سرکاری اسکیمات میں مسلمان نظر انداز

کریم نگر۔/2مارچ، ( فیکس )ممتاز ماہر تعلیم اور سماجی جہد کار جناب ظہور خالد نے عام انتخابات کے پیش نظر مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کیلئے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے جس میں مرکز اور ریاست میں برسر اقتدار کانگریس حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے اور دریافت کیا کہ انتخابی وعدوں کی تکمیل میں وہ ناکام کیوں ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ کانگریس نے 2004ء کے اپنے انتخابی منشور میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کرتے ہوئے مسلمانوں کی حمایت حاصل کی تھی اور دو مرتبہ ریاست آندھرا پردیش میں حکومت تشکیل دی۔ 2004ء سے کانگریس کو حکومت کے لئے 10برس ملے مگر اس نے مسلم حمایتیوں اور ان کے مسائل کو فراموش کردیا۔ یہ دراصل یاددہانی کا مکتوب ہے جس میں غیر تکمیل شدہ وعدوں کو پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلم رائے دہندوں کے شعور کو بیدار کرنے اور کانگریس کے قائدین سے جواب طلب کرنے کی کوشش کی گئی یہ۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ 2012-13کا بجٹ 1027 کروڑ کا اعلان ہوا مگر تاحال صرف 305 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ مابقی رقم مارچ 2014ء تک واپس ہوجائے گی۔ غریب مسلمانوں کیلئے اعلان کردہ مختلف اسکیمات پر عمل آوری نہیں ہوگی۔ گذشتہ چار برس تعمیراتی اور نظم و نسق کی منظوری کی خاطر 32مسلم بوائز اینڈ گرلز ہاسٹلس ( پوسٹ اینڈ پری میٹرک ) پینڈنگ میں ہیں۔کریم نگر مسلم گرلز ہاسٹلس 50لڑکیوں کے ساتھ گذشتہ 6برس سے چلایا جارہا ہے جہاں پینے کے پانی، بستر، چار پائی اور میس کی بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔ لڑکیاں فرش پر خود پکوان کرنے اور سونے کیلئے مجبور ہیں۔ کریم نگر مسلم بوائز ہاسٹل کے گراؤنڈ کا حال رکن پارلیمنٹ کے MPLAD فنڈ سے تعمیر کیا گیا۔

ایک تہنیتی تقریب میں مسٹر پونم پربھاکر نے ہاسٹل کی عمارت کی تعمیر کو 2013-14 کے داخلوں سے قبل مکمل کرنے کا وعدہ بھی کیا اور ذمہ داری بھی قبول کی۔ بدقسمتی سے نہ تو ہاسٹل کی عمارت ہی مکمل ہوئی اور نہ ہی ریاستی حکومت کی جانب سے انتظامی منظوری دی گئی۔ غریب، بے زمین مسلمانوں میں 15فیصد زرعی اراضی تقسیم کرنے کے رہنمایانہ ہدایات ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران لاکھوں ایکر زرعی اراضی حکومت نے تقسیم کی مگر ایک فیصد بھی زمین غریب دیہی مسلمانوں میں تقسیم نہیں کی گئی۔ حالانکہ اس کوتاہی کا ریونیو منسٹر نے ایوان اسمبلی میں اعتراف بھی کیا لیکن افسوس ایک بھی مسلم امیدوار کو مارکٹ کمیٹیوں، لائبریریز ، کارپوریشنس وغیرہ کے عہدوں پر نامزد نہیں کیا گیا ، چاہے وہ ضلعی سطح پر ہو ریاستی سطح پر ہو۔ صرف بے فیض عہدے جیسے ڈائرکٹرز، ڈپٹی ڈائرکٹرز وغیرہ پر اعلانات کئے گئے جسے معصوم پارٹی کارکن قبول کرتے ہوئے کئی دہائیوں سے پارٹی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ بے شمار اردو میڈیم اسکول اور جونیر کالجس ٹیچنگ اسٹاف کے بغیر چلائے جارہے ہیں۔ تعلیم کا کوئی معیار نہیں، جس کی وجہ سے ہر سال ایس ایس سی کے لیول تک پچاس ہزار اردو میڈیم طلبہ تعلیم ترک کررہے ہیں۔ گذشتہ دس برس سے مائناریٹی ویلفیر ڈپارٹمنٹ میں اسٹاف کا تقرر نہیں ہوا۔ اضلاع اور ریاستی سطح پر فلاحی اسکیمات جیسے بینکوں کی سبسیڈیز،اسکیمس، ہاوزنگ اسکیمس، آنگن واڑی سنٹرس، پاولاوڈی اسکیمس، اجتماعی شادیوں، اسکالر شپس، فیس ری ایمبرسمنٹ وغیرہ پر عمل آوری کیلئے نہ تو مستقل بنیادوں پر تقررات ہوئے نہ ہی آؤٹ سورسنگ کی سہولت سے استفادہ کیا گیا۔ ضلع انتظامیہ نہ تو پروگرام پر عمل آوری کررہا ہے اور نہ ہی مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے سرکاری عہدیدار اور عوامی نمائندوں کے ماہانہ جائزہ اجلاس کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔

سینکڑوں مسلم شادی خانے، اردو گھر گذشتہ دس برس سے تعمیراتی اور دیگر قانونی تنازعات کی وجہ سے تعمیر نہ ہوسکے۔ غریب مسلمان مناسب سیکھ بھال اور انتظامیہ کے فقدان کی وجہ سے شادی خانوں کے استعمال سے قاصر ہیں۔ تحفظات کے قانون کے آؤٹ سورسنگ ایمپلائمنٹ میں بھی 4فیصد تحفظات کا جی او ہے مگر مختلف محکمہ جات میں ہزاروں آسامیاں نکالی گئی ہیں۔ تاہم بیشتر محکموں کی جانب سے 4فیصد مسلم تحفظات پر عمل آوری نہیں کی جارہی ہے۔ اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنے سے متعلق جی او پر عمل آوری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ کسی بھی سرکاری محکمہ پر جن میں کلکٹوریٹ بلڈنگ بھی شامل ہے اردو سائن بورڈ تک نظر نہیں آتے۔ ایسے چھوٹے بڑے کئی مسائل کو کانگریس کے منتخبہ ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ نے نظر انداز کردیئے۔ مختلف یاددہانیوں اور نمائندگیوں کے باوجود حکومت نے مسلمانوں کے کسی پروگرام کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ لہذا ذرا غور کریں کہ کیسے یہ پارٹی اگلے الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کی مستحق ہے۔