ظفر آغا
چند روز قبل دہلی کی ایک سرکاری تقریب میں عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ یہ تقریب کوئی معمولی تقریب نہیں تھی، اس میں ملک کے وزیر اعظم منموہن سنگھ، یو پی اے صدر نشین سونیا گاندھی اور اقلیتی امور کے وزیر رحمن خان موجود تھے۔ فنکشن کا تعلق قومی وقف بورڈ سے تھا، جس میں وزیر اعظم کی تقریر کے بعد دہلی کے فہیم بیگ نامی شخص نے ہنگامہ برپا کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اقلیتوں کے تعلق سے جن اسکیموں کا ذکر کیا ہے، اس کا فائدہ کم از کم دہلی کے علاقہ جعفر آباد میں بالکل نہیں ہوا، جب کہ اسکیم کے تحت اس علاقہ کی ترقی خاص طورپر ہونی چاہئے تھی۔
فہیم بیگ اسی علاقہ کے رہنے والے ہیں اور وہ اس سلسلے میں سو سے زائد خطوط وزیر اعظم کو لکھ چکے ہیں، لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ چند روز قبل جب انھیں اس تقریب میں جانے کا موقع ملا تو وزیر اعظم کی موجودگی میں انھوں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ظاہر ہے کہ فہیم بیگ بے حد غصے میں تھے اور انھوں نے وزیر اعظم کی تقریر کے بعد یکایک کھڑے ہوکر ہنگامہ برپا کردیا۔ پولیس نے تو اُن کو پکڑکر باہر کردیا، لیکن وزیر اعظم نے وہیں پر وزیر اقلیتی امور رحمن خان کو حکم دیا کہ آپ اس شخص سے مل کر اس کی شکایت رفع کریں۔ بعد ازاں فہیم نے ہندو اخبار کو بتایا کہ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ہماری بات وزیر اعظم تک پہنچی اور اب شاید اس سلسلے میں کچھ عمل بھی ہو۔
فہیم بیگم کا غصہ بالکل جائز تھا اور یہ غصہ صرف ان کا نہیں، بلکہ یہ اقلیتوں بالخصوص پوری مسلم قوم کا ہے، کیونکہ پچھلے 8، 9 برسوں سے مسلمانوں کے کان سچر کمیٹی رپورٹ اور اس کی سفارشات کے بارے میں سُن سُن کر پک چکے ہیں۔ پھر حکومت ہند نے مسلمانوں کی فلاح کے لئے ان سفارشات پر مبنی 15 نکاتی پروگرام کے تحت ایک ایکشن پلان بنایا اور اس پلان کے تحت بجٹ میں ہر سال کئی سو کروڑ روپئے (تقریباً 2400 کروڑ) سالانہ اقلیتوں کی فلاح کے لئے مختص کئے گئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بجٹ سے 24 روپئے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا غصہ حق بجانب ہے۔
واضح رہے کہ یو پی اے کو اقتدار مسلمانوں کی حمایت کی وجہ سے حاصل ہوا۔ 2004ء اور 2009ء کے عام انتخابات میں مسلمانوں نے اپنی متحدہ طاقت کے ذریعہ یو پی اے کو اقتدار تک پہنچانے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو یہ امید تھی کہ منموہن سنگھ حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی، تاہم مسلمانوں کا غصہ اس وقت مزید بڑھ گیا، جب وزیر اعظم نے اقلیتوں کی فلاح کے لئے 15 نکاتی پروگرام تو بنایا، لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں حاصل ہوا، تب ہی تو وزیر اعظم کی موجودگی میں فہیم بیگ آپے سے باہر ہو گئے۔
لیکن اس سے قبل کہ پوری مسلم قوم سچر کمیٹی سفارشات اور اس کے تحت بننے والی فلاحی اسکیموں کے تعلق سے کوئی جذباتی فیصلہ کرے، مسلمانوں کو اس تعلق سے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہئے۔ دراصل مسلمانوں کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر کسی اسکیم کا فائدہ کس طرح اُٹھایا جاسکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ مرکزی حکومت ملک کے کسی بھی طبقہ کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قانون یا اسکیم بنا سکتی ہے، پھر اس اسکیم پر عمل آوری کے لئے ملک کے بجٹ میں رقم مختص کرنا مرکزی حکومت کا کام ہے، لیکن اس اسکیم کو نافذ کرنا یا اس پر عمل آوری کے لئے پیسہ خرچ کرنا ریاستی حکومتوں کا کام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں یا اقلیتوں کے تعلق سے منموہن سنگھ حکومت کی جو ذمہ داری تھی، وہ اس نے نیک نیتی سے پوری کردی، یعنی آزاد ہندوستان میں پہلی بار 15 نکاتی پروگرام کے تحت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے نہ صرف اسکیمیں بنائی گئیں، بلکہ اس کے لئے کثیر رقم بھی بجٹ میں دی گئی۔ یہاں تک تو سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی ذمہ داری تھی، مگر اس کے بعد ان اسکیموں پر عمل آوری ریاستی حکومتوں کا کام ہے، جو دیانت داری سے نہیں ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ ریاستی حکومتوں کو کس طرح مجبور کیا جائے کہ وہ اقلیتی فلاحی اسکیموں کو رو بہ عمل لائیں؟۔ یہ کام محض عوام کے دباؤ پر ہوسکتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے سچر کمیٹی رپورٹ اور سفارشات کا نام تو سنا ہے، لیکن اس کے تحت کونسی فلاحی اسکیمیں بنائی گئی ہیں، اس کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کو تو جانے دیجئے، حد یہ ہے کہ مسلم ایم ایل ایز اور کارپوریٹرس کو بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ کونسی اسکیم مسلمانوں کی فلاح کے لئے بنی ہے۔ مثلاً فہیم بیگ، جنھوں نے وزیر اعظم کی تقریر میں ہنگامہ کھڑا کیا، ان کے علاقہ کا ایم ایل اے مسلمان ہے، جس کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے علاقہ کی ترقی کے لئے فنڈ حاصل کرتا۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم یا ان کے افسران مسلمانوں کے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاکر کسی اسکیم کی رقم پہنچانے تو نہیں جائیں گے؟۔ سب سے پہلے ہمیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اسکیمیں کیا ہیں اور ان کو کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پھر ہم کو اپنے ایم ایل ایز اور کارپوریٹرس پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ فلاں فلاں اسکیم کے تحت یہ فلاحی کام کرواؤ، ورنہ ہم اسی طرح کا ہنگامہ برپا کریں گے، جس طرح وزیر اعظم کی تقریر میں کیا گیا تھا۔
خدا بھلا کرے فہیم بیگ کا کہ جنھوں نے شور مچاکر مسلمانوں تک یہ خبر پہنچا دی کہ منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود کے لئے بہت ساری اسکیمیں بنائی ہیں، لیکن ان کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس لئے سچر کمیٹی سفارشات کو رو بہ عمل لانے کے لئے ہر مسلم علاقہ میں فہیم بیگ جیسے شخص کا ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ شور مچائے اور اپنے علاقہ کے ایم ایل اے اور کارپوریٹر پر دباؤ ڈال کر اقلیتی فلاح کے کام کروائے۔ واضح رہے کہ ایسا کام ڈاکٹر فہیم بیگ جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ سچر کمیٹی سفارشات پر حکومت نے تو اپنا کام کردیا، اگر ہم کو اس سے فائدہ حاصل کرنا ہے تو ہم کو فہیم بیگ جیسی شخصیت اور جدید قیادت کو سامنے لانا چاہئے، تاکہ وہ ہمارے حقوق کے لئے آواز بلند کریں، شور مچائیں اور سرکاری اسکیموں کا فائدہ ہم تک پہنچائیں۔