سعودی ، بحرینی اور اماراتی سفیروں کی بازطلبی

ریاض 5 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے ایک عدیم المثال اقدام کرتے ہوئے اپنے داخلی اُمور میں مداخلت کے خلاف بطور احتجاج دوحہ سے اپنے سفیروں کو واپس طلب کرلیا۔ خلیجی عالم عرب کے 3 ممالک نے یہ فیصلہ اخباری اطلاعات کے بموجب کل رات دیر گئے کے 6 رکنی خلیجی تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے ریاض میں منعقدہ طوفانی اجلاس کے بعد کیا۔ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک نے قطر سے تمام سطحوں پر ربط پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانہ پر کوششیں کی تھیں تاکہ ایک متحدہ پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ رکن ممالک کے داخلی اُمور میں راست یا بالواسطہ کوئی مداخلت نہ ہوسکے۔ 3 ممالک نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہاکہ قطر سے جو اخوان المسلمین کا حامی سمجھا جاتا ہے، جو بیشتر خلیجی ممالک میں ممنوعہ تنظیم ہے، خواہش کی تھی کہ کسی بھی ایسی پارٹی کی تائید نہ کرے جو خلیجی تعاون کونسل کے کسی بھی رکن ملک کی صیانت اور استحکام کے لئے خطرہ ہو۔ اِن ممالک نے ذرائع ابلاغ میں جاری اہانت انگیز مہم کا حوالہ دیا تھا۔

ناقدین نے بااثر الجزیرہ خبررساں چیانل پر الزام عائد کیا ہے کہ اِس نے اخوان المسلمین کی تائید میں جانبدارانہ خبریں نشر کی ہیں اور اِس کے کئی صحافی مصر میں اخوان المسلمین کی مبینہ تائید کی بناء پر مقدمہ کا سامنا کررہے ہیں۔ بیان میں پرزور انداز میں کہا گیا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے ایک چوٹی کانفرنس میں گزشتہ سال ریاض میں منعقد ہوئی تھی، امیر کویت اور سعودی عرب کے حکمران کے ساتھ اتفاق رائے کیا تھا کہ داخلی اُمور میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی لیکن اُن کا ملک اِس پر عمل آوری سے قاصر رہا۔ ریاض میں 23 نومبر کو امیر کویت شیخ صباح الاحمد الصباح کے سہ فریقی اجلاس میں ملک عبداللہ اور شیخ تمیم کے درمیان کشیدگی دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی شاہی حکومتیں طویل عرصہ سے اخوان المسلمین کی مخالف ہیں۔ اُنھیں خوف ہے کہ اِس کی بنیادی سطح کی تحریک اور سیاسی اسلام اُن کے اختیارات میں تخفیف کرسکتا ہے۔ بیشتر خلیجی ممالک میں مصری فوج کی جانب سے اسلام پسند صدر محمد مُرسی کی جولائی میں اقتدار سے بیدخلی کی تائید کرتے ہوئے مصر کی فوجی حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر مدد دینے کا تیقن دیا تھا۔ جبکہ قطر جو اخوان المسلمین کا زبردست حامی ہے، اُس نے مصر میں اپنے اثر و رسوخ کا خاتمہ ہوتے دیکھا۔