ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آصف جاہی عہد حکومت میں بیرون ریاست سے جن ماہرین نظم و نسق کو حیدرآباد طلب کیا گیا تھا ان کے ناموں کی فہرست بڑی طویل ہے ۔ ان ماہرین کی خاصی تعداد اپنے اپنے شعبوں میں یگانہ روزگار کی حیثیت رکھتی تھی ۔ ان ماہرین نے ریاست کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے بڑی اہم خدمات انجام دیں ۔ بیرون ریاست سے آنے والے ماہرین کی منتخب فہرست میں بھی جو نام سب سے زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے وہ سر اکبر حیدری کا نام ہے ۔ جدید حیدرآباد کی تعمیر کے لئے ریاست کے چھٹے اور ساتویں حکمراں نواب میر محبوب علی خان آصف سادس اور نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے عہد میں چن چن کر جو رتن اکٹھا کئے گئے تھے ان میں سر اکبر حیدری سب سے زیادہ تابناک اور چمکدار رتن تھے ۔ انہوں نے اپنی فکر عمیق اور جدید خیالات سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل ، حکمت و تدبر کے ذریعہ جدید حیدرآباد کی تعمیر میں کلیدی رول ادا کیا ۔ وہ مشیر بھی تھے اور حاکم بھی ۔ جدید نظم و نسق اور معاشی و مالی امور پر انہیں کامل عبور حاصل تھا ۔ زائد از اکتیس سال مختلف اہم اور کلیدی خدمتوں پر فائز رہنے کے بعد بالآخر انہوں نے سب سے اعلی عاملانہ عہدہ (صدر اعظم) پر فائز رہتے ہوئے اپنی فکر کو عمل کے سانچے میں ڈھالا اور ریاست حیدرآباد کے نظم و نسق کو ترقی پسند ، رواداری ، معاملہ فہمی اور انصاف کی اعلی اقدار اور روایات سے مالا مال کیا ۔ ان کے عہد میں ریاست کے نظم و نسق میں بڑے پیمانے میں جو اصلاحات ہوئیں اور جس تیز رفتاری کے ساتھ ریاست نے ہمہ جہت ترقی کی اس سے سالار جنگ اول کے عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سر اکبر حیدری سالار جنگ اول کے بعد ریاست کے دوسرے بڑے صدر اعظم تھے ۔
محمد اکبر نذر علی حیدری 8 نومبر 1869 ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے ۔ وہ متمول اور بااثر بوہرہ خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ انہوں نے سترہ برس کی عمر میں بی اے کے امتحان میں اعزاز کے ساتھ کامیابی حاصل کی ۔ حکومت ہند کی جانب سے منعقدہ فینانس کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد 1888 ء میں 19 برس کی عمر میں حکومت ہند کے محکمہ فینانس کی ملازمت میں داخل ہوئے اور مختلف صوبوں میں کئی حیثیتوں سے خدمات انجام دیں ۔ ان کی اعلی صلاحیتوں اور عمدہ کارکردگی کی وجہ سے انہیں حکومت ہند میں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا اور انہوں نے 1905ء کے آخر تک بحسن و خوبی خدمات انجام دیں ۔
نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کے عہد میں معین المہام (وزیر) فینانس سرچارج کیسن واکر کے رعب دبدبہ کا بڑا چرچا تھا۔ساری ریاست میں اس کے زور اور اقتدار کی دھوم تھی ۔ ریاست کے اہم اور اعلی عہدیدار بھی اس سے ڈرتے اور خوف کھاتے تھے ۔ ہر جگہ اس کا حکم اور زور چلتا تھا ۔ یہی واکر ، اکبر حیدری کی ذہانت ،قابلیت اور اعلی صلاحیتوں کا بڑا معترف تھا ۔ چنانچہ اس کی پرزور تحریک پر اکبر حیدری کی خدمات برطانوی ہند سے ریاست حیدرآباد کی صدر محاسبی کی خدمت پر مستعار لی گئیں ۔ واکر ریاست حیدرآباد کی صدر محاسبی اور مالیہ کے نظم و نسق سے مطمئن نہ تھا ۔ اور وہ اکبر حیدری کے صلاح و مشورے اور تعاون سے ان محکموں میں اصلاحات نافذ کرتے ہوئے برطانوی طرز کے نظم و نسق کواپنانے کا خواہاں تھا ۔
اکبر حیدری 11 اکتوبر 1905 کو صدر محاسبی کی خدمت پر رجوع ہوئے ۔ جب انہیں برطانوی ہند کی ملازمت میں ترقی ملی تو انہیں ریاست حیدرآباد میں یکم اپریل 1908ء کو ترقی دے کر معتمد فینانس مقرر کیا گیا ۔ اکبر حیدری نے صدر محاسبی اور معتمد فینانس کے عہدوں پر خدمات انجام دیتے ہوئے ہمیشہ واکر کے منشا کو پورا کرنے کا خیال رکھا ۔ اسی دوران انہوں نے اپنی اعلی ذاتی صلاحیتوں اور واکر کی تربیت اور صلاح و مشوروں کی وجہ سے ریاست کے نظم و نسق پر عبور حاصل کیا ۔ واکر یہ چاہتا تھا کہ اکبر حیدری اس کے جانشین ہوں مگر جب وہ معین المہام (وزیر) فینانس کے عہدے سے سبکدوش ہوا تو ریذیڈنٹ کے زیر اثر اکبر حیدری کی بجائے اول مددگار رزیڈنسی گلانسی کو معین المہام فینانس مقرر کیا گیا جب کہ وہ برطانوی ہند کی ملازمت میں اکبر حیدری کا جونیئر تھا اور ان سے کم یافت پاتا تھا ۔ اس سلسلے میں اکبر حیدری کی نمائندگی بے اثر رہی مگر انہیں ترقی ماہوار کے ساتھ معتمد عدالت و امور عامہ مقرر کیا گیا ۔ وزیر فینانس کی تنخواہ 2800 کلدار تھی تو معتمد عدالت امور عامہ کے لئے 3000 کلدار ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی ۔ اکبر حیدری نے 5 جولائی 1911 ء کواس نئے عہدے کا جائزہ لیا ۔ معتمد عدالت ،کوتوالی ، تعلیمات اور امور عامہ کا عہدہ اکبر حیدری کے لئے بالکل نیا تھا ۔وہ تحت کے محکموں کے کام سے ناواقف تھے لیکن انہوں نے بڑی محنت اور توجہ سے کام کیا اور وہ جلد ہی ان محکموںکے کام پر بھی حاوی ہوگئے ۔ اکبر حیدری کے دور میں محکمہ آثار قدیمہ قائم ہوا ۔ ریاست میں تعلیم کو غیر معمولی فروغ ہوا اور ان کی غیر معمولی توجہ اور دلچسپی کے باعث جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا ۔ جامعہ عثمانیہ غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ میں اپنی طرز کی منفرد جامعہ تھی جہاں ایک ہندوستانی زبان اردو کو جامعاتی سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا تجربہ کیا گیا تھا ۔ اس عظیم اور جرات مندانہ تجربہ کی علمی حلقوں میں بڑی ستائش کی گئی تھی ۔ ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے پرزور حامی تھے چنانچہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی اطلاع ملنے پر انہوں نے سر اکبر کے نام اپنے ایک مکتوب مورخہ 9 جنوری 1918 میں یہ لکھا کہ انہیں یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ ریاست حیدرآباد میں ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز ہے جس میں اردو کے ذریعہ تعلیم دی جائے گی ( گرودیو ٹیگور کا یہ مکتوب آندھرا پردیش آرکائیوز کے ریکارڈز کے ذخائر میں موجود ہے)
سالار جنگ اول کی اصلاحات کی اسکیمات میں ایک اسکیم یہ بھی تھی کہ سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ملکی افراد کی خاص تعلیم اور تربیت کا بندوبست کیا جائے ۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے 1884 ء میں شہر حیدرآباد میں سیول سرویس کلاس کا آغاز ہوا ۔ مگر چند سال بعد ہی 1891-92 میں اسے رد کردیا گیا ۔ اکبر حیدری کے معتمد تعلیمات کے دور میں سول سروس کلاس کا احیاء عمل میں آیا ۔ انہوں نے محکمہ تعلیمات کے علاوہ دیگر محکموں کی ترقی اور توسیع پر بھی توجہ دی ۔
معتمد عدالت اور امور عامہ کے عہدے پر زائد از 9 سال فائز رہنے کے بعد آصف سابع نے فرمان مورخہ 13جون 1921ء کے ذریعہ گلانسی کے سبکدوش ہونے پر اکبر حیدری کو صدر المہام فینانس مقرر کیا ۔ انہوں نے 5 جولائی 1921 ء کو صدرالمہام فینانس کے عہدہ کا جائزہ لیا اور 1937ء میں صدر اعظم مقرر ہونے تک اسی عہدے پر فائز رہے ۔ اکبر حیدری نے صدر المہام فینانس کی حیثیت سے کارہائے نمایاں انجام دئے ۔ محکمہ واری موازنے کی تیاری اکبر حیدری کا ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس موازنے کی تیاری کا مقصد یہ تھا کہ کوئی محکمہ نقصان میں نہ رہے اور کسی محکمے کو کافی اور ضروری رقم نہ ملنے کے عذر کا موقع نہ ملے ۔ چنانچہ اس موازنے کے مفید نتائج مختلف شعبہ ہائے حیات میں ترقی کی صورت میں دیکھے گئے جو چند برسوں کے اندر ریاست میں ہوئی ۔ محکمہ جات تعلیمات ، تعمیرات ، آبپاشی ، آرائش بلدہ ، صحت عامہ اور تنظیم دیہی وغیرہ میں جو اصطلاحات اور ترقیاں ہوئیں وہ سب سر اکبر کے اسی موازنے کی دین سمجھی جاتی ہیں ۔ اکبر حیدری کے دور میں ریلوے لائنوں کی توسیع ہوئی اور ایچ ای ایچ دی نظامس گیارنٹیڈ اسٹیٹ ریلوے کمپنی لمیٹڈ سے سارے ریلوے نظام کی خریدی عمل میں آئی ۔ ریاست حیدرآباد نے ریلوے نظام کی خریدی کے بعد یکم اپریل 1930ء سے ایچ ای ایچ دی نظامس اسٹیٹ ریلوے کے نام سے تمام کاروبار سنبھالا ۔
اکبر حیدری کے ماہرانہ کام اور فاضل بچت کے موازنوں کو آصف سابع پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے چنانچہ انھوں نے فرمان مورخہ 9 اگست 1931ء کے ذریعہ 1341ف کا موازنہ منظور کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس کساد بازاری اور اقتصادی انحطاط کے زمانے میں سر اکبر حیدری نے موازنہ میں ایک معتدبہ فاضل بچت کی جو توقع ظاہر کی ہے وہ اطمینان بخش اور قابل قدر ہے ۔ ان سے میری خوشنودی کا اظہار کیا جائے‘‘ ۔
اکبر حیدری کو ان کی خدمات کے صلے میں آصف سابع کے جشن سالگرہ 1341ھ کے موقع پر حیدر نواز جنگ کا خطاب دیا گیا اور حکومت برطانوی ہند کی جانب سے انہیں 1927ء میں سر کا خطاب ملا ۔
سر اکبر حیدری نے تینوں راونڈ ٹیبل کانفرنسوں منعقدہ 1930، 1931 اور 1932 میں ریاست حیدرآباد کے وفد کی قیادت کی تھی جہاں انھوں نے مباحث میں سرگرم حصہ لیا تھا اور اپنی اعلی صلاحیتوں کو منوایا تھا ۔ مباحث کے دوران انھوں نے فیڈریشن کے قیام کی صورت میں یا مستقبل کے حالات میں ریاست حیدرآباد کے مفادات کے تحفظ کی وکالت کی ۔ ان ہی کی کوششوںکے سبب ایک بار پھر ریاست حیدرآباد کو ملک کی سب سے بڑی دیسی ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور برار کے مسئلہ پر از سر نو انڈیا آفس لندن اور سر اکبر حیدری کی قیادت میں ریاست حیدرآباد کے عہدیداروں کے مابین گفت و شنید ہوئی جس کے نتیجے میں 1936 ء کا معاہدہ طے پایا جس کی رو سے علاقہ برار پر آصف سابع کے مالکانہ اور شاہانہ حقوق کو برطانوی حکومت نے تسلیم کیا ۔
سر اکبر حیدری 15 سال سے زیادہ مدت تک صدر المہام فینانس رہے ۔ مہاراجا کشن پرشاد کے مستعفی ہونے پر اکبر حیدری 13 مارچ 1937 کو ریاست کے سب سے اعلی عہدے پر فائز ہوئے ۔ ریاست کے صدر اعظم مقرر ہونے سے قبل وہ زائد از اکتیس سال مختلف محکموں کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے ۔ اب انہوں نے اپنے طویل تجربے اور اعلی اختیارات سے استفادہ کرتے ہوئے مخلصانہ طور پر ریاست اور اس کے عوام کی خدمت انجام دینے کی کوشش کی ۔
اکبر حیدری کی حکمت عملی اور کارکردگی کی بالعموم تحسین و ستائش ہوئی لیکن بعض مرتبہ انہیں سخت اعتراضات اور تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی ایک اہم مثال ریاست کے لئے ریلوے نظام کی خریدی تھی ۔ اس بارے میں ریاست کے اخباروں نے سخت تنقیدیں کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سر اکبر حیدری نے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی کساد بازاری کے دوران ریلوے کی خریدی کے لئے بہت بھاری رقم ادا کی ۔ اکبر حیدری کے صدارت عظمی کے دور میں دستوری اصلاحات کے لئے جوکمیٹی قائم کی گئی تھی اس کی رپورٹ پر بھی شد و مد سے تنقید کی گئی تھی ۔ جس کی وجہ سے حکومت کو مجبور ہو کر اس رپورٹ پر عمل آوری دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک ملتوی کرنی پڑی ۔ ان باتوں کی روشنی میں دیوان بہادر آر دامودر آینگار کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سر اکبر بہت بڑے ماہر مالیات ، بہت بڑے ماہر تعلیم اور بہت بڑے مدبر ہیں اور جہاں کسی کی اتنی حیثیتیں ہوں ،ظاہر ہے کہ وہاں اس کے بارے میں موافقت اور مخالفت میں بہت کچھ کہنے کی گنجائش رہ سکتی ہے ۔
اکبر حیدری ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبردست حامی تھے ۔ ان کو ابتداء ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ جب تک ہندو اور مسلمان پھر سے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک قومی سطح پر ترقی ممکن نہیں ہے ۔ ان کی آرزو تھی کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مل جل کر کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی بہترین صلاحیتوں اور خوبیوں سے فائدہ اٹھائیں اور مالا مال ہوں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کانوکیشن ایڈرس، محمڈن ایجوکیشن کانفرنس منعقدہ کلکتہ کے صدارتی خطبے اور سر اکبر کے دیگر مضامین میں ان خیالات کا بہت واضح اور بھرپور انداز میں اظہار ہوا ہے ۔
اکبر حیدری قوم پرست تھے اور انہوں نے اکثر موقعوں پر ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں تعلق خاطر کا اپنے خیالات کے ذریعے اظہار کیا تھا ۔ ان کے مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، راج گوپال چاری ، سیٹھ جمنالال بجاج ، سروجنی نائیڈو وغیرہ سے خوشگوار تعلقات تھے ۔ ہری پورا کانگریس سیشن میں دیسی ریاستوں میں احتجاجیوں کی حمایت اور تائید میں قرارداد کی منظوری پر سر اکبر کے تعلقات کانگریس سے کشیدہ ہوگئے ۔چوں کہ سر اکبر طویل عرصے تک ریاست حیدرآباد کے بڑے اہم عہدوں پر فائز رہے اس لئے بیرون ریاست کی بے حد اہم اور ممتاز شخصیتوں سے ان کی خط و کتابت ہوا کرتی تھی ۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں سر اکبر کے نام مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد ،سردار پٹیل ، رادھا کرشنن ، راج کماری امرت کور ، علامہ اقبال ، سرعبدالقادر ، سرفیروز خان وغیرہ کے خطوط محفوظ ہیں ۔
اکبر حیدری صدر اعظم کے عہدے پر فائز تھے کہ انہیں وائسرائے کی ایگزیکیٹو کونسل میں وزیر اطلاعات کے عہدے کی پیشکش کی گئی اور وہ صدارت عظمی کی پانچ سالہ میعاد مکمل کرنے سے قبل مستعفی ہو کر 28 اگست 1941ء کو نئے عہدے کا جائزہ لینے کی غرض سے بمبئی روانہ ہوگئے ۔ اکبر حیدری جب حیدرآباد سے رخصت ہورہے تھے ان کے اعزاز میں متعدد وداعی تقاریب منعقد ہوئیں ۔ باب حکومت کی جانب سے انہیں جو وداعی ڈنر دیا گیا تھا اس موقع پر مابعد ڈنر تقریر میں مہدی یار جنگ نے کہا تھا کہ اس موقع پر سر اکبر کے کارناموں کا تفصیلی ذکر کرنا نہیں چاہئے کیونکہ ان تمام کارناموں کا خلاصہ اس ایک جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد آج جو کچھ ہے وہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ غیر معمولی قابلیت کا انحصار ایک حصہ فطری ذہانت اور تین حصے ذاتی مشقت پر ہے ۔ چنانچہ سر اکبر سخت محنت کرنے اور صبر کے ساتھ تفصیلات کا مطالعہ کرنے میں دوسروں کے لئے ہمیشہ ایک قابل تقلید مثال پیش کرتے رہے ہیں ۔ وہ ایک مدبر سیاست کے تخیل اور تخلیقی قوت کے بھی حامل ہیں ۔ چنانچہ ان ہی اوصاف کا نتیجہ ہے کہ ان کی بدولت اس ریاست کی ترقی میں اس قدر مدد ملی کہ اب حیدرآباد کو ہندوستان میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
اکبر حیدری کی دیرینہ اور بے مثال خدمات کے صلے میں آصف سابع نے فرمان مورخہ 24 اگست 1941 ء کے ذریعے سراکبر کے نام یکم سپٹمبر 1941ء سے 3000 کلدار ماہانہ وظیفہ منظور کیا اور ان کے پانچ پوتے پوتیوں کے نام فی کس ایک سو روپے منصب کی بھی منظوری دی ۔ ان کی کارگزاری کے انعام کے صلے میں ان کو سات ماہ رخصت خاص کی تنخواہ کے عوض پچاس ہزار کلدار یکمشت دینے کے بھی احکام دئے ۔ اس کے علاوہ اس فرمان میں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ دل کشا تاحیات ان کے قبضے میں دے دی جائے تاکہ جب بھی وہ یہاں آئیں اس میں قیام کرسکیں کیوں کہ عمر کا زیادہ حصہ اس میں بسر ہونے کی وجہ سے ان کو اس سے انس پیدا ہوگیا ہے ۔ اکبر حیدری وائسرائے کی ایگزیکیٹو کونسل میں صرف چند ماہ کام کرسکے ۔ اہلیہ کی وفات سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا تھا اور وہ علیل رہنے لگے تھے ۔ بالآخر وہ 8 جنوری 1942 کو رحلت کرگئے ۔ ان کی میت حیدرآباد لائی گئی اور انہیں دائرہ سلیمانیہ میں لیڈی حیدری کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔
اکبر حیدری کے انتقال پر ریاست حیدرآباد کے کابینی وزارء اور دیگر اہم شخصیتوں بشمول سروجنی نائیڈو کے علاوہ بیرونی ریاست کے جن ممتاز اور نامور شخصیتوں نے تعزیتی پیامات روانہ کئے اور خراج ادا کیا تھا ان میں مہاتما گاندھی ، وائسرے ہند ، راج گوپال چاری ، تیج بہادر سپرو اور سروجنی نائیڈو کے نام قابل ذکر ہیں ۔ سروجنی نائیڈو نے اکبر حیدری کی وفات پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی ہند اور حیدرآباد میں سر اکبر کے دیرینہ بے مثال کارنامے یہاں اور باہر کی دنیا میں کافی شہرت رکھتے تھے لیکن ان کے سچے ثنا خوانوں یا تلخ نکتہ چینیوں میں صرف چند ہی ایسے افراد ہیں جنہوں نے اس عظیم شخصیت کی سیاست دانی اور نظم و نسق کی مہارت میں ایک زبردست قومیت پرست مصلح و مفکر کو دیکھا جس کی دلی تمنا ایک ایسے ترقی پسند ہندوستان کو آزاد اور متحد دیکھنا تھی جس کی تہذیب ، تمدن اور روحانی عظمت ساری دنیا کے لئے نئی زندگی کا پیام ہو ۔