سر نظامت جنگ بہادر۔شخصیت اور کارنامے ڈاکٹر حسن الدین احمد کے تاثرات

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سر نظامت جنگ بہادر آصف جاہی عہد کے آخری دور کی اہم ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے ۔ انہیں اعلیٰ درجے کے اڈمنسٹریٹر ہونے کے علاوہ انگریزی کے اہم شاعر ، فلسفی اور دانشور کی حیثیت سے بھی  غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ نظامت جنگ حیدرآباد کے اُس خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ جس خاندان کے افراد ریاست حیدرآباد کے بے حد اہم کلیدی عہدوں پر فائز رہے جیسے ان کے والد رفعت یارجنگ اول ، چچا عماد جنگ ، حقیقی بھائی رفعت یار جنگ ثانی، چچا زاد بھائی عماد جنگ ثانی اور دو پھوپی زاد بھائی حاکم الدولہ و سعد جنگ ۔ نظامت جنگ کو 1887 ء میں سرکاری وظیفے پر اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان بھیجا گیا تھا جہاں سے انہوں نے بی اے ، ایل ایل بی ، بیرسٹری اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ممتاز محقق سید منظر علی اشہر اپنی کتاب منظر الکرام میں لکھتے ہیں کہ نظامت جنگ پہلے حیدرآبادی تھے جنہوںنے 20 سال کی عمر میں انگلستان سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ وہ سرکاری ملازمت میں ناظم عدالت ضلع پربھنی کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔ بعد ازاں وہ ترقی کرتے ہوئے جج ہائی کورٹ ، چیف جسٹس ہائی کورٹ اور معتمد سیاسیات جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آصف سابع کی راست حکمرانی (direct administration) کے دور کے بعد نومبر 1919 ء میں اگزیکیٹیو کونسل (باب حکومت) کا قیام عمل میں آیا اور پہلی اگزیکیٹیو کونسل میں جس کے صدر یا وزیراعظم (یہ عہدہ اس وقت صدر اعظم کہلاتا تھا) سر علی امام مقرر ہوئے تھے ۔ نظامت جنگ صدر المہام (وزیر) سیاسیات تھے۔ محمد مظہر نے اپنی اہم اور مستند تصنیف ’’تذکرہ باب حکومت‘‘ میں لکھا ہے کہ سر علی امام کی کابینہ میں عملی طور پر نظامت جنگ ہی لیڈر آف کونسل تھے ۔ اس بیان سے نظامت جنگ کی قابلیت ، اہلیت اور کارگزاری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نظامت جنگ دس سال سے کچھ زیادہ مدت تک وزیر سیاسیات کے عہدہ پر کارگزار رہنے کے بعد 2 جنوری 1930 ء کو ملازمت سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ سرکاری ملازمت میں مختلف عہدوں پران کی کارگزاری بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ درجے کی تھی لیکن صدر المہام سیاسیات کا دور ان کی قابلیت ، لیاقت اور کارگزاری کا بے حد درخشاں دور تھا ۔ سرکاری ملازمت کے علاوہ انہوں نے دیگر گراں بہا ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائیں۔

اصول پسندی ، راست گوئی ، بے نیازی ، خودداری اور قناعت پسندی ان کی سیرت کے نمایاں پہلو تھے ۔ نظامت جنگ اعلیٰ تعلیمی قابلیت ، عمدہ صلاحیتوں اور ملازمت میں شاندار کارگزاری کے ریکارڈ کے ساتھ ہی ساتھ کردار اور سیرت کے نمایاں پہلوؤں کی وجہ سے اپنے دور کے ایک بے حد ممتاز اور غیر معمولی شخصیت تھے ۔ انہوں نے انگریزی شاعری اور نثر کے علاوہ فارسی شاعری کا بھی خاصہ سرمایہ چھوڑا ہے۔
نظامت جنگ نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنا سارا وقت علمی مشاغل میں گزارا۔ وہ طبعاً تنہائی پسند تھے اور لوگوں سے کم ملا کرتے تھے لیکن زندگی کے آخری دور میں بالکل گوشہ نشین ہوگئے تھے ۔ بے حد سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور لکھنے پڑھنے کے علاوہ غور و فکر میں منہمک رہتے تھے ۔ وہ 22 اپریل 1871 ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 22 نومبر 1955 ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوگئے ۔ اس طرح انہوں نے تقریباً 85 برس کی طویل عمر پائی۔
راقم الحروف نظامت جنگ کے بارے میں آرکائیوز اور دیگر مستند حوالوں کی بنیاد پر دو مضامین قلم بند کرچکا ہے جن میں ان کی ملازمت میں توسیع کی سرکاری کارروائی کی تفصیلات کے علاوہ مستند حوالوں سے اُن کی خدمت کے نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ نظامت جنگ کی شخصیت اتنی اہم اور پہلو دار ہے کہ میں ان پر دو مضامین تحریر کرنے پر بھی مطمئن نہیں ہوا ۔ چنانچہ میں نے نظامت جنگ کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کرنے اور اسے شائع کرنے کی غرض سے ڈاکٹر حسن الدین احمد سے انٹرویو لیا ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار ہیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک اہم اور ممتاز گھرانے سے ہے ۔ وہ حیدرآباد کی نامور علمی شخصیت عزیز جنگ کے پوتے اور دین یار جنگ بہادر کے ، جو آصف سابع کے دور میں صدر ناظم کوتوالی تھے ، فرزند ہیں۔ وہ تصنیف و تالیف کے کاموں میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں۔ ان کی انگریزی اور اردو کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ریاست حیدرآباد کے آخری دور کے حالات و واقعات اور اس دور کی اہم شخصیتوں کے بارے میں ان کی معلومات مستند سمجھی جاتی ہیں ۔ سر نظامت جنگ بہادر کی شخصیت کے بارے میں ڈاکٹر حسن الدین احمد کے تاثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

نظامت جنگ نے اعلیٰ تعلیم انگلستان میں حاصل کی تھی اور اس سلسلے میں انگلستان میں ان کا قیام 9 ، 10 برس رہا ۔ اس لئے وہ انگریزی زبان اور انگلستان کے اعلیٰ طبقے کی تہذیب سے بخوبی واقف تھے ۔ ا یسی واقفیت ریاست حیدرآباد کے اعلیٰ عہدیداروں میں کسی اور کو حاصل نہ تھی ۔ نظامت جنگ نے انگریزوں کے بہترین طور طریقے اخذ کئے تھے ۔ ریاست حیدرآباد کے اور اشخاص نے بھی انگلستان میں تعلیم حاصل کی تھی لیکن نظامت جنگ کی طرح کسی نے بھی انگریزی تہذیب کی آگہی حاصل نہیں کی تھی ۔ اس دور میں چونکہ برطانوی حکومت کو بالادستی حاصل تھی ، اس لئے نظامت جنگ کی انگریزوں ، ان کی زبان اور تہذیب سے گہری واقفیت حکومت ریاست حیدرآباد کیلئے بڑی سودمند تھی ۔ سالار جنگ اول اور نظامت جنگ کا تقابل کیا جائے تو ان کے درمیان چند باتوں میں نمایاں فرق نظر آتا ہے ۔ سالار جنگ اول کو نظامت جنگ کی طرح انگریزوں سے گہری واقفیت نہیں تھی لیکن انہوں نے بڑی فراست کے ساتھ انگریزوں کو deal کیا ۔ سالار جنگ اول کو موافق انگریز کہا گیا جبکہ نظامت جنگ  نے جس طرح انگریزوں کو deal کیا ، ا نہیں موافق نظام کہا گیا۔ نظامت جنگ میں سالار جنگ اول کی سی صلاحیتیں موجود نہیں تھیں ورنہ ریاست حیدرآباد کو زیادہ فائدہ پہنچتا۔ نظامت جنگ کے انگلستان کی سوسائٹی کے اعلیٰ طبقے کے افراد اور حکومت برطانیہ کے مقتدر اشخاص سے گہرے مراسم تھے ۔ صدرالمہام سیاسیات کے دس سالہ دور میں انگریزوں اور ریذیڈنسی سے نظآمت جنگ ہی مراسلت کیا کرتے تھے ۔ وہ ریاست اور حکمراں کے وفادار تھے اور ریاست کے مفادات ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتے تھے ۔ نظامت جنگ کا یہ بڑا کارنامہ تھا کہ ان کے وزیر سیاسیات کے دس سالہ دور میں ریذیڈنسی اور حکومت ریاست حیدرآباد کے تعلقات بہت خوش گوار رہے۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد، سر نظامت  جنگ سے غائبانہ طور پر بخوبی واقف تھے لیکن 1945 ء میں اُن کا نظامت جنگ سے شخصی ربط پیدا ہوا ۔ یہ سلسلہ صرف دو سال برقرار رہا ۔ 1947 ء میں ریاست حیدرآباد کے 300 طالب علموں اور نوجوان عہدیداروں کو تنظیم مابعد جنگ کے سلسلے میں اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ کیلئے یوروپ بھیجا گیا  ڈاکٹر حسن الدین احمد جو اُس وقت اسسٹنٹ ڈائرکٹر محکمہ امور مذہبی تھے، ٹریننگ کیلئے یوروپ بھیجے گئے ۔ جنوری 1948 ء میں ٹریننگ سے واپسی اور پولیس ایکشن کے بعد ڈاکٹر حسن الدین احمد کا نظامت جنگ سے زیادہ ربط  ضبط باقی نہیں رہا ۔
1945 تا 1947 ء کے دوران دو سال کی مدت میں ڈاکٹر حسن الدین احمد ہر ہفتہ وار تعطیل میں نظامت جنگ سے ملنے اُن کے مکان جایا کرتے تھے جہاں وہ 20 منٹ یا آدھا گھنٹہ ٹھہرتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نظامت جنگ اُن سے شاگردوں کی طرح پیش آتے تھے  اور عام طور پر اُن کی گفتگو نصیحت آمیز ہوا کرتی تھی ۔ان ملاقاتوں کے دوران اسلام ، اُس کی تعلیمات اوراسلامی اقدار پر گفتگو ہوتی تھی ۔ اُس کے علاوہ وہ حالات حاضرہ پر اظہار خیال کرتے تھے ۔ اسلام کے بارے میں اُن کا رویہ بہت کشادہ اور وسیع النظری پر مبنی تھا۔ انہوں نے انگلستان میں تعلیم پائی تھی ۔ اُن پر مغربی تعلیم کا گہرا مثبت اور اچھا اثر مرتب ہوا تھا لیکن انہوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات کی بنیاد کو قائم رکھا تھا ۔ وہ جو بھی باتیں کرتے تھے دلیل کی بناء پر ہوا کرتی تھیں۔ ان کا ویژن بہت وسیع تھا ۔ وہ گفتگو بہت اعتماد اور قطعیت کے ساتھ اونچی آواز میں کرتے تھے۔
نظامت جنگ ڈاکٹر حسن الدین احمد سے اردو میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔ وہ اردو میں گفتگو کرتے ہوئے اچانک انگریزی بولنا شروع نہیں کرتے تھے ۔ وہ مکمل طور پراردو میں گفتگو کرتے تھے ۔ اپنی گفتگو کے دوران وہ اپنی ذات کے بارے میں بات نہیں کرتے تھے اور کبھی ضرورت کے اعتبار سے اُن کے بارے میں کوئی حوالہ آجاتا اس طرح حوالہ دیتے جیسے کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔ گفتگو کے دوران کوئی شخص کسی کام کے سلسلے میں آتا تو فوراً اس سے نپٹنے کے بعد اسے رخصت کردیتے تھے ۔ بعض مرتبہ چند لوگ نظامت جنگ سے کسی مسئلہ پر بات چیت کرنے اور ہدایات حاصل کرنے کے لئے ان کے مکان پر جمع ہوتے تھے اور نظامت جنگ ان سے ایک ساتھ خطابت کرتے تھے ۔ حسن الدین احمد نے کہا کہ جب بھی وہ نظامت جنگ سے ملتے تو انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہت بلند پایہ عالم اور بڑی قد آور شخصیت سے مل رہے ہیں اور اُن کی بات چیت سنتے ہوئے انہیں یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ قدیم جید علماء میں سے ایک عالم کے خیالات سماعت کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر حسن الدین نے بتایا کہ نظامت جنگ عام طور پر کسی کی سفارش نہیں کرتے تھے اور کبھی سفارش بھی کرتے تو قاعدے اور ضابطے کو ملحوظ رکھنے کی خواہش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ نظامت جنگ نے ان کے پاس کسی کیلئے سفارش بھیجی۔ جب حسن الدین احمد نے اپنے والد دین یار جنگ سے اس کا  ذکر کیا تو انہوں نے کہا ’’میرے علم کے مطابق وہ کبھی کسی کی سفارش نہیں کرتے ہیں تو ڈاکٹر احمد نے جواب دیا کہ نظامت جنگ نے سفارش کرتے ہوئے یہ جملہ تحریر کیا ہے ۔ اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور قاعدہ اجازت دیتا ہو تو حامل ہذا کی جائز مدد کی جائے‘‘۔ نظامت ، جنگ کی سفارش کے مطابق جائز مدد کرنے کے بعد ڈاکٹر احمد نے اس  خیال سے کہ ان کے حکم کی تعمیل کردی گئی ہے ، انہیں اطلاع دی تو نظامت جنگ فوراً بولے کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ قاعدہ اور ضابطہ اجازت دیتا ہے تو مدد کی جائے۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے کہا کہ نظامت جنگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور سادہ لباس پہنتے تھے ۔ اُن سے ملنے کیلئے وقت لینا پڑتا تھا کیونکہ وہ مطالعے میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ ملاقات کے لئے اجازت اور وقت کا تعین بظاہر سادگی کے خلاف معلوم ہوتا ہے لیکن لکھنے پڑھنے کی مصروفیت کے پیش نظر یہ ضروری تھا ۔ چند اشخاص  اس پابندی سے مستثنیٰ تھے۔ ڈاکٹر حسن الدین نے یہ کہتے ہوئے کہ نظامت جنگ کسی بھی بات کو عملی شکل دینے میں کوتاہی برتتے تھے ، ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ۔ وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حسن الدین احمد نے نظامت جنگ کے بیانہ اور مشفقانہ رویے کو دیکھتے ہوئے نظامت جنگ کو یہ مشورہ دیا کہ ان کی کتابیں دوبارہ چھپنی چاہئیں کیونکہ ان کی ایسی اشاعت اور پبلسٹی نہیں ہوئی تھی جیسی کہ ہونی چاہئے تھی ۔ مثال کے طور پر ان کا انگریزی کلام پانچ سو یا ایک ہزار کی تعداد میں بھی شائع نہیں ہوا تھا اور وہ بھی محدود حلقے میں تقسیم ہوا تھا اور وہ عدم دستیاب تھا ۔ نظامت جنگ نے اس مشورے سے اتفاق کیا اور اس تجویز کو ایک نوٹ کی شکل میں مرتب کرنے کی ہدایت کی ۔ دوسرے ہفتے ڈاکٹر احمد نے مرتب کردہ نوٹ پیش کیا تو انہوں نے نوٹ پڑھا اور پسند کیا ۔ اس میں جزوی ترمیم اور اصلاح کی اور وہ اسے کاتب سے خوش خط لکھوانا چاہتے تھے ۔ ڈاکٹر احمد جب ایک ہفتہ بعد وہاں گئے تو ان کا نوٹ خوش خط لکھا ہوا موجود تھا ۔ نظامت جنگ نے اسے  فریم لگانے اور اسے ایک الماری میں محفوظ کرنے کی ہدایت دی ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد کہتے ہیں کہ نظامت جنگ کے رویے پر انہیں بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ ان کے مشورے پر صف اس حدتک عمل ہوا تھا ، وہ یہ سمجھتے ہیںکہ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ بہت بڑے عالم تھے اور وہ ان باتوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس کے علاوہ سن و سال بھی ایک سبب ہوسکتا ہے ۔ ڈاکٹر احمد کا خیال ہے کہ اس رویے کی وجہ سے بھی ان کے بڑ ے اور اہم کام منظر عام پر نہیں آسکے۔  اگر اچھے اشاعتی ادارے موجود ہوتے تو یہ کمی پوری ہوسکتی تھی ۔ نظامت جنگ نے قرآن مجید ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی عدم کا بڑا گہرا اور محقانہ مطالعہ کیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اسلام کے بارے میں اپنے ظاہر کردہ خیالات کو قطعی اور آخری سمجھتے تھے ۔ حسن الدین احمد صاحب نے اس سلسلے میں حسب ذیل واقعہ بیان کیا۔

ڈاکٹر فالکس والجی Dr.Fleix Valyi ہنگری نژاد مستشرق تھے جو کمیونسٹوں کے اقتدار پر آنے کے بعد ہنگری چھوڑ چکے تھے ۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا ۔ انہوں نے بدھ مت ، جین مت اور اسلام کا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ وہ 1953 ء میں حیدرآباد آئے تھے ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد سے ان کے روابط تھے ۔ انہوں نے اس مستشرق کی نظامت جنگ سے ملاقات کروائی ۔ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی ۔ ان کے درمیان بہت اونچی سطح پر تبادلہ خیال ہوا جس سے ڈاکٹر فالکس بہت متاثر ہوئے ۔ گفتگو کے آخر میں نظامت جنگ نے اس اسکالر کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر اسلام کے بارے میں میں نے جو کچھ کہا وہ حرف آخر ہے۔ ڈاکٹر فالکلس نے واپس ہوتے ہوئے حسن الدین احمد سے کہا کہ نظامت جنگ یہ آخری جملہ نہ کہتے تو کتنا اچھا ہوتا ۔ میں اس ملاقات کا کتنا اچھا تاثر لے کر جارہا تھا ۔ اس مستشرق کا خیال تھا کہ علم میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔
نظامت جنگ 55 سال کی عمر کی تکمیل پر وزیر سیاسیات کے عہدے سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے لیکن آصف سابع نے انہیں سبکدوش ہونے کی اجازت نہیں دی اور وظیفے پر سبکدوش کرنے کیلئے نظامت جنگ کے اصرار کے باوجود آصف سابع  نے ان کی ملازمت میں تین سال آٹھ ماہ کی توسیع دی ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آصف سابع ، نظامت جنگ پر بڑا اعتماد کرتے تھے اوراہم ترین عہدے پر ان کی کارگزاری سے مطمئن تھے ۔ اس بیان کی توثیق ڈاکٹر حسن الدین احمد کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ آصف سابع پولیس ایکشن سے قبل اہم سیاسی معاملات میں جن شخصیتوں سے مشورہ کیا کرتے تھے ، ان میں نظامت جنگ اور ذوالقدر جنگ کے نام قابل ذکر ہیں۔ آصف سابع ان حضرات کو بلاکر گفتگو کیا کرتے تھے اور نظامت جنگ کے مشوروں کو بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ بعض رتبے آصف سابع ، دین یار جنگ بہادر کوتوال بلدہ کو نظامت جنگ کے پاس بھیج کر کسی خاص مسئلہ پران کی رائے اور مشورے حاصل کرتے تھے۔