سرینا کا کارٹون صحافتی اقدار کے خلاف نہیں :اے این پی

سڈنی ۔26 فروری (سیاست ڈاٹ کام ) امریکی ٹینس اسٹار 37 سالہ سیرینا ولیمز کو جاپان کی نوجوان ٹینس اسٹار21 سالہ ناؤمی اوساکا نے یوایس اوپن میں شکست دی تھی۔اس میچ کے دوران سرینا ولیمز کو خراب کارکردگی دکھانے کی وجہ سے غصے میں بھی دیکھا گیا تھا اور انہوں نے متعدد بار میچ کے امپائر سے سخت گفتگو کی تھی۔ امپائر کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرنے کی وجہ سے سیرینا ولیمز کو کم سے کم تین بار میچ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی انتباہ بھی دیا گیا تھا اور بالآخر انہیں اس میچ میں شکست بھی کھانی پڑی تھی۔ میچ ہارنے کے بعد سرینا ولیمز نے غصے سے اپنے ریکٹ کو زمین پر پٹک کر توڑ دیا تھا اور میڈیا نے ان کے غصے کو براہ راست دکھایا تھا۔ آسٹریلیا کے معروف اخبار ’دی ہیرالڈ سن‘ نے ان کا ایک کارٹون بھی شائع کیا۔ اخبار میں شائع کیا گیا کارٹون سرینا ولیمز کے اسی غصے سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔ کارٹون میں سیرینا ولیمز کو ٹینس ریکٹ توڑتے ہوئے اور انتہائی زور سے چلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کارٹوں میں سرینا ولیمز کو جہاں انتہائی وزن دار دکھایا گیا تھا، وہیں انہیں غصے سے چلاتے ہوئے ریکٹ کے اوپر چھلانگ دکھاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔کارٹون میں سرینا ولیمز کے ہونٹ، ناک اور چہرے کو بے ڈھنگے انداز میں دکھایا گیا تھا جب کہ ان کے بالوں کو پونی ٹیل میں بند ہونے کے باوجود کسی گلدستے کی طرح ہوا میں اڑتے ہوئے دکھایا گیا ۔عام افراد سمیت خود سرینا ولیمز نے بھی اس کارٹون کو اپنے خلاف نسلی تصب اور خاتون کی جنسی ساخت کو خراب انداز میں پیش کرنے کا الزام لگایا ۔ کارٹون کو اخبار میں شائع کرنے کے بعد کئی افراد نے آسٹریلیا کے اخبارات پر نظر رکھنے والے ادارے کو شکایات کی تھیں اور اخبار کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عوام نے ناصرف اخبار بلکہ کارٹون بنانے والے کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ تاہم اب اخبارات پر نظر رکھنے والی آسٹریلین نیوز پیپرز تنظیم نے اس کارٹون پر عوام کی شکایت کو غیر اہم قرار دیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ آسٹریلین پریس کونسل نے سرینا ولیمز کے اس کارٹون کو غیر اخلاقی قرار نہیں دیا۔کونسل کے مطابق سرینا ولیمز کا کارٹون صحافتی اور اخباری اقدار کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی یہ نسلی تصب پر مبنی تھا۔ کونسل نے کہا کہ کارٹون کو خراب، اڈھنگا اور ڈراؤنہ تو قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم اس پر جنسی تعصب کو ہوا دینے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی اسے اخباری اور صحافتی اقدار کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔