سعودی عرب اور امریکہ کی حالیہ کشیدگی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

عامر علی خان
حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کڑواہٹ آئی ہے اور اس کڑواہٹ میں اس وقت مزید شدد آئی ہے جب امریکہ نے سعودی کے خلاف سینٹ میں قرارداد منظور کی تو دوسری جانب سعودی حکام نے امریکہ کی اس کارروائی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے داخلی مداخلت قرار دیا اور کسی کی مداخلت کوبرداشت نہ کرنے کا دوٹوک جواب دیا ہے۔ متنازعہ معاملہ جمال خشوگی کے قتل اور یمن میں جاری جنگ کے متعلق امریکہ سینٹ کی قراراد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عربیہ نے اس کو ’’ بیجا مداخلت‘‘ قراردیااور واشنگٹن کے ساتھ جاری مفاہمت پر غور کرنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔ جو ان دو ممالک کے درمیان حالات کی کشیدگی کا اندازہ لگانے کیلئے اہم ہیں۔ ریپبلکن کے زیر قیادت سینٹ نے گزشتہ دنوں یمن میں ریاض کے زیر قیادت جاری جنگ میں امریکی ملٹری مدد کو ختم کرنے اور خشوگی کے قتل پر علیحدہ طور سے ولی عہد محمد بن سلمان کو قصور وار قراردئے جانے پر ووٹ کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر ووٹ صدر ڈونالڈ کے لئے تازہ انتباہ تصورکیا جارہا ہے جو عالمی سطح پر مخالفت کے باوجود سعودی سلطنت کی حمایت کررہے ہیں‘ ان حالات میں اگر ہم ماہرین کے تجزیوں کے زاویوں سے اس سارے معاملے کا مطالعہ کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ سفارتی طور پر مملکت کمزور ہوجائے گی۔ سعودی کی سرکاری پریس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں خارجی وزارت نے کہاکہ امریکی سینٹ کے فیصلوں کی سعودی مملکت شدیدمذمت کرتا ہے جوغیر ضروری الزامات کے تحت کی گئی کاروائی ہے اور ہمارے داخلی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت مسترد کردی جاتی ہے‘‘۔ یمن کے معاملے پر جس میں فوجی کاروائی کے متعلق صدرکو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ قرارداد پر رائے دہی کی بات کی جائے تو 49 ڈیموکریٹس نے سات ریپلکن کے ہمراہ ووٹ ڈالے جبکہ دیگر تین ریپبلکن غیر حاضر رہے۔ اس کے علاوہ سینٹ نے ایک قرارداد کو بھی منظوری دی جس میں خشوگی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ولی عہد محمد بن سلمان کو اس کا ’’ذمہ دار‘‘ ٹہرایا ہے۔ سعودی کی وزرات نے انتباہ دیتے ہوئے کہاکہ مملکت اپنے کسی بھی حکمران کے ’ عدم احترام ‘ کو برداشت نہیں کرے گی۔ اس معاملے پر وزارت نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ’’ امریکی سینٹ کا یہ موقف ان کے لئے ایک غلط پیغام مانا جائے گا جو سعودی امریکہ رشتوں کے درمیان رخنہ پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ورلڈ ہلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یمن میں اتحادی فوجیوں کی جانب سے 2015میں شروع کی گئی کاروائی سے اب تک 10ہزار لوگ مارے گئے۔ مگر چند دائیں بازو گروپس کا ماننا ہے کہ اموات کے اعدا د وشمار اس سے زیادہ ہیں۔ امریکہ کی سینیٹ نے یمن میں جاری سعودی عرب کی جنگ سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد کو ذمہ دار ٹھہرانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ پہلی مرتبہ امریکہ کی کانگریس کے ایوان نے جنگی طاقت کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے امریکی فوجوں کی واپسی کے لئے ووٹ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض رپبلکن ساتھی اراکین نے بھی ان کے خلاف جاتے ہوئے ڈیموکریٹس کے اس اقدام کی حمایت کی اور اسے 41 کے مقابلے میں 56 ووٹ حاصل ہوئے۔ تاہم اس قرارداد کو محض علامتی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ قانون نہیں بنے گا۔ ایک قرارداد کے لئے صدر ٹرمپ سے کہا گیا تھا کہ وہ یمن سے تمام فوجیوں کو واپس بلائیں ماسوائے ان کے جو اسلامی شدت پسندوں سے بر سرِ پیکار ہیں۔ اس کے بعد سینیٹ میں ایک دوسری قرار دار منظور کی گئی اس میں اکتوبر میں مارے جانے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد پر الزام عائد کیا گیا اور سعودی ریاست سے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کے لئے اصرار کیا گیا۔ امریکہ نے گذشتہ ماہ سعودی جنگی جہازوں میں ایندھن کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا تھا اور اگر حالیہ دنوں میں اس کی منظور کی گئی قرارداد قانون بن جاتی ہے تو یہ کام دوبارہ بحال نہیں ہو پائے گا۔ یہ اقدام صدر ٹرمپ کے لیے سیاسی شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سی آئی اے کے نتائج کے باوجود وہ سعودی ولی عہد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سینیٹرز برنی سینڈرز کے بموجب ’’ ہم نے سعودی حکومت کو بتا دیا ہے کہ ہم ان کی کسی عسکری مہم جوئی میں شامل نہیں ہوں گے۔ واضح کیا کہ اس سے دنیا کو یہ اشارہ ملے گا کہ ’ریاست ہائے متحدہ امریکہ زمین پر بدترین انسانی سانحے کا مزید حصہ نہیں بنا رہے گا۔ رپبلکن سینیٹر باب کروکر کا بیان بھی اہم ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اگر سعودی شہزادے کسی عدالت کے سامنے پیش ہوں تو میرے خیال میں انہیں 30 منٹ میں سزا ہو جائے گی۔موجودہ حالات میں دوسوال اہم بن جاتے ہیں کہ سعودی کے خلاف آخرامریکہ کی قرارداد کیا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قرارداد قانون کا درجہ حاصل کرپائے گی۔ قرارداد کیلئے ہونے والی رائے دہی میں امریکی کانگریس کا کوئی بھی گوشہ 1973 ء کے وار پاور قانون کے تحت کسی فوجی تصادم سے امریکی فورسز کو ہٹانے کے لیے پہلی بار رضا مند ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بعض ساتھی ریپبلکن رہنما نے ان کے خلاف جاتے ہوئے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں ڈیموکریٹس کی 41 کے مقابلے میں 56 ووٹوں سے جیت ہوئی۔ اس قرارداد نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ یمن میں جاری دشمنانہ کارروائیوں سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس طلب کرلیں سوا ئے ان کے جو اسلام پسند انتہا پسندوں سے برسرپیکار ہیں۔ اس کے بعد سینیٹ نے اتفاق رائے سے ایک قراردار منظور کی جس میں سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کو واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کے قتل کا ملزم قراردیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ سلطنت مرتکبین کو ذمہ دار ٹھہرائے۔ جمال خاشقجی کا ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں اکتوبر میں قتل ہوا تھا۔ امریکہ نے سعودی عرب کے جنگی طیاروں میں گذشتہ ماہ ایندھن بھرنا بند کر دیا تھا اور اگر اس قرارداد کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر ایندھن بھرنے کا عمل دوبارہ شروع نہیں کیا جاسکے گا۔ صدر ٹرمپ نے ان اقدام کو ویٹو کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کا ایوان نمائندگان میں منظور ہونا فی الحال مشکل نظر آتا ہے۔ خیال رہے کہ اس نے اسی معاملے پر ایک ووٹنگ کو روک دیا تھا لیکن آزاد سینیٹر برنی سینڈرس جنھوں نے ان اقدام کی مشترکہ حمایت کی ہے ان کا موقف ہے کہ انھیں امید ہے کہ جب ڈیموکریٹس باضابطہ طور پر جنوری میں ایوان پر اپنا کنٹرول قائم کر لیتے ہیں تو یہ قرارداد کامیاب ہو جائے گی۔ خیال رہے کہ وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ایوان میں برتری حاصل ہوئی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ کو امید ہے یمن کے متعلق بل ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی کی قیادت والے اتحاد کو امریکی امداد ختم کر دیگا۔