سریدھر بابو کا استعفیٰ

چیف منسٹرکا انتقام یا کانگریس کی حکمت عملی
اے پی ڈائری

آندھراپردیش کی تقسیم سے متعلق بل پر مباحث کا مسئلہ پھر ایک مرتبہ ریاستی اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔ دونوں ایوانوں کے دوسرے مرحلہ کا اجلاس شروع ہوا لیکن متحدہ آندھرا اور تلنگانہ کے حامی ارکان اسمبلی اپنے اپنے موقف پر اڑے رہے جس کے باعث ابتدائی دو دن تک کوئی کارروائی نہ ہوسکی ۔ بزنس اڈوائزری کمیٹی میں کئے گئے فیصلہ کے متعلق 3 جنوری سے دونوں ایوانوں میں آندھراپردیش تنظیم جدید مسودہ بل پر مباحث کا آغاز ہونا تھا۔ اسمبلی اجلاس کے آغاز سے عین قبل چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزیر ڈی سریدھر بابو سے امور مقننہ کا قلمدان حاصل کرلیا اور اسے متحدہ آندھرا کے کٹر حامی شلیجا ناتھ کے حوالے کیا گیا ہے۔ اسمبلی اجلاس سے عین قبل چیف منسٹر کا یہ اقدام ایک نئے تنازعہ کا سبب بن گیا اور صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی کہ سریدھر بابو نے وزارت سے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ چیف منسٹر کا یہ اقدام کیا سیما آندھرا قائدین کی جانب سے تلنگانہ بل پر مباحث کو روکنا تھا یا پھر یہ کانگریس کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس بارے میں سیاسی حلقوں میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ سریدھر بابو سے امور مقننہ کے قلمدان واپس لئے جانے کے مسئلہ پر اگرچہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزراء اور قائدین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور ریاستی گورنر اور پارٹی ہائی کمان سے چیف منسٹر کے خلاف شکایت کی گئی ۔

لیکن حیرت ہے کہ ہر معمولی مسئلہ پر مداخلت کرنے والے جنرل سکریٹری اے آئی سی سی اور آندھراپردیش امور کے انچارج ڈگ وجئے سنگھ نے معنیٰ خیز خاموشی اختیار کی۔ پارٹی کے بعض گوشوں کا کہنا ہے کہ حکمت عملی کے طور پر ہی یہ فیصلہ کیا گیا جبکہ تلنگانہ قائدین اسے چیف منسٹر کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ 9 ڈسمبر سے شروع ہوئے پہلے مرحلہ کے اسمبلی اجلاس میں تلنگانہ مسودہ بل کی پیشکشی میں سریدھر بابو نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے چیف منسٹر کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسمبلی میں مباحث کے آغاز کی بات کہی جبکہ اسپیکر نے کہا کہ تکنیکی طور پر بل پر مباحث کا آغاز ہونا باقی ہے۔ سریدھر بابو کا شمار کرن کمار ریڈی کے بااعتماد رفقاء میں ہوتا ہے اور ان کے خلاف اچانک کارروائی نے تلنگانہ وزراء کو حیرت میں ڈال دیا۔ وزارت سے استعفیٰ کا مکتوب سریدھر بابو نے چیف منسٹر کو روانہ کردیا اور کرن کمار ریڈی نے تاحال استعفیٰ کی قبولیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اگر سریدھر بابو اپنے استعفیٰ کے بارے میں سنجیدہ تھے تو وہ راست گورنر سے ملاقات کرتے ہوئے اپنا استعفی پیش کرسکتے تھے۔

پارٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے اثر کو کم کرنے کیلئے ہائی کمان نے حکمت عملی تیار کی ہے جس کے مطابق سریدھر بابو ٹی آر ایس کے مقابلہ میں ایک متوازی تلنگانہ تحریک کی قیادت کریںگے جس سے عام انتخابات سے قبل 10 اضلاع میں ٹی آر ایس کے اثر میں کمی واقع ہوگی۔ چونکہ ٹی آر ایس نے کانگریس میں انضمام کے اپنے وعدے سے انحراف کرلیا ہے۔ لہذا کانگریس نہیں چاہتی کہ انتخابات کی صورت میں تلنگانہ میں ٹی آر ایس واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے۔ اسی لئے صاف و شفاف امیج رکھنے والے سریدھر بابو کے ذریعہ تلنگانہ میں متوازی مہم کے آغاز کا منصوبہ ہے۔ اگرچہ سریدھر بابو نے ابھی تک اپنی آئندہ حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ تلنگانہ قائدین سے مشاورت کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ انہوں نے قلمدان کی تبدیلی کو سیما آندھرا قائدین کے مفادات کے تحفظ کی کوشش قرار دیا ۔

سریدھر بابو کے مسئلہ پر تلنگانہ کے دیگر وزراء کی جانب سے استعفیٰ دینے سے گریز کیا گیا جس سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ اس سارے کھیل کا اسکرپٹ کانگریس ہائی کمان نے تیار کیا ہے۔ تلنگانہ میں سریدھر بابو کے ذریعہ ٹی آر ایس کے اثر کو کم کیا جائے گا جبکہ متحدہ آندھرا کے کٹر حامی کرن کمار ریڈی کے ذریعہ سیما آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس اور تلگو دیشم کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سریدھر بابو علحدہ تلنگانہ پارٹی قائم کرتے ہیں یا پھر کسی تحریک کے نام پر تلنگانہ میں متحرک ہوجائیں گے۔ جہاں تک اسمبلی میں تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کا معاملہ ہے، کرن کمار ریڈی نے مباحث کو نیا رخ دینے کیلئے سریدھر بابو کو نشانہ بنایا۔ چیف منسٹر جو ابتداء ہی سے ریاست کی تقسیم کے مخالف ہیں اور حیدرآباد سے لیکر دہلی تک انہوں نے ہر سطح پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ان کے کسی بھی اقدام کو حکمت عملی سے خالی کہا نہیں جاسکتا۔ کرن کمار ریڈی کا وہ بیان کہ ریاست کی تقسیم کو روکنے کیلئے وہ آخری گیند تک میدان پر ڈٹے رہیں گے، ان کے اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ لمحہ آخر تک اس طرح کی چالوں کے ذریعہ ریاست کی تقسیم کے عمل کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ تلنگانہ قائدین بھلے ہی یہ کہتے رہیں کہ میچ ختم ہوگیا لیکن کرن کمار ریڈی روزانہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ میچ ابھی جاری ہے۔

صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے تلنگانہ مسودہ بل پر رائے کے اظہار کیلئے اسمبلی کو 23 جنوری تک کا وقت دیا ہے لیکن جن حالات میں اسمبلی کا اجلاس منعقد ہورہا ہے اس بات کا امکان نہیں کہ 23 جنوری تک مباحث کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اسمبلی اور کونسل میں مباحث کا آغاز ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی متحدہ آندھرا کے حق میں قرارداد کی منظوری کے مطالبہ کے تحت کارروائی میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے تو دوسری طرف کانگریس اور تلگو دیشم کے سیما آندھرا ارکان مسودہ بل پر خامیوں کو دور کرنے پر بضد ہیں۔ اس طرح ایوان میں سیما آندھرا ارکان کی اکثریت بل پر مباحث کے آغاز میں اہم رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کیا صدر جمہوریہ ان حالات میں اسمبلی کو دی گئی میعاد میں توسیع کریں گے؟ اگر توسیع نہ کی جائے تو اسپیکر اسمبلی کی رائے سے کس انداز میں صدر جمہوریہ کو واقف کرائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ تمام ارکان سے تحریری طور پر حلفنامے حاصل کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کو تائید اور مخالفت میں پیش کئے گئے حلفناموں سے واقف کرایا جائے گا ۔ اگر اسمبلی میں مباحث کیلئے اصرار کیا جائے تو پھر سیما آندھرا کی جانب سے رائے دہی کی مانگ کی جارہی ہے تاکہ بل کو شکست دی جاسکے اور صدر جمہوریہ پر یہ واضح کیا جائے کہ ایوان میں ارکان کی اکثریت ریاست کی تقسیم کے خلاف ہے۔

بل کی صدر جمہوریہ کو واپسی کے بعد ہی ریاست کی تقسیم کا مرحلہ مختلف مراحل سے گزرے گا۔ صدر جمہوریہ اسمبلی کی رائے کے اعتبار سے بل میں مناسب ترمیمات کی سفارش کے ساتھ اسے وزارت داخلہ کو روانہ کریں گے۔ وزارت داخلہ بل کا قطعی مسودہ تیار کر کے مرکزی کابینہ میں پیش کرے گی۔ مرکزی کابینہ کی منظوری کے بعد بل کو پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ سیما آندھرا ارکان کو یقین ہے کہ مباحث نہ ہونے کی صورت میں صدر جمہوریہ مسودہ بل کو حکومت کے پاس واپس کردیں گے ۔ اسپیکر اسمبلی نے بہار اور اترپردیش کا دورہ کرتے ہوئے وہاں ریاستوں کی تقسیم کے موقع پر اسمبلی مباحث کا جائزہ لیا لیکن آندھراپردیش کی صورتحال مختلف ہے۔ بہار اور اترپردیش کی تقسیم کے وقت وہاں کی اسمبلیوں میں تقسیم کے حق میں قرارداد منظور کی گئی تھی لیکن یہاں ارکان کی اکثریت تقسیم کے خلاف ہے۔ 3 جنوری سے شروع ہوئے اسمبلی اجلاس کی روداد دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ باقی کے دنوں میں مسودہ بل پر مباحث ہوپائیں گے۔ اسمبلی اجلاس کے آغاز کے دن ہی سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے کانگریسی ارکان پارلیمنٹ نے حیدرآباد میں دو روزہ احتجاج کا آغاز کیا۔ یہ وہی ارکان ہیں جنہوں نے لوک سبھا میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔ دوسری طرف اے پی این جی اوز اور دیگر سیاسی جماعتوں نے سیما آندھرا بند منایا۔ الغرض سیما آندھرا علاقوں میں ریاست کی تقسیم کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت ریاست کی تقسیم کے سلسلہ میں دستوری اختیارات کا کس حد تک استعمال کرے گی اور کیا اسمبلی میں ارکان کی رائے کو نظرانداز کردیا جائے گا ؟ چونکہ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس باقی ہے، لہذا عبوری بجٹ کی منظوری سے متعلق اس اجلاس میں تلنگانہ بل کی منظوری ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت کیا پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے تلنگانہ بل کی منظوری کو یقینی بنائے گی یا پھر ریاست کی تقسیم کا مسئلہ 2014 عام انتخابات تک ٹال دیا جائے گا۔ بی جے پی نے اگرچہ تلنگانہ کی تائید کا اعلان کیا ہے لیکن عام انتخابات سے عین قبل وہ نئی ریاست کی تشکیل کا سہرا کانگریس کے سر باندھنے تیار نہیں۔ ایک طرف کانگریس پارٹی کو تلنگانہ عوام سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کرنی ہے تو دوسری طرف اسے سیما آندھرا میں پارٹی کے زوال کا خطرہ لاحق ہے۔ دونوں علاقوں میں کانگریس اپنی حالت میں سدھار کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرے گی ، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ تاہم ایک بات طئے ہے کہ اسمبلی اور کونسل کے اجلاس کے پرامن انعقاد کے امکانات نہیں کے برابر ہیں۔