سرسید احمد خاں کا تاریخی شعور

ڈاکٹر حبیب نثار
اردو ادب کی تاریخ میں چند ہی ادیب ایسے ہیں جن کا نام لیتے ہی انسانی نطق زبان کے بوسے لینے لگتا ہے ۔ سید احمد ایک ایسا ہی نام ہے ۔
سید احمد خاں نے آرام و آسائش کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ دہلی کی سرزمین جسے میر نے عالم میں انتخاب کہا تھا ، اب بھی تہذیب و تمدن کا اعلی نمونہ بنی ہوئی تھی ۔ میرؔ نے ماندگی کا وقفہ اختیار کرلیا تھا لیکن مومن ، ذوق اور غالب کے کلام سے دہلی کی فضا معمور تھی ۔ یہ ماحول تھا کہ مغل شہنشاہ اکبر شاہ کے دوست اور مغل دربار کے منصب دار میر متقی کے گھر 5 ذی الحجہ 1232ھ م 17 اکتوبر 1817ء کو جس بچے کی پیدائش ہوئی اسے سید احمد کے نام سے منسوب کیا گیا ۔
سرسید احمد خاں کی اکیاسی برس کی زندگی کو ہم چار برابر ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
(۱) 1817 تا 1837ء : اس پہلے دور میں سید احمد نے بچپن بتایا ، تعلیم حاصل کی ۔ اسی عہد میں دہلی کے علماء ، شعراء اور مغل دربار کی فضاؤں میں ان کی ذہنی نشو و نما ہوئی ۔ غالب سے متاثر ہوئے ۔ امام بخش صہبائی کے فیض صحبت سے اسلاف کے کارناموں کو جمع کرنے کا خیال پیدا ہوا ۔
۲ ۔ 1837 تا 1857: اس زمانے میں انہوں نے ملازمت اختیار کی ۔ انگریزی آقاؤں کے درمیان مشرقی و مغربی اقدار کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ ملازمت نے معاش سے فراغت مہیا کی تھی ۔ تصنیف و تالیف پر توجہ کی ، چنانچہ ان بیس برسوں میں انہوں نے چھوٹی بڑی تقریباً بارہ کتابیں تصنیف کیں ، تدوین کیں اور شائع کیں جن میں چار تاریخ سے متعلق ہیں ۔
(۱) جام جم 1840ء
(۲) آثار الصناید 1847ء
(۳) سلسلتہ الملوک 1852ء
(۴) تصحیح آئین اکبری 1855ء

(۳) 1857 تا 1877ء : سید احمد کی زندگی کے یہ بیس برس ان کی ذہنی و فکری ارتقاء کے ساتھ ساتھ انتہائی فکری کشمکش میں گذرے ۔ اسی عرصۂ زندگی میں ان کے تاریخی شعور نے سیاسی شعور کو بلوغت عطا کی ۔ اسی عہد میں سید احمد نے قومی خدمات کا بیڑا اٹھایا ، جس کی بنیاد تعلیم کو قرار دیا ۔ اس زمانے میں انھوں نے تاریخ بجنور ، سرکشی ضلع بجنور ، اسباب بغاوت ہند ، تصحیح تاریخ فیروز شاہی اور تصحیح تزک جہانگیری وغیرہ شائع کیں ۔ سید احمد خاں کی زندگی کے یہ بیس برس قوم کی فلاح و بہبود اور حکمراں طبقے اور مسلمانوں کے درمیان موجود اختلافات اور دوریوں کو ختم کرنے میں صرف ہوئے ۔ اسی عرصہ حیات میں انہوں نے یوروپ کا سفر اختیار کیا ۔ تہذیب الاخلاق کا خاکہ تیار کیا اور خطبات احمدیہ لکھی ۔
(۴) 1877 تا 1898 ء : سرسید احمد خاں کی زندگی کے یہ اکیس برس وہ ہیں جب انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی سیاسی مستقبل کے ساتھ ساتھ اردو کی بقا کے لئے ٹھوس کارنامے انجام دیئے اور ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی راہ کا تعین بھی کیا اور روشن بھی کیا ۔
سید احمد خاں کی جملہ تاریخی کتابوں کو ہم دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ایک ماضی اور ماضی بعید پر لکھی گئیں ، تاریخی کتابوں کی تدوین و تصنیف اور دوسرے ماضی قریب اور عصری حسیت و سیاسی پر مشتمل تاریخی تصانیف ۔ پہلے زمرے میں ۹ تصانیف (جام جم ، آثار الصنادید ، سلسلتہ الملوک ، تصحیح آئین اکبری ، تاریخ بجنور ، تصحیح تاریخ فیروز شاہی ، تصحیح تزک جہانگیری ، خطبات احمدیہ اور ازدواج مطہرات) دوسرے زمرے میں سرسید نے صرف دو تصانیف (سرکشی ضلع بجنور اور اسباب بغاوت ہند) لکھی ہیں ۔
جام جم سید احمد خاں کی پہلی تاریخی تصنیف ہے جسے انھوں نے 1840ء میں آگرہ سے شائع کیا ۔ جام جم کے آغاز 1801ھ م 1298ء کی ابتداء میں تاریخی واقعات بیان کئے گئے ہیں جو دہلی میں تیمور کی آمد کا سال ہے اور اس کا اختتام بہادر شاہ ظفر کے سال جلوس 1837ء پر ہوا ہے ۔ اس کے دیباچہ میں سید احمد خاں نے خاندان گورگانیہ اور دارالخلافہ دہلی کے بارے میں تمہیدی کلمات کے بعد اس رسالے کی افادیت پر روشنی ڈالی ہے (جام جم فارسی میں لکھا گیا ہے اور اس پر ان کے بڑے بھائی سید محمد کا نام بھی موجود ہے) دیباچہ کے اقتباس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو :
’’سید احمد خاں نے شاہان سلف (قدیم) اور ان کی اولاد کے حالات بطور جدول لکھے ہیں تاکہ موجودہ اور آئندہ نسل اس کے مطالعہ کے بعد اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو اور آسانی سے ضروری مقصد تک پہنچ سکے‘‘ ۔

جام جم کے خاتمہ میں مصنف نے مزید یہ امید ظاہر کی ہے کہ تلاش وسعی کے بعد فراہم کردہ مواد سے لوگوں کو خاطر خواہ استفادہ ہوسکے گا۔
سید احمد خاں نے جام جم اس لئے لکھا تھا کہ آئندہ نسل اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو ۔ یہی مقصد یا یہی شعور آثار الصنادید کی تالیف و ترتیب کے پچھلے بھی کارفرما نظر آتا ہے ۔ سید احمد خاں آثار الصناید 1847ء میں لکھی ۔ اس کتاب میں انہوں نے تاریخ عمارتوں ان کے کتبوں ، بادشاہوں کی سوانح ہی کا بیان نہیں کیا ہے بلکہ مشاہیر علماء و صوفیاء کے ساتھ ساتھ دہلی کے کاریگروں اور مخصوص پیشہ وروں کے حالات و کیفیت بھی لکھی ہے ۔ سید احمد خاں نے دہلی کے فنکاروں ، ہنرمندوں کا بیان اس لئے لکھا ہے کہ ان کی نظر میں یہ ضروری تھا  ۔آثار الصنادید کے چوتھے باب کی بابت دیباچہ میں دہلی کے باشندوں کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’…حقیقت میں یہاں کے لوگ ایسے ہیں کہ شاید اور کسی اقلیم کے نہ ہوں گے ۔ ہر ایک شخص ہزار ہزار خوبی کا مجموعہ اور لاکھ لاکھ ہنروں کا گلدستہ ہے ، ہر ایک کو علم و ہنر سے شوق اور دن رات لکھنے پڑھنے ہی سے ذوق ہے‘‘ ۔آثار الصنادید کی تالیف کے پیچھے موجود محرکات کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی ہوتا ہے اور سید احمد خاں کے نظریہ تاریخ پر ’’آثار الصنادید‘‘ سے بھرپور روشنی پڑتی ہے ۔
یہاں میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جام جم اور آثار الصنادید ، دونوں ہی عہد بہادر شاہ ظفر کی تصانیف ہیں ۔ ان دونوں تصانیف کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، خود بہادر شاہ ظفر نے مطالعہ کیا اور متاثر بھی ہوئے چنانچہ بعد ازاں سید احمد خاں کو قلعے کے نقشے بنانے کا حکم دیا گیا ۔

1852ء میں سید احمد خاں نے سلسلتہ الملوک کے نام سے مختصر رسالہ 59 صفحوں پر مشتمل مرتب کیا ۔ یہ رسالہ کوئی نئی تصنیف نہیں بلکہ جام جم ہی کا اضافہ شدہ رسالہ ہے ۔
جام اور آثار الصنادید کی ترتیب کے دوران سید احمد خاں کا تاریخی شعوراس قدر تربیت یافتہ بن جاتا ہے کہ تاریخ کے آئینہ میں وہ مستقبل کو صاف دیکھنے لگتے ہیں ۔ دراصل ماضی کی تاریخ حال کو پرکھنے کا شعور عطا کرتی ہے اور اسی شعور کی وجہ سے مورخ مستقبل کا قیاس کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں خود سید احمد خاں کی تقریر کا ایک اقتباس پیش کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا ۔
جنوری 1864ء میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا اور پہلا اجلاس 9 جنوری 1864ء کو منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سید احمد خاں لکھتے ہیں ۔ ’’جب میں اپنے پیارے ہم وطنوں کے حال پر نظر کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہ گذشتہ حالات سے اس قدر ناواقف ہیں کہ آئندہ راستہ چلنے کو ان کے پاس کچھ بھی روشنی نہیں ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ کل کیا تھا اور آج کیا ہے اور اس سبب سے وہ کچھ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ کل کیا ہوگا‘‘ ۔ اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تاریخی شعور، مورخ کے سیاسی  شعور کو جلا بخشنے کا باعث بنتا ہے ۔ اور یہی کچھ سید احمد خاں کے ساتھ بھی ہوا اور آثار الصنادید و سلسلتہ الملوک لکھتے ہوئے انہوں نے تاریخی شعور اور سیاسی شعورکا ثبوت پیش کیا ہے ۔
یہاں دو اہم امور کو ان دو تصانیف کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ آثار الصنادید میں جہاں سید احمد خاں نے اپنے اسلاف کے کارناموں کو اور دہلی کے اہل فن کے کارناموں کو محفوظ کرنے کی سعی بلیغ فرمائی ہے وہیں ریزیڈنٹ بہادر سرٹامس مٹکاف کی علم پروری اور قدر دانی کی تعریف و توصیف میں 78 اشعار کی مثنوی بھی لکھی ہے ۔ یہ مثنوی حکمران وقت اور اپنے آفیسر کو خوش رکھنے کی کوشش تھی لیکن جو دوسری اہم بات ان تصانیف میں خصوصی توجہ کی حامل ہے وہ 1803ھ کے حوالے سے سید احمد خاں نے پہلے آثار الصنادید میں درج کی ہے اور پھر دوسری مرتبہ سلسلتہ الملوک میں اپنے اسی نقطہ نظر کا اعادہ کیا ہے ۔
1857ء کے فوری بعد سید احمد خاں نے اپنے زمانے کے آشوب کو موضوع بنا کر دو معرکہ کی کتابیں لکھیں ، تاریخ سرکشی بجنور اور اسباب بغاوت ہند … راقم الحروف کا خیال ہے کہ سید احمد خاں کو تاریخ سے لگاؤ نہ ہوتا ، انہوں نے تاریخی کتابوں کی تدوین و تالیف نہ کی ہوتی تو ہرگز ہرگز 1857ء کے بعد اس عزم و ہمت کا مظاہرہ کرپاتے جو انہوں نے کردکھایا اور نہ اسباب بغاوت ہند جیسی باغیانہ لیکن مبنی برحقیقت تصنیف کی جرأت کرپاتے ۔ دراصل تاریخ انسانوں کو ہمت و حوصلہ بخشتی ہے ، جرات رندانہ ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ دل گداختہ بھی عطا کرتی ہے ۔
سید احمد خاں کے نزدیک تاریخ کا ایک وسیع تصور تھا ۔ انہوں نے اسلاف کے کارناموں ، تاریخی کتب کے مطالعہ عربی زبان اور اپنی زبان کی تاریخ کو بھی اس میں شامل کرلیاہے ۔ ذیل میں سید احمد خاں کی تحریروں اور لکچرز سے چند اقتباس پیش کئے جاتے ہیں کہ ان کا تاریخی شعور روشن ہوجائے ۔ اپنے ایک لکچر میں فرماتے ہیں :

’’کسی قوم کے لئے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی قومی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کھودے‘‘۔
سید احمد خاں مشرق کی ہر عمدہ چیز کے قدرداں تھے اور انھیں باقی رکھنا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انہوں نے سائنسی ترقی کی وجہ سے انگریزی زبان کی تحصیل کومسلمانوں کے لئے لازمی و ضروری قرار دیا یا وہیں عربی زبان کی تعلیم کو بھی لازم بتایا ۔ اپنے ایک لکچر میں فرماتے ہیں ۔
’’مسلمانوں کو لازم ہے کہ عربی زبان کی تحصیل نہ چھوڑیں ، یہ ہمارے باپ ، دادا کی مقدس زبان ہے ۔ وہ فصاحت و بلاغت میں سمیٹک زبانوں میں لاثانی ہے … اس زبان میں ہمارے مذہب کی ہدایتیں ہیں لیکن جب کہ ہماری معاش ہماری بہتری ، ہماری زندگی یا آرام بسر کرنے کے ذریعہ بلکہ ہمارے اس زمانے کے موافق انسان بنانے کے وسائل انگریزی زبان دیکھنے میں ہیں تو ہم کو اس کی طرف بہت توجہ کرنی چاہئے‘‘ ۔
شبلی نعمانی کی تصنیف المامون 1888 ء پر دیباچہ لکھتے ہوئے ، تاریخ کے حوالے سے قوم کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں ۔ اقتباس دیکھئے :’’وہ قوم نہایت بدنصیب ہے جو اپنے بزرگوں کے ان کاموں کو جو یاد رکھنے کے قابل ہیں بھلادے یا ان سے بے خبر رہے ۔ ہماری تاریخیں اس زمانے کی لکھی ہوئی ہیں جب تاریخ نویسی کے فن کو پوری طرح ترقی نہیں ملی تھی اس لئے ہمارے بزرگوں کے کاموں کے گوہر آبدار کہیں بکھرے پڑے ہوئے ہیں اور کہیں کوڑے کرکٹ میں رلے ملے ہیں‘‘ ۔
سید احمد خاں نے بار بار اپنی تحریروں میں اپنی تقریروں میں کسی نہ کسی بہانے ؍حیلے سے قوم کو اپنے اسلاف کی تاریخ کو پڑھنے یاد رکھنے اور برقرار رکھنے پر زور دیا ہے ۔ وہ اپنے اسلاف کی لیاقت و مہارت کا اپنے عہد کے احباب سے تقابل کرتے ہوئے اپنے ایک لکچر میں فرماتے ہیں ۔
’’ہم اپنے بزرگوں کے حال سے مقابلہ کرو آپ کے بزرگ جس زمانے میں تھے ، انھوں نے اپنے تئیں اس زمانے کے لائق بنالیا تھا ، اس لئے وہ دولت و حشمت و عزت سے نہال تھے اور جس زمانے میں کہ ہم ہیں ، ہم نے اپنے تئیں اس زمانے کے لائق نہیں بنایا اس لئے نکبت اور ذلت میں ہیں‘‘ ۔

قارئین کرام !سرسید احمد خاں نے چالیس برس تاریخ کی بازیافت ، تاریخ کی تدوین ، تاریخی شعور کی پیش کش میں صرف کئے ، انہوں نے صرف تاریخی کتابیں ہی نہیں لکھی ، اپنی تاریخی تصانیف سے حال کو سنوارنے اور مستقبل کو مستحکم کرنے کا کام بھی لیا (خصوصاً تاریخ سرکشی بجنور اور اسباب بغاوت کے ذریعہ) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سید احمد خاں نے مقدمہ ابن خلدون کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا تھا اور اس سے متاثر ہوئے تھے ۔ ابن خلدون اپنے مقدمہ کی ابتداء میں تاریخ کی اہمیت اور فضیلت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔
’’تاریخ ایک ایسا فن ہے جسے اقوام و امم ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں … لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو تاریخ میں تحقیقی نظریاتی بھی ہیں اور کائنات کے لطیف علل و مبادی بھی اور اسی طرح واقعات کی کیفیات و اسباب کا گہرا علم بھی ہے ۔ اسی لئے تاریخ کی دنیائے فلسفہ میں گہری جڑیں ہیں اور وہ اس لائق ہے کہ علوم حکمت میں شمار کی جائے … یاد رکھئے علم تاریخ ایک معزز و بلند پایہ فائدوں والا اور شریف غرض و غایت والا فن ہے ۔ کیونکہ یہ ہمیں گذشتہ اقوام کے اخلاق و احوال بتاتا ہے ۔ انبیاء کی سیرتوں پر آگاہ کرتا ہے اور حکومتوں اور ریاست میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے تاکہ اگر کوئی کسی دینی یا دنیوی سلسلے میں ان سے کسی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے تو اسے پورا پورا فائدہ حاصل ہو‘‘۔
اپنے مضمون کے آخر میں سید احمد خاں کی تاریخی کتب اور تاریخی شعور کے بابت انہی جملوں کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں جو دربار اکبری میں محمد حسین آزاد نے عبدالقادر بدایونی کے باب میں لکھے ہیں ۔ لکھتے ہیں : ’’ان کی تاریخ اپنے مضمون و مقصود کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ الماری کے سرپر تاج کی جگہ رکھی جائے‘‘ ۔