سرواسکھشا ابھیان مدارس کے نام دھاندلیوں میں مخصوص گروہ ملوث

سرکاری رقومات کا تغلب ،بہت جلد فرضی مدارس منظر عام پر ، تحقیقات میں مزید وسعت
حیدرآباد۔31اکٹوبر (سیاست نیوز) سروا سکھشا ابھیان میں مدارس کے نام پر کی گئی دھاندلیوں میں مخصوص گروہ کے ہاتھ ہونے کا انکشاف ہو چکا ہے اور بہت جلد ودیا والینٹرس کے نام پر سرکاری رقومات کے تغلب کے ذمہ دار فرضی دینی مدارس کے نگران کے نام منظر عام پر آئیں گے جنہوں نے ایک ہی ودیا والینٹر کا ایک ہی کھاتہ میں ایک سے زائد مدارس میں بحیثیت استاذ اندراج کرواتے ہوئے کئی ماہ کی تنخواہیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔حیدرآباد کے فرضی دینی مدارس کی تحقیقات اب ضلع رنگا ریڈی تک وسعت حاصل کر چکی ہے۔ایس ایس اے کے عہدیداروں نے بتایا کہ اب تحقیقات کا دائرہ کار وسعت حاصل کرنے کے بعد نیا طریقۂ کار بھی سامنے آیا ہے۔ ودیا والینٹرس کے ناموں اور ان کے اسناد کی تحقیق اور ان کے بینک کھاتوں کی تفصیل سے بات سامنے آئی ہے کہ کئی دینی مدارس کے ذمہ دار خود کسی مدرسہ میں ودیا والینٹرس کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور بعض ودیا والینٹرس کے اسناد و کھاتوں کا ایک سے زائد مدارس میں استعمال کیا جانے لگا ہے اور اس حقیقت سے بیشتر عہدیدار بھی واقف تھے لیکن ان کے ساتھ سازباز اور ان کی پشت پناہی کے سبب ہی یہ ممکن ہو پایا ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے ایسے دینی مدارس کی بھی شناخت عمل میں لائی جا چکی ہے جنہوں نے حیدرآباد کے علاوہ ضلع رنگاریڈی میں بھی اسی فرضی مدرسہ کا اندراج کروایا ہے جس مدرسہ کا اندراج پہلے سے ہی حیدرآباد میں کیا جا چکا ہے ۔ خاتون ودیا والینٹرس کے ناموں کا غلط استعمال کرتے ہوئے کئی مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہی طالبات کو ہی اساتذہ کی حیثیت سے ایس ایس اے میں درج کروانے کے علاوہ قریبی رشتہ داروں کے ناموں کے اندراج اور انہی ودیا والینٹرس کے ایک سے زائد مقامات پر اندراج کرواتے ہوئے ایس ایس اے کی جانب سے دینی مدارس کو جاری کئے جانے والے رقومات حاصل کئے جانے کے ثبوت بھی محکمہ تعلیمات کے عہدیدار حاصل کرچکے ہیں۔ سروا سکھشا ابھیان کے ذریعہ دینی مدارس کو ودیا والینٹرس کی تنخواہوں کی اجرائی کے معاملہ میں ہوئے تغلب کے انکشافات میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اب تک جن مدارس کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں وہ بیشتر فرضی ہیں اور ان میں تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے یا پھر مدارس کے نام پر دھوکہ دہی کرنے والے ہیں بعض معروف دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس بات کی اطلاع بھی نہیں ہے کہ ان کے مدارس کے نام سرواسکھشا ابھیان میں درج ہیں اور ان کے مدارس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو سرکاری تنخواہیں بھی وصول ہوتی ہیں۔ محکمہ تعلیمات کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ فرضی مدارس کے خلاف کاروائی میں حائل سیاسی رکاوٹیں اب دور ہو چکی ہیں کیونکہ بعض سیاسی قائدین کو یہ تاثر دیا جانے لگا تھا کہ مسلم اداروں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے لیکن اب انہیں اس بات سے واقف کروایا جا چکا ہے کہ یہ کاروائی کسی مخصوص ادارے کے خلاف نہیں ہے بلکہ جن لوگوں نے تغلب کیا ہے ان کے خلاف حکومت کی جانب سے کی جانے والی کاروائی ہے اور اس کاروائی کے دوران حکومت اپنے ان عہدیداروں کو بھی معطل کرچکی ہے جو لوگ ان دھاندلیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔