سے آنے والے گھریلو ملازموں سے متعلق قوانین وغیرہ کا بھی تذکرہ کیا تھا ۔
حیدرآباد کے سعودیہ سے تاریخی تعلقات
حج کے موقع پر جدہ میں اپنے ایک انٹرویو کے دوران ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ محمد محمود علی نے تاجروں اور سیاحوں کو ہندوستان کی نئی ریاست تلنگانہ میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی تھی ۔ اس موقع پر انہوں نے ادعا کیا تھا کہ حیدرآباد کے سعودی عرب کے ساتھ نظام کے دور سے تاریخی تعلقات رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اور نظام کے ساتھ تعلقات کو آج بھی حیدرآباد کے بارکس علاقہ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ بارکس کا علاقہ ہندوستان کی آزادی سے قبل نظام حیدرآباد کی فوج کے بیارکس کیلئے مختص تھا ۔ انہوں نے یاد دہانی کروائی تھی کہ ’ بارکس ‘ کا نام وادی بارکس سے اخذ کیا گیا تھا جو سعودی عرب کی ایک کالونی تھی ۔ سعودی عرب میں بارکس سے ایک ریجمنٹ کو حیدرآباد طلب کیا گیا تھا ۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ اس کالونی کے بیشتر مکین در اصل یمن اور سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ کے کلچر میں فاروسی روایات کی جھلک بھی ملتی ہے جو مغلوں اور نظام کے دور اقتدار میں شروع ہوئی تھی ۔
تلنگانہ ٹوڈے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تقریبا تین لاکھ افراد اس صحرائی مملکت میں برسر روزگار ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ حیدرآباد کے تعلقات بہت قدیم ہیں۔ حیدرآبادی شہری ان اولین تارکین وطن میں شامل تھے جنہوں نے 1960 کی دہائی میں اس مملکت میں قدم رکھا تھا ۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالا سے تعلق رکھنے والوں کے بعد سعودی عرب میں سب سے بڑی تارکین وطن کی تعداد حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہے ۔