سعودی سفیر نے کہاکہ ہندو ستان او رپاکستان میں بات چیت کے لئے مدد کرنا چاہتے ہیں۔

سعودی سفیر سعود بن محمد الساتی نے کہاکہ وہ مانتے ہیں کہ ’ ’عمران خان کی جانب سے ہندوستان سے متعلق دئے گئے حوالے‘ کہ اگر ہندوستان ایک قدم آگے بڑھاتا تو وہ دوقدم آگئے ائیں گے‘‘ حوصلہ افزا بیان ہے۔ انہو ں نے کہاکہ یہی اس پر وزیراعظم نریندر مودی نے بھی عمل کرتے ہوئے ان کی انتخابی جیت پر بذریعہ فون کال مبارکباد پیش کی ہے۔
نئی دہلی۔ جمعرات کے روز سعودی عربیہ کے سفیر سعود بن محمد الساتی نے کہاکہ اگر ان سے کہاجائے تو انہیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان میں امن کے لئے بات چیت کی شروعات میں مدد سے کافی مسرت ہوگی

۔سعودی سفیر سعود بن محمد الساتی نے کہاکہ وہ مانتے ہیں کہ ’ ’عمران خان کی جانب سے ہندوستان سے متعلق دئے گئے حوالے‘ کہ اگر ہندوستان ایک قدم آگے بڑھاتا تو وہ دوقدم آگئے ائیں گے‘‘ حوصلہ افزا بیان ہے۔

انہو ں نے کہاکہ یہی اس پر وزیراعظم نریندر مودی نے بھی عمل کرتے ہوئے ان کی انتخابی جیت پر بذریعہ فون کال مبارکباد پیش کی ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ یہ کافی مثبت ہے۔

پاکستان سعودی عرب کا طاقتور ساتھی ہے اور ہندوستان سے سعودی عرب کے باہمی تعلقات کافی بہتر ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان میں بات چیت کی شروعات ہوسکتی ہے‘‘۔

انہوں نے مزیدکہاکہ’’ ہم سے مدد کے لئے کہاگیا اور ہم نے ایسا کیاتو ہمیں مدد کرکے کافی مسر ت ہوگی‘‘۔انٹریو کے دوران الساتی نے بڑے پیمانے پر پھیلائی ہوئی مسائل کو موضوع گفتگو لایا ‘ جس میں باہمی سکیورٹی تعاون اور ایران کے افغانستان میں مبینہ مداخلت بھی شامل ہے۔

اگست5کے روز سعودی عربیہ سے نکالے جانے کے بعد دہلی ائیر پورٹ پرلشکر طیبہ کے مشتبہ کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے سفیر نے کہاکہ دہشت گردی اور دہشت گردی سے منسلک مالیہ کی فراہمی کو روکنے کے لئے دونوں ممالک کے درمیان ’’ شاندار‘‘ تعاون رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’ سکیورٹی تعاون کے معاملے میں کوئی بھی مسلئے زیر التوا نہیں ہے۔ سعودی عربیہ اپنے ملک سے کسی بھی دوسرے ملک بالخصوص ہندوستان کو و غیر قانونی مالیہ کی فراہمی کو کبھی منظور نہیں دے گا‘‘۔

متنازع مبلغ ذاکر نائیک کی متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ وہ کسی نظریاتی معاملے میں داخل اندازی نہیں چاہتے ۔انہوں نے کہاکہ ’’ ہم سب کہتے ہیں کہ ذاکر نائیک ایک ہندوستانی شہری ہے جس نے سعودی عرب کا دورہ کیاتھا جس طرح دوسرے ہندوستانی شہری کرتے ہیں ‘ وہ اب مملکت میں نہیں ہے۔ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘‘۔