سشما سوراج کی وضاحت

انکا راب عبث ہے، کریں، کرتے ہی رہیں
اقرار کرچکے ہیں وہ سو بار جابجا
سشما سوراج کی وضاحت
وزیر خارجہ سشما سوراج نے آج ادعا کیا کہ انہوںنے سابق آئی پی ایل کمشنر للت مودی کی کسی طرح کی مدد نہیں کی ہے اور انہوں نے صرف للت مودی کی شریک حیات کی مدد کی ہے جنہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہے اور وہ علاج کیلئے انگلینڈ سے پرتگال جانا چاہتی تھیں۔ سشما سوراج نے آج لوک سبھا میں یہ بیان دیا جبکہ انہیں یہی بیان راجیہ سبھا میں دینے کا موقع نہیں مل سکا تھا ۔ راجیہ سبھا میں انہوں نے بیان دینے کی کوشش کی تھی لیکن کانگریس کی جانب سے مسلسل جاری احتجاج کے نتیجہ میں وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکیں اور انہوں نے لوک سبھا میں یہ بیان دیا جہاں اپوزیشن کی صفیں تقریبا خالی تھیں۔ کانگریس کے 25 ارکان کو ایوان سے پہلے ہی معطل کردیا گیا تھا اور دوسری اپوزیشن جماعتیں جیسے سماجوادی پارٹی ‘ عام آدمی پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی کانگریس کے ساتھ ایوان کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کی خالی بنچوں کے باوجود سشما سوراج نے ایوان میں بیان دیتے ہوئے اپنی بے گناہی کا ادعا کیا اور انہوں نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے سوال کیا کہ آیا ان کی جگہ وہ ( سونیا ) ہوتیں تو کیا ایک کینسر کی مریضہ کی مدد نہیں کرتیں ؟ ۔ اسے مرنے کیلئے چھوڑدیتیں ؟ ۔ سشما سوراج نے ایوان کو جذبات میں الجھانے کی کوشش بھی کی اور کہا کہ اگر کسی مریضہ خاتون کی مدد کرنا گناہ ہے تو ہاں انہوں نے گناہ کیا ہے ۔ یہ انداز اور یہ لب و لہجہ عمومی طور پر کسی کو جذبات میں الجھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس سے کسی کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی ۔ یہ درست ہے کہ للت مودی کی شریک حیات کو کینسر کا عارضہ تھا اور انہیں علاج کیلئے پرتگال جانا ضروری تھا لیکن اس سے کسی طرح بھی یہ جواز نہیں نکل سکتا کہ للت مودی کو سفری دستاویزات جاری کئے جائیں۔ انسانی بنیادوں پر مدد کرنے کا ادعا کرنے والی سشما سوراج نے ایوان میں جواب دے کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اتنا بڑا اور اہمیت کا حامل فیصلہ انہوں نے اپنی وزارت میں تبادلہ خیال کے بغیر کیوں کرلیا ۔ انہیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان کی وزارت بھی انسانی بنیادوں پر کسی کی مدد کرنے کی مخالفت کرتی ؟ ۔ سشما سوراج نے ایوان میں یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے صرف تنہا اپنے طور پر فیصلہ کیوں کیا اور کسی کو اس میں شریک کیوں نہیں کیا گیا ؟ ۔
سشما سوراج نے سفری دستاویزات کیلئے برطانیہ کو مکتوب روانہ کرنے یا ای میل بھیجنے سے بھی انکار کیا ہے لیکن جس انداز سے انہوں نے ایوان میں جواب دے کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی عدم موجودگی میں کسی رکاوٹ کے بغیر بیان دیتے ہوئے خود کو بری الذمہ کرلینا چاہتی ہیں۔ جس طرح سے تین دن قبل کانگریس کے ارکان کو ایوان سے معطل کیا گیا اور اپوزیشن کی موجودگی کے بغیر جس طرح سے سشما سوراج نے بیان دیتے ہوئے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے یہی شبہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے ۔ سشما سوراج کے بیان کا مقصد یہی ہے کہ ملک کے عوام میں جس طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ عوام کو جذباتی انداز میں مغلوب کرنے کیلئے کینسر کی مریضہ کا حوالہ دیا گیا اور اسی وجہ سے سونیا گاندھی سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ ہوتیں تو کیا کرتیں ؟ ۔ جس طرح سے یہ ادعا کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے کسی بھی وزیر نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اور کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا ہے تو پھر یہ جواب دیا جانا چاہئے کہ تحقیقات سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے ۔ مختلف گوشوں سے مطالبات کئے جا رہے ہیں کہ ان سارے واقعات کی تحقیقات کروائی جانی چاہئیں جن کے نتیجہ میں للت مودی کو سفری دستاویزات کی اجرائی عمل میں آئی ۔ یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ سشما سوراج کے رشتہ داروں کے للت مودی سے کس طرح کے تعلقات رہے ہیں جن کی بنیادوں پر فریقین نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
للت مودی تنازعہ نے جتنی شدت اختیار کرلی ہے اور اس کی وجہ سے پارلیمنٹ کا جتنا طویل وقت گنوادیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سشما سوراج کو اپوزیشن کی موجودگی میں یہ وضاحت کرنی چاہئے تھی اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے تحقیقات کے مطالبہ کو قبول کرلینا چاہئے تھا ۔ خود وزیراعظم کو اس مسئلہ میں مداخلت کرنے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے اب تک اس پر کسی طرح کی لب کشائی سے گریز کیا ہوا ہے ۔ انہیں حالات کی سنگینی اور ایوان کا وقت ضائع ہونے کا بھی کوئی احساس نہیں رہا ہے ۔ برسر اقتدار جماعت کے ارکان کی موجودگی میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے وزیر خارجہ بری الذمہ نہیں ہوسکتیں۔ ان کی وضاحت میں خود بھی کئی سوال پیدا ہوئے ہیں اور ایک ذمہ دار وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان سوالات کے جواب دینے ہونگے ۔ ملک کے عوام کو جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے بہلانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔