سرسی وی رامن کی قائم کردہ سائنس اکیڈیمی ریاست حیدرآباد کا مالی تعاون

آرکائیوز کے ریکارڈ سے    ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سری وی رامن برصغیر ہندوستان کے عظیم المرتبت سائنس داں تھے ۔ انہیں 1930 ء میں نوبل پرائز حاصل ہوا تھا اور فادر آف انڈین سائنس کا اعزاز بھی دیا گیا تھا ۔ سائنس داں کی حیثیت سے انہوں نے ساری دنیا سے اپنے آپ کو منوالیا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیش بہا سرگرمیوں کیلئے ریاست حیدرآباد کی حکومت سے مدد اور اعانت حاصل کی تھی ۔ حکومت ریاست حیدرآباد نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ ان کی طرف دست تعاون بڑھایا تھا ۔انتہا یہ ہیکہ پولیس ایکشن سے پہلے عبوری مدت میں نام نہاد آزاد حیدرآباد کی جو حکومت قائم کی گئی تھی اس حکومت نے بھی اس عظیم سائنس داں کی قدر و منزلت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور ان کے سائنسی ادارے کی مسدود شدہ امداد کو بحال کرتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ جس انڈین اکیڈیمی آف سائنس کی امداد کے بارے میں یہ مضمون قلم بند کیا جارہا ہے اسے سرسی وی رامن نے 1934 ء میں قائم کیا تھا اور وہ تاحیات اس کے صدرنشین رہے ۔ ان کا انتقال 1970 ء میں ہوا۔

سرسی وی رامن اور حکومت حیدرآباد کے تعلقات اور باہمی ابطہ کا اندازہ اس جلیل القدر سائنس داں کے ان خطوط سے ہوتا ہے جو انہوں نے حکومت حیدرآباد کو لکھے تھے ۔ انہوں نے اپنے پہلے مکتوب میں انڈین اکیڈیمی آف سائنس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی تھی ۔ ان کے خطوط سے برصغیر ہندوستان میں سائنس کے ارتقاء اور اس مقصد کیلئے اس زمانے میں علمی و سائنسی سطحوں پر جو سرگرمیاں جاری تھیں ان کی تفصیلات کا بھی علم ہوتا ہے ۔ سرسی وی رامن ان سرگرمیوں میں روح رواں کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ان کی اور اس ادارے کی جو قدر و منزلت بیرونی دنیا میں تھی اس کا تذ کرہ بھی ان خطوط میں ملتا ہے ۔ان کے ایک خط سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ سرسی وی رامن نے اپنے تین ماہ کے قیام کے دوران عثمانیہ یونیورسٹی میں سائنس کے تحقیقی موضوعات پرچالیس (40) لکچر دیئے تھے ۔ ان خطوط اور ان کی بنیاد پرکئے گئے حکومت حیدرآباد کے اقدامات سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ حکومت حیدرآباد کی نظر مستقبل پر تھی اور سا ئنس کی ترقی کے ذریعہ سارے برصغیر کی ترقی میں اپنے اہم حصہ کا بھی اس حکومت کو پوری طرح احساس اور اندازہ تھا ۔
انڈین اکیڈیمی آف سائنس کو مالی مدد جاری کرنے کے سلسلے میں سرسی وی رامن نے جو خطوط لکھے تھے اور ان کی بنیاد پر حکومت حیدرآباد نے 1936 ء سے 1948 ء تک (1947 ء کو چھوڑ کر ) جو امداد جاری کی تھی ، اس کارروائی کی تفصیلات مسلوں (files) کی شکل میں تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے ذخیرے میں محفوظ ہیں جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔
سرسی وی رامن ، صدرنشین انڈین اکیڈیمی آف سائنس بنگلور نے 1935 ء میں اپنے ایک مکتوب کے ذریعہ اس اکیڈیمی کو حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے مستقل امداد جاری کرنے کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ گزشتہ بیس سال کے عرصہ میں ہندوستان میں سائنس کی تحقیقات میں نمایاں ترقی ہوئی ہے اور سائنس سے متعلق کئی سوسائٹیاں قائم ہوئیں اور سائنس کے موضوعات پر متعدد کتابیں لکھی گئیں لیکن ہندوستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں تھا جہاں سائنس کے جملہ شعبہ جات کی نمائندگی ہوسکے اور جہاں تمام ہندوستان کے سائنس داں جمع ہوکر اس طریقہ پر عمل پیرا ہوسکیں جس طرح یوروپ کے سائنس کے ادارہ جات گزشتہ دو سو سال سے عمل کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں اس قسم کے ایک ادارے کی سخت ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس بارے میں ہند وستان کے اہم اور ممتاز سائنس دانوں کی جب رائے لی گئی تو اکثر نے اس کے قیام سے اظہار اتفاق کیا ۔ چنانچہ انڈین اکیڈیمی آف سائنس کے نام سے ایک ادارہ 24 اپریل 1934 ء کو رجسٹر کرایا گیا ۔ اس اکیڈیمی کے قیام کی غرض و غایت وہی ہے جو برطانیہ کی رائل سوسائٹی اور اس قسم کے دیگر سوسائٹیوں کی ہے ۔ اس کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ سائنس داں یہاں جمع ہوکر سائنس سے متعلق  موضوعات پر مباحثے میں حصہ لیں اور ہر ماہ باقاعدہ طور پر سائنس کی نسبت اہم مقالے پیش کریں۔ اس کی وجہ سے سائنس کی ترقی کا علم عام سائنس داں اشخاص کو ہوسکتا ہے ۔ جملہ شعبہ جات میں کام کرنے والے ایک دوسرے کے کام سے واقف ہوسکتے ہیں اور عام مفاد کیلئے ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں۔ اس اکیڈیمی کی سرگرمیوں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ اس اکیڈیمی کے اراکین جواہم تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں اسے عوام تک رسائل کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے اور ان رسائل کی وجہ سے دیگر ممالک کے سائنس دانوں سے بھی روابط استوار ہوتے ہیں ۔ ہندوستان میں جو سائنس کی ترقی ہورہی ہے بیرونی دنیا کو اس کی آگاہی دینے میں اس ادارے کے Proceedings ایک وسیلہ کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس مکتوب میں مزید بتایا گیا کہ ایک سال کے عرصہ میں اس اکیڈیمی نے نمایاں ترقی کی ۔ اس اکیڈیمی کے قواعد کے لحاظ سے اس کے اراکین کی تعداد جو دو سو مقرر تھی وہ اب تقریباً پوری ہوگئی ہے اور اس کے موجودہ اراکین ہندوستان کے ہر حصے سے تعلق رکھتے ہیں اور سائنس کے جملہ شعبہ جات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس اکیڈیمی کے لئے مہاراجہ میسور نے دس ایکڑ اراضی مرحمت کی ہے ۔ اس کے علاوہ سالانہ تین ہزار کی گرانٹ بھی ان کی طرف سے دی جارہی ہے ۔ کونسل آف دی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس نے بھی اکیڈیمی کو سالانہ دو ہزار روپئے بطور امداد دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔ اس اکیڈیمی کے جملہ اخراجات کا اندازہ پچیس ہزار روپئے سالانہ کیا گیا ہے لیکن اس کی مجموعی سالانہ آمدنی صرف چودہ ہزار روپئے ہے اس طرح آمدنی کے مقابلے میں سالانہ گیارہ ہزار کے زائد مصارف عائد ہورہے ہیں۔ سرسی وی رامن نے اکیڈیمی کا تفصیلی تعارف کرانے اور اس کا مالی موقف بتانے کے بعد یہ توقع ظاہر کی کہ یہ اکیڈیمی سائنس کی ترقی کیلئے جو خدمات انجام دے رہی ہے اس کے پیش نظر حکومت ریاست حیدرآباد اس کی امداد کیلئے دو ہزار روپئے سالانہ یا کوئی مناسب رقم منظور کرے گی ۔ یہ کارروائی محکمہ جات سیاسیات ، تعلیمات اور فینانس کے مشوروں کے ساتھ باب حکومت میں پیش کی گئی جہاں بالا اتفاق طئے پایا کہ انڈین اکیڈیمی آف سائنس بنگلور کو فی الحال دو سال کیلئے دو ہزار کلدار سالانہ کا چندہ دیا جانا مناسب ہے ۔ صیغہ سیاست کی ایک عرض داشت مورخہ 28 اپریل 1936 ء میں سرسی وی رامن کے مکتوب کا خلاصہ اور باب حکومت کی قرارداد درج کر کے اسے آصف سابع کے ملاحظے اور احکام کیلئے روانہ کیا گیا ۔ آصف سابع نے کونسل کی رائے منظور کی اور اس بارے میں حسب ذیل فرمان مورخہ 2 جون 1936 ء صادر ہوا۔

’’کونسل کی رائے کے مطابق اس اکیڈیمی آف سائنس کو ہماری اسٹیٹ کی جانب سے دو ہزار کلدار سالانہ چندہ دیا جائے ‘‘۔ ریاست حیدرآباد کی جانب سے دو ہزار روپئے سالانہ چندہ دینے کی منظوری کی اطلاع اکیڈیمی کے صدرنشین سرسی وی رامن کو دی گئی جس پر انہوں نے مکتوب مورخہ 6 جولائی 1936 ء موسومہ معتمد تعلیمات کے ذریعہ اپنی جانب سے اور اکیڈیمی کی کونسل کی جانب سے آصف سابع کی خدمت میں مودبانہ شکریہ ادا کرنے کی استدعا کی۔ مذکورہ بالا فرمان کی تعمیل میں اکیڈیمی کو دو ہزار کلدار سالانہ چندہ دو سال تک دیا جاتا رہا ۔ اس مدت کے ختم ہونے پر سرسی وی رامن نے اپنے ایک مکتوب موسومہ معتمد فینانس کے ذریعہ درخواست کی کہ رقمی امداد جو دو سال کی مدت کیلئے جاری ہوئی تھی اس میں مزید توسیع کی جائے ۔ اکیڈیمی میں بڑی تعداد میں معیاری مضامین بغرض اشاعت وصول ہورہے ہیں ۔ مضامین کی طباعت کیلئے اکیڈیمی کو مالیہ کی سخت ضرورت ہے ۔ اگر حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے فیاضانہ عطیہ کو بحال کیا جائے تو اکیڈیمی اپنی سرگرمیوں اور عملی جدوجہد کو برقرار رکھ سکے گی ۔ اس مکتوب پر باب حکومت نے اکیڈیمی کوایک ہزار کلدار سالانہ کی مدد مزید دو سال تک دینے کی سفارش کی اور آصف سابع نے کونسل کی رائے کے مطابق امداد کی منظوری دے دی ۔ اس طرح سرسی وی رامن کے خطوط کی بنیاد پر اکیڈیمی کی ایک ہزار کلدار سالانہ کی امداد میں توسیع کا سلسلہ 1946 ء تک جاری رہا ۔ 1947 ء میں اکیڈیمی کی امداد مسدود کردی گئی جس پر سرسی وی رامن نے اپنے مکتوب مورخہ 8 جون 1948 ء موسومہ میر لائق علی ، صدر اعظم ریاست حیدرآباد میں لکھا کہ انہوں نے ایک درخواست مورخہ 4 ستمبر 1947 ء معتمد تعلیمات کے نام روانہ کی تھی جس میں انہوں نے اکیڈیمی کی امداد کو مزید تین سال 1947 ء تا 1949 ء جاری رکھنے کی استدعا کی تھی لیکن معتمد تعلیمات کی جانب سے انہیں یہ اطلاع دی گئی کہ اکیڈیمی کو مزید مدت کیلئے مدد فراہم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ سرسی وی رامن نے اپنے مکتوب موسومہ میر لائق علی ، صدر اعظم میں لکھا کہ حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے 1936 ء سے امداد جاری تھی جس سے اکیڈیمی کی سرگرمیوں میں بڑی اعانت ہوئی تھی ۔ مسدودی امداد کی اطلاع یقینی طور پر حوصلہ شکنی کا باعث ہوئی ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اکیڈیمی کی مساعی کے نتائج کی بناء پر اس کو بین الاقوامی مرتبہ حاصل ہوگیا ہے ۔ اس اکیڈیمی کی Proceedings عملی طور پر دنیا کی ہر سائنس کی لائبریری میں جگہ پاتی ہیں اور ان میں جو مضامین شائع ہوتے ہیں، انہیں دیگر ممالک کے سائنس کے موقر رسالے اکثر و بیشتر حوالے کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔ حیدرآباد سے بھی کئی مضامین ان Proceedings میں شائع ہو چکے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ بھی حیدرآبادیوں کے اچھے اور معیاری مضامین شائع ہوں گے ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ دو سال قبل وہ عثمانیہ یونیورسٹی کی دعوت پر حیدرآباد آئے تھے اور یونیورسٹی کیمپس میں تین ماہ کے لئے قیام کیا تھا ۔ اس عرصہ میں انہوں نے سائنس کے موضوعات پر 40 لیکچر دیئے تھے ۔ انہیں توقع تھی کہ اس سے حیدرآباد میں سائنس کی تحقیق اور ترقی میں مدد ملے گی ۔ امداد کی مسدودی کی اطلاع نے انہیں سخت مایوس کیا ۔ آخر میں انہوں نے نہ صرف امداد کی بحالی بلکہ اکیڈیمی کی سرگرمیوں میں ترقی کیلئے امداد میں اضافے کی بھی درخواست کی۔
سرسی وی رامن کے اس مکتوب پر باب حکومت کے اجلاس منعقدہ 21 جون 1948 ء میں غور کیا گیا اور طئے پایا کہ سال حال ا یک ہزار کی امداد زائد از موازانہ اجراء کردی جائے ۔ میر لائق علی ، صدر اعظم نے ایک عرضداشت مورخہ 35 جولائی 1948 ء میں تمام تفصیلات درج کرکے اسے آصف سابع کے ملاحظے کیلئے پیش کیا ۔ اس بارے میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 15 اگست 1948 ء صادر ہوا تھا اس کا متن درج ذیل ہے۔
’’کونسل کی رائے کے مطابق مذکور  سائنس اکیڈیمی کو سال حال ایک ہزار کلدار کی امداد دی جائے اور اس کی اجرائی زائد از موازنہ کی جائے‘‘۔