سعودائزیشن کا دائرہ مزید وسیع

کے این واصف
سعودی عرب میں غیر ملکی باشندوں کے اطراف گھیرے تنگ ہونے کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں اب وزارت محنت و سماجی فروغ نے کچھ نئے احکامات جاری کئے ہیں جس کے تحت اب بقالے (Grocery Store) کے کاروبار اب صرف سعودی باشندوں کے لیے مختص ہوں گے۔ پچھلے ہفتہ وزارت محنت و سماجی فروغ نے مملکت بھر میں بقالوں کی سوفیصد سعودائزیشن کا عندیہ دے دیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزارت کے اعلی عہدیدار ان دنوں ایک قرارداد کا مسودہ تیار کررہے ہیں جس میں تحریر ہوگا کہ باقلوں، کھانے پینے کی چیزوں اور اشیائے صرف فروخت کرنے والی دکانوں پر کام سعودیوں کے لیے مختص کیا جارہا ہے۔ اس کے بموجب کوئی بھی غیر ملکی کسی بقالے یا خورد و نوش کا سامان فروخت کرنے والی دکان پر کام کرنے کا مجاز نہیں رہے گا۔ ایک سال کے دوران اس فیصلے کی بدولت 20 ہزار سعودیوں کو روزگار حاصل ہوگا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ وزارت محنت کے اعلی افسران ریڑھی پر سامان فروخت کرنے کو بھی سعودیوں تک محدود کرنے کا فیصلہ جاری کرنے والے ہیں۔ اس کے بموجب کوئی بھی غیر ملکی ریڑھی پر سامان فروخت کرنے کا مجاز نہیں رہے گا۔ ریڑھی پر صرف سعودی شہری ہی کام کرسکیں گے۔ اس کی بدولت 6 ہزار سے زیادہ سعودیوں کو فروزگار میسر آئے گا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ نجی اداروں کے متعدد کام اور پیشے سعودیوں کے لیے مختص کرنے کی کئی اسکیمیں تیار کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے متعلقہ ادارے ایک دوسرے سے منصوبہ بندی میں تعاون کررہے ہیں۔ موبائیل فون مارکٹ کی سوفیصد سعودائزیشن نے وزارت محنت و سماجی فروغ کو تمام شعبوں کی مکمل سعودائزیشن کا حوصلہ دیا ہے۔ رینٹ اے کار ایجنسیوں کی سوفیصد سعودائزیشن کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ شعبہ صحت میں زیادہ سے زیادہ سعودی باشندوں کے تقرری کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ 7500 سعودی ڈاکٹر اور نرسس ہیلتھ سنٹرز اور سرکاری اسپتالوں میں تعینات کردیئے گئے ہیں۔ 2020ء تک 93ہزار سے زیادہ سعودی نرسس اور ڈاکٹر سعودی اسپتالوں اور ہیلتھ سنٹرز میں تعینات کئے جائیں گے۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں قائم بقالے بھی کسی نہ کسی سعودی شہری کے نام سے خارجی باشندے چلاتے ہیں اب ان تمام بقالوں کو وزارت محنت کی جانب سے نوٹس جاری کردیا گیا ہے کہ تین ماہ کے اندر تمام بقالوں پر صرف سعودی باشندے ہی رہیں۔ کوئی غیر ملکی اس کاروبار کو نہیں چلائے گا۔ پچھلے سال موبائیل فون کے کاروبار میں سو فیصد سعودائزیشن کے بعد ان دکانوں کا یا اس سارے کاروبار کا کیا حال ہوا وہ یہاں سب کے سامنے ہے۔ لیکن پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اس کاروبار میں ایک عرصہ بعد سدھار آبھی جائے۔ کیوں کہ موبائیل فونز کی دکان چلانا اتنا مشکل نہیں جتنا بقالہ چلانا ہے۔ بقالے کے کاروبار اور ٹیکسی چلانا یہاں ایک مشکل ترین کام مانا جاتا ہے۔ یہاں بقالے عام طور سے صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک مسلسل کام کرتے ہیں۔ یعنی کوئی 18 گھنٹے یہ دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ یہی حال ٹیکسی چلانے کا بھی ہے۔ ٹیکسی والے کم از کم 10 تا 12 گھنٹے گاڑی چلاتے ہیں اور اگر کوئی ان کمپنی کو ادا کرنے کی رقم پوری نہ ہوپائے تو دو ایک گھنٹے مزید گاڑی چلاتے ہیں۔

دریں اثناء وزارت محنت و سماجی فروغ نے عندیہ دیا ہے کہ موبائیل فون مارکٹ کی طرح گولڈ مارکٹ کی سو فیصد سعودائزیشن ہوگی۔ وزارت نے اس رجحان کے فیصلے اور پھر اسے عملی شکل دینے کے لیے گولڈ کے تاجروں اور زیورات کی دکانوں کے مالکان سے تجاویز طلب کی ہیں۔ وزارت نے گولڈ مارکٹ کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ مکمل سعودائزیشن کے فیصلے کے حوالے سے اپنے افکار و خیال پہلی فرصحت میں پیش کریں۔ گولڈ کی دکان کے ملازمین کی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں۔ ان دکانوں پر بہت ہی بھروسہ مند افراد کو بڑی جانچ پڑتال اور آزما نے کے بعد ہی رکھا جاتا ہے۔ پتہ نہیں گولڈ کی دکانوں پر سعودائزیشن کا عمل درآمد کس طرح ممکن ہوگا۔

ان حقائق سے وزارت محنت و سماجی فروغ کے ذمہ داران بھی بخوبی واقف ہوں گے کیوں کہ حکومت کا کوئی فیصلہ یا سرکاری ادارے کا کوئی حکم ایک لمبے غور و خوص کے بعد ہی جاری کیا جاتا ہوگا۔ غور کرنے والوں کو اس بابت غور کرنا چاہئے کہ ایسے فیصلے کیوں کئے جارہے ہیں جس سے یہاں برسرکار خارجی باشندوں کا قیام دوبھر ہورہا ہے۔ حالات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے ’’ویژن 2030‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ شاید اسی کی کامیابی سے عمل آوری کے لئے یہ سارے اقدام کئے جارہے ہیں۔ ویژن 2030ء مملکت کے مستقبل کی ایک خوبصورت تصویر ہے جس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اس میں مملکت کی ہمہ جہت ترقی و تعمیر کے ساتھ شاید مملکت کی آبادی میں غیر ملکیوں کا تناسب میں کمی کرنا بھی شامل ہے۔ اس سلسلے کے پہلے قدم کے طور پر خانگی شعبہ میں سعودائزیشن کا سختی سے نفاذ کا عمل شروع ہوا جس سے بتدریج نجی اور پبلک سیکٹر میں غیر ملکیوں کی تعداد کو کم کیاجائے گا۔ تمام سرکاری محکمہ جات میں غیر ملکیوں کی تعداد نا کے برابر کردی گئی۔ صرف وزارت صحت ایک ایسا محکمہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں غیر ملکی کام کرتے ہیں اور وزارت صحت نے حالیہ عرصہ میں یہ اعلان بھی کیا کہ اب دو، ایک سال میں وزارت صحت میں بھی سعودائزیشن کا عمل تیز کرکے محکمہ میں اکثریت سعودی باشدنوں کی کردی جائے گی۔ اب اگر وزارت صحت میں سعودی باشدنوں کی اکثریت لائی جائے گی تو خارجی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ پھر ادھر فیملی فیس کے نفاذ نے ایک بڑی تعداد کا مملکت غیر ملکیوں کو انخلا پر مجبور کیا۔

ہاں تو بات شروع ہوئی تھی بقالے کے کاروبار سے غیر ملکیوں کو ہٹانے سے۔ اب سے چند سال قبل بھی اس شعبہ پر مکمل سعودائزیشن کی بات سامنے آئی تھی اور اس وقت اس فیصلے کی تائید میں کہا گیا تھا کہ گلی گلی بقالوں کا ہونا مقامی کلچر کے حق میں نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ہر شعہر میں جگہ جگہ بڑے بڑے سوپر مارکٹس اور ہائپر مارکٹس قائم ہیں۔ جہاں گاہکوں کے لیے وافر پارکنگ کی سہولت ہوتی ہے۔ سارے افراد خاندان یکساں یہاں جاکر اطمینان سے شاپنگ کرسکتے ہیں۔ جبکہ محلوں میں جگہ جگہ بقالوں کی موجودگی سے نہ صرف ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہاں سے کچھ سماجی مسائل کے جنم لینے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ بقالوں کی تعداد کم ہو تو بڑے مارکٹس میں خریداری کی تعداد بڑھے گی۔ یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل وزارت محنت و سماجی فروغ نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ تمام بڑے مالز اور ہائپر مارکٹس میں قائم دکانوں پر صرف سعودی باشندے ملازم رکھے جائیں۔ ایسا کرنا دکاندروں کے لیے آسان تو نہیں ہے۔ مگر مالز میں خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے تو وہ مہنگے Salesmen رکھنا برداشت کربھی سکتے ہیں۔ کیوں کہ وزارت محنت نے Salesmen کی تنخواہ 5000 ریال مقرر کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ اتنی بڑی تنخواہ کے Salesmen کو رکھنے کے لیے دکان کا سیل بھی کئی گنا بڑھنا ضروری ہے اور یہ تب ہی مکمل ہوگا جب گلی گلی قائم باقلے یا تو بند ہوجائیں یا ان میں حد سے زیادہ کمی واقع ہوجائے۔
بہرحال اب مجموعی طور پر خارجی باشندوں پر یہاں مشکلوں اور پریشانیوں کے بادل چھاچکے ہیں۔ ہر شعبہ میں خارجیوں پر گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ سعودائزیشن کی عمل آوری کے نام پر خارجی باشندوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا عمل بہت عرصہ سے ہے۔ لیکن یہ عمل سرکاری محکموں اور نیم سرکاری اداروں میں تھا جس کا اثر ایک چھوٹے طبقے پر ہوتا تھا۔ مگر اب سعودائزیشن کا دائرہ پھیل کر خانگی اداروں اور مارکٹس میں آچکا ہے جس سے خارجی باشندوں کی اکثریت پریشان ہے اور خارجی باشندوں کو اس صورتحال کا سامنا کرنا ہی ہے۔ لیکن بات جو دل میں کھٹکتی ہے وہ یہ کہ یہ خارجی باشندے جنہوں نے اپنی زندگی کا لمبہ عرصہ یہاں گزارا، اپنی توانائیاں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کیں، وہ جاتے ہوئے اپنے ساتھ اچھا تاثر نہیں لے جارہے ہیں۔ جسے وہ اپنا میزبان ملک اور وطن ثانی تصور کرتے تھے۔