ڈاکٹر سید داؤد اشرف
اس مضمون میں بلبلِ ہند اور حیدرآباد کی مایہ ناز دختر سروجنی نائیڈو کے بارے میں حیدرآباد کی نمائندہ شخصیت جناب میر معظم حسین سے لئے گئے انٹرویو کا خلاصہ پیش ہے ۔ سروجنی نائیڈو کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں جناب معظم حسین کے تاثرات بیان کرنے سے قبل سروجنی نائیڈو کا مختصر تعارف مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
سروجنی نائیڈو چٹوپادھیائے 13 فروری 1879ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں ۔ وہ ممتاز سائنس داں اور ماہر تعلیم رگھوناتھ چٹوپادھیائے کی بڑی دختر تھیں ۔ انھوں نے بارہ سال کی عمر میں میٹریکولیشن امتحان کامیاب کیا ۔ مدراس پریسیڈنسی کے اس امتحان میں انھیں پہلا مقام حاصل ہوا تھا ۔ تقریباً اسی عمر میں انھوں نے انگریزی میں شعرگوئی کا آغاز کیا ۔ ریاست حیدرآباد کے چھٹے حکمران میر محبوب علی خان کی جانب سے ان کے نام انگلستان کی کسی ایک یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے لئے وظیفۂ تعلیمی درجۂ اول منظور کئے جانے پر وہ 1895ء میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان گئیں جہاں انھوں نے کنگس کالج اور کیمبرج گیرٹن کالج میں تعلیم حاصل کی مگر صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل نہ کرسکیں اور ستمبر 1898ء میں حیدرآباد واپس آگئیں ۔ انگلستان کے قیام کے دوران ان کا انگریزی کے ممتاز شاعر اڈمنڈگاس Edmund Gosse اور اہم ادبی نقاد آرتھر سائمنس Arthur Symons سے رابطہ قائم ہوا جنھوں نے ان کی ہمت افزائی کی اور انھیں قیمتی مشورے دیئے ۔ سروجنی نائیڈو کا پہلا شعری مجموعہ Golden Threshold ، 1905 ء دوسرا مجموعہ 1912 The Bird of Time اور تیسرا مجموعہ 1917 The Broken wing میں شائع ہوا ۔ ان کا برصغیر کی اہم اور نامور قومی شخصیتوں سے 1903 تا 1917ء کے دوران ربط ضبط اور تعلق پیدا ہوا اور تقریباً 1919ء سے خود ان کا شمار ملک کی اہم شخصیتوں میں کیا جانے لگا ۔ ہندو مسلم اتحاد ان کی زندگی کا نصب العین تھا جس کے لئے وہ زندگی بھر بے تکان کام کرتی رہیں ۔ وہ کانپور میں منعقدہ دسمبر 1925 ء کے سیشن میں آل انڈیا کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں ۔ انھوں نے آزادی کی تمام اہم تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ وہ متعدد بار گرفتار ہوئیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد انھیں اترپردیش کا گورنر مقرر کیا گیا ۔ ان کا 2 مارچ 1949ء کو 70 برس کی عمر میں انتقال ہوا ۔
سروجنی نائیڈو دانشور ، شاعر ، خطیب ، خواتین کے مفادات کی علمبردار اور سیاسی رہنما ہونے کے علاوہ انسان دوست ، بلند نظر ، وسیع القلب اور کھلا ذہن رکھنے والی خاتون تھیں ۔ وہ حیدرآباد کی محبوب اور ہردلعزیز شخصیت تھیں ۔ بہت کم شخصیتوں کو ایسی مقبولیت اور شہرت ملی ہوگی جیسی کہ سروجنی نائیڈو کو حاصل ہوئی تھی ۔ وہ ہر ایک پر پیار و محبت کے پھول نچھاور کرتی تھیں ۔ حیدرآباد میں ہر ایک سے ان کی راہ و رسم تھی جن میں غریب ، امیر ، رئیس ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد حتی کہ ریاست کے حکمران سب ہی شامل تھے ۔ وہ باصلاحیت نوجوانوں کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتی تھیں ۔ شاعروں ، ادیبوں اور فن کاروں سے ان کے خصوصی مراسم تھے ۔ ان کے مکان گولڈن تھرشولڈ کے دروازے سب کے لئے کھلے رہتے تھے ۔
سروجنی نائیڈو پر جناب معظم حسین کے انٹرویو کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔
معظم حسین نے انٹرویو کے آغاز میں بتایا کہ سروجنی نائیڈو اور ان کے خاندان میں تین پشتوں تک گہرے روابط رہے ۔ سروجنی نائیڈو اپنی کم سنی میں ان کے والد (رئیس جنگ) اور پھوپیوں کے ساتھ اسد باغ میں کھیل کود میں وقت گزارتی تھیں ۔ معظم حسین کے دادا نواب فخر الملک بہادر کا ان دنوں مستقل قیام اسد باغ (موجودہ نظام کالج اور مدرسہ عالیہ کی عمارتیں) میں تھا ۔ فخر الملک اور سروجنی کے والد اگھورناتھ چٹوپادھیائے اکثر اس کمرے میں بیٹھ کر سرکاری کام کی انجام دہی میں مصروف رہا کرتے تھے ، جو آج کل نظام کالج کے پرنسپل کا دفتر ہے ۔ فخرالملک کے خاندان میں سروجنی نائیڈو کو ایک فرد خاندان کی حیثیت حاصل تھی ۔ وہ فخر الملک کی صاحبزادیوں (معظم حسین کی پھوپیوں) کے ساتھ کھانا کھاتیں ، کافی وقت گزارتیں اور انھیں اصل نام کی بجائے پیار اور بے تکلفی کے نام سے پکارتی تھیں ۔ وہ معظم حسین کے والد کو کبھی بھی رئیس جنگ کہہ کر مخاطب نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ ان کو دیانت کہا کرتی تھی (رئیس جنگ کا اصل نام دیانت حسین تھا) ۔ رئیس جنگ اور سروجنی نائیڈو تقریباً ہم عمر تھے اور ان میں دوستانہ مراسم تھے وہ رئیس جنگ سے مذاق کرتیں اور چھیڑا کرتی تھیں ۔ جب رئیس جنگ مذاق کرتے تو سروجنی نائیڈو اس سے لطف اندوز اور محظوظ ہوتی تھیں ۔
فخر الملک کے گھرانے سے سروجنی نائیڈو کے ایسے گہرے مراسم پر راقم الحروف کو گاندھی جی کے وہ جملے یاد آئے جو انھوں نے اپنے مضمون Sarojini the Singer میں لکھے تھے ۔ گاندھی جی نے لکھا تھا ’’جتنے مسلمانوں کو میں قریب سے جانتا ہوں اس کے مقابلے میں سروجنی زیادہ مسلمانوں سے بہت قریب سے واقف ہے ۔ ان مسلمانوں کے گھروں میں ان کے لئے جو اپناپن پایاجاتا ہے میں اپنے لئے ایسی اپنائیت کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘‘ ۔
جناب معظم حسین نے سروجنی نائیڈو کی خطابت کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سروجنی نائیڈو ادھیڑ عمر میں جاذب نظر اور پرکشش نہیں تھیں لیکن جب وہ اسٹیج پر کھڑی ہوتیں اور تقریر کا آغاز کرتیں تو انھیں محسوس ہوتا کہ دنیا میں سروجنی نائیڈو سے زیادہ حسین خاتون کوئی اورنہیں ۔ معظم حسین کے بیان کے مطابق سروجنی نائیڈو کی تقریر کے دوران سماں بندھ جاتا تھا ۔ ان کی زبان ، استعارے ، تشبیہات ، ان کے حرکات و سکنات ، خیالات کی پیشکشی کا انداز ۔ یہ تمام چیزیں سامعین کے تخیل اور احساسات کے تاروں کو جھنجھنادیتی تھیں ۔ یہ سب ان کی شخصیت کا سحر تھا ۔ مقرر اور سامع کے مابین جو تعلق اور رشتہ پیدا ہوتا تھا ، اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ سروجنی نائیڈو کی تقریر الفاظ ، خیالات اور شاعری کے مجموعے کا معجزہ ہوا کرتی تھی ۔ جب سامعین تقریر کے ختم ہونے پر ہال سے باہر نکلتے تو وہ خود کو نشے میں مخمور پاتے ۔ وہ اپنی تقریر سے سامع کے عزم اور حوصلے کو بلند کرتی تھیں ۔ ان کی تقریر سننے والا وطنیت کا جوش اور ولولہ لے کر اٹھتا تھا اور یہ کیفیت خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں پر طاری ہوتی تھی ۔
جناب معظم حسین سے سروجنی نائیڈو کی انگریزی شاعری پر اظہار خیال کرنے کی خواہش پر انھوں نے کہا کہ سروجنی نائیڈو کی انگریزی شاعری پر انیسویں صدی کے رومانی شاعروں کا اثر ہے خصوصاً کیٹس اور شیلی کی شاعری کا ۔ سروجنی نائیڈو کی شاعری میں جو رنگ ہے وہ ہندوستانی ہے ۔ ان کا انسپریشن اور تخیل ہندوستان کے پرانے شاعروں اور ہندوستانی فلسفے سے متاثر ہے لیکن انگریزی زبان میں فکر سخن کرنے کی وجہ سے ان کی زبان کیٹس اور شیلی کی شاعرانہ زبان سے متاثر ہے ۔ ایرانیوں کی رائے ہندوستان کے فارسی شعراء کے بارے میں بڑی جانب دارانہ ہے ۔ اسی طرح انگریز بھی دوسرے ملکوں کے انگریزی شاعروں کو کم تر درجے کے شاعر سمجھتے ہیں ۔ لیکن انگلستان میں چند اہم شخصیتیں ایسی بھی تھیں جو سروجنی نائیڈو کے جوہر کو پہچانتی تھیں ۔ انھوں نے سروجنی نائیڈو کی بہت ہمت افزائی کی اور حوصلہ بڑھایا ۔ ان میں اڈمنڈ گاس اور آرتھر سائمنس کے نام قابل ذکر ہیں ۔ معظم حسین نے سروجنی نائیڈو کی شاعری کے بارے میں اڈمنڈ گاس کی یہ رائے سنائی۔
Indeed, she is the most brilliant, the most original as well as the most correct of all the natives of Hindustan, who have written in English.
جناب معظم حسین نے سروجنی نائیڈو سے اپنی آخری ملاقات کا یادگار واقعہ بیان کیا ۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔
جناب معظم حسین ریاست حیدرآباد میں ایک اعلی خدمت پر فائز تھے ۔ انھیں لارڈ ویول وائسرائے ہند کی ایما پر 1946 ء میں گجرات کی ریاست ڈانگس کا دیوان مقرر کیا گیا تھا ۔ حکومت برطانوی ہند کے امور خارجہ کے سکریٹری نے 15 اگست 1947ء سے صرف چند روز قبل جناب معظم حسین کو بلا کر کہا کہ انھیں حیدرآباد واپس جانا ہوگا کیونکہ ریاست ڈانگس بمبئی پریسیڈنسی میں ضم کی جانے والی ہے ۔ حکومت ہند اور حکومت ریاست حیدرآباد کے مابین طے شدہ شرائط کے مطابق جناب معظم حسین کی خدمات ریاست حیدرآباد سے ریاست ڈانگس کے دیوان کے عہدے کے لئے ، حکومت ہند کو تین سال کے لئے مستعار دی گئی تھیں ۔ تین سال کی مدت سے قبل علاحدگی کی صورت میں فریقین کو چھ ماہ کی نوٹس دینا ضروری تھا ۔ جناب معظم حسین نے اچانک ملازمت سے علاحدہ کئے جانے کی اطلاع ملنے پر طے شدہ شرائط کی تکمیل پر اصرار کیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ اس مرحلے پر ان کی اہلیہ محترمہ مہرالنساء نے سروجنی نائیڈو سے ملنے اور مدد کی درخواست کرنے کی تجویز پیش کی ۔ چنانچہ دونوں ملاقات کی غرض سے برلا ہاؤس پہنچے جہاں سروجنی نائیڈو بستر علالت پر دراز تھیں اور قریب کے میز پر کتابوں کا ڈھیر تھا ۔ جناب معظم حسین نے ان سے سارا معاملہ بیان کیا ۔ سروجنی نائیڈو نے انگریزوں کی ملازمت کرنے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان سے (سروجنی نائیڈو) ربط نہ رکھنے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ سروجنی نائیڈو نے کچھ دیر بعد ناراضگی کے کم ہونے پر دریافت کیا کہ اب وہ کیا کرسکتی ہیں ۔ معظم حسین نے کہا کہ وہ اس پریشانی کے موقع پر بڑی امید اور اعتماد کے ساتھ ان کے پاس آئے ہیں ۔ سروجنی نائیڈو نے ٹیلیفون پر راست سردار پٹیل سے گفتگو کی اور کہا کہ سردار میں آپ کے پاس ایک نوجوان کو بھیج رہی ہوں جو میرے اپنے بیٹے کے مانند ہے ۔ اس کے ساتھ برا برتاؤ کیا گیا ہے ۔ آپ خیال رکھیں کہ اس نوجوان کے ساتھ انصاف ہو ۔ آگے مجھے نتائج سے آگاہ کیا جائے تو میں ممنون رہوں گی ۔ سردار پٹیل نے معظم حسین کو فوراً اپنے پاس بھیجنے کے لئے کہا ۔ وہ فوراً سردار پٹیل کے مکان کوٹھی نمبر ۱ اورنگ زیب روڈ پہنچے جہاں انھوں نے سردار پٹیل کے پرائیوٹ سکریٹری شنکر آئی سی ایس کو اپنا منتظر پایا ۔ سردار پٹیل نے معظم حسین سے کہا کہ وہ فوراً بمبئی روانہ ہوجائیں اور نئے چیف منسٹر بی جی کھیر سے ملیں جنھیں فون پر ان کی ملازمت کی کارروائی کا طے شدہ شرائط کے مطابق تصفیہ کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں ۔ سردار پٹیل کے کہنے پر وہ بمبئی روانہ ہوئے ۔ 15 اگست 1947ء کو وہ بمبئی میں تھے ۔ بی جی کھیر کی دعوت پر انھوں نے برابورن اسٹیڈیم میں منعقدہ جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کی ۔ جناب معظم حسین کے مطابق بمبئی کی جشن آزادی کی تقریب ان کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ اور تجربہ ہے ۔ دوسرے روز وہ سکریٹریٹ گئے جہاں بی جی کھیر برے پرتپاک انداز میںملے مگر انھوں نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ نظام (آصف سابع) کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہوئی ہیں اس کے نتیجے میں ان کی ملازمت برقرار نہیں رکھی جاسکتی ۔ تاہم ملازمت کی شرائط کے مطابق انھیں چھ ماہ کی نوٹس کے عوض مکمل معاوضہ ادا کردیا گیا جسے معظم حسین اپنے لئے سروجنی نائیڈو کی جانب سے محبت کا آخری تحفہ سمجھتے ہیں ۔
بات چیت کے آخر میں سروجنی نائیڈو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جناب معظم حسین نے کہا کہ سروجنی نائیڈو کی بے مثال شخصیت کا کسی سے تقابل ممکن نہیں ۔ کوئی سیاست کے میدان میں آگے ہے تو کوئی انگریزی شاعروں میں لیکن سروجنی نائیڈو میں جتنی خوبیاں موجود تھیں وہ کسی اور میں نہیں ملیں گی ۔ ’’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سے کہیں جسے‘‘ ۔ اس بات کا ملک کی جس شخصیت پر سب سے زیادہ اطلاق ہوسکتا ہے وہ شخصیت کوئی اور نہیں سروجنی نائیڈو کی ہے‘‘ ۔
(تفصیلی مضمون کا خلاصہ)