سرکاری ملازمین اور صحافیوں کو ہیلت کارڈس کی بنیاد پر علاج سے انکار

سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹلس کو حکومت سے 250 کروڑ کے بقایہ جات وصول طلب کا بہانہ

حیدرآباد ۔ 30 ۔ جون : ( سیاست نیوز) : سرکاری ملازمین اور اخباری نمائندوں کو حکومت نے ہیلت کارڈس جاری کئے ہیں مگر کسی بھی دواخانے میں علاج کے لیے رجوع ہوں تو دواخانہ انتظامیہ علاج کرنے سے صاف انکار کررہا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ریاست کے سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹلس کو تاحال 250 کروڑ روپئے کے بقایہ جات واجب الادا ہیں اور گزشتہ 6 ماہ سے بقایہ جات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دواخانوں کے انتظامیہ علاج کرنے سے صاف انکار کررہے ہیں ۔ کارپوریٹ دواخانوں کا یہ حال ہے تو سرکاری زیر انتظام چلائے جانے والے ویلنیس سنٹرس کے بھی حالات دگرگوں ہیں کیوں کہ یہاں پر عام علاج و معالجے بھی دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے مجبوراً ہیلت کارڈس ہولڈرس ان ویلنیس سنٹرس سے رجوع ہونا ہی بند کردیا ہے ۔ ریاستی حکومت نے سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابوں کی بہترین طبی امداد دینے کے مقصد سے ایمپلائز ہیلت اسکیم ( ای ایچ ایس) کا آغاز کیا تھا ۔ اور محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ ملکی سطح پر بہترین علاج و معالجہ دستیاب کرانے کی غرض سے تمام اضلاع میں ویلنیس سنٹرس قائم کئے جائیں گے اور اس مناسبت سے 17 دسمبر 2016 کو خیریت آباد ویلنیس سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا بعد ازاں ونستھلی پورم ، سنگاریڈی اور ورنگل میں بھی ویلنیس سنٹرس قائم کئے گئے ۔ ای ایچ ایس اور جے ایچ ایس اسکیم کے تحت تاحال 8,32,085 ملازمین ، 3,06,125 وظیفہ یابوں اور 32,210 جرنلسٹوں نے اپنے اپنے نام درج کروائے ہیں جب کہ ای ایچ ایس اسکیم کے تحت طبی خدمات کی فراہمی کے لیے ریاستی سطح پر 210 دواخانوں نے اپنا رجسٹریشن کروایا ہے ۔ ماضی میں حکومت میڈیکل ری ایمبرسمنٹ اسکیم کے تحت سالانہ 700 کروڑ سے زائد بجٹ مختص کیا کرتی تھی مگر ویلنیس سنٹرس کے قیام کے بعد یہ بجٹ کم ہو کر 400 کروڑ تک پہونچ گیا ہے اس مناسبت سے حکومت نمایاں انداز میں خدمات کو توسیع دینے کے بجائے لاپرواہی کا شکار ہوگئی ہے اور بروقت بقایہ جات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ریاست کے 12 سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹلس نے بغیر رقمی ادائیگی کے علاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے ہیلت کارڈس رکھنے کے باوجود مریضوں کو مجبوراً رقمی ادائیگی کرتے ہوئے علاج کرانا پڑرہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ حالیہ دنوں ایک اخبار کے نمائندے کو خرابی صحت کی بنیاد پر نامپلی کے ایک سوپر اسپیشالیٹی دواخانے سے رجوع کیا گیا جہاں دواخانہ انتظامیہ نے جرنلسٹ ہیلت اسکیم کے تحت علاج کرنے سے صاف انکار کردیا جنہیں مجبوراً نقد رقمی ادائیگی کرتے ہوئے علاج کرانا پڑا اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ضلع نلگنڈہ سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ٹیچر نے بھی اسی اسکیم کے تحت بنجارہ ہلز کے ایک دواخانے سے علاج کے لیے رجوع کیا جہاں دواخانہ انتظامیہ نے علاج کے لیے نقد رقمی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بعد ازاں آپ ہیلت ری ایمبرسمنٹ کے لیے درخواست دیں ۔ واضح ہو کہ کارپوریٹ دواخانوں کا یہ حال ہے تو سرکاری زیر انتظام ویلنیس سنٹرس کی حالات اور زیادہ خراب ہیں اور ان سنٹرس میں مریضوں کی تعداد کے مطابق عملہ تعینات نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ضروری ادویہ دی جارہی ہیں ۔ اور ان سنٹرس میں ڈاکٹرس کی جانب سے تجویز کردہ نصف سے زائد دوائیاں مریضوں کو باہر سے خریدنا پڑرہا ہے ۔ اور ان سنٹرس میں ماہر ڈاکٹر ہی نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کے امراض کے معائنہ عام ڈاکٹرس ہی کررہے ہیں اور یہ ڈاکٹرس بھی دو گھنٹوں سے زیادہ مریضوں کے معائنے نہیں کررہے ہیں ۔ چار ماہ قبل تک ان سنٹرس کے ذریعہ روزانہ 2300 مریض رجوع ہوا کرتے تھے مگر اب ان سنٹرس سے ایک ہزار مریض بھی رجوع نہیں ہورہے ہیں جب کہ کینسر ، کڈنی اور دیگر بڑی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا تو کوئی بھی پرسان حال ہی نہیں ہے اور ہنگامی حالات میں ان مریضوں کو ایم این جے کینسر ہاسپٹل اور نمس کو روانہ کیا جارہا ہے اور مذکورہ دواخانوں میں پہلے ہی موجود مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ای ایچ ایس اور جے ایچ ایس اسکیموں کے تحت آنے والے ان مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ موجودہ ویلنیس سنٹرس میں ہی نمایاں خدمات انجام دینے سے قاصر حکومت مزید تین ویلنیس سنٹرس کے قیام کے لیے اقدامات کررہی ہے ۔۔