ڈاکٹر سید داؤد اشرف
میر تراب علی خان سالارجنگ اول کا خاندان آصف جاہی عہد کا بہت بلند اور ذی حیثیت خاندان تھا ۔ آصف جاہی عہد میں سب سے اونچے مرتبے کے امیر ، امرائے پائیگاہ تھے ۔ اُن کے بعد سالارجنگ اول کے خاندان کا شمار ہوتا تھا ۔ سالارجنگ اول کے خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس خاندان کے چھ افراد سات بار آصف جاہی عہد میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ۔ میر عالم ( ۱۸۰۴ء تا ۱۸۰۸ء ) ، سالارجنگ اول (۱۸۵۳ء تا ۱۸۸۳ء ) ، سالارجنگ دوم ( ۱۸۸۴ء تا ۱۹۹۷ء ) اور سالارجنگ سوم (۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۴ء ) ۔
آصف جاہی عہد کے ابتدائی دنوں میں وزیر اعظم کا عہدہ دیوان یا مدارالمہام کہلاتا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹۱۹ء میں اگزیکیٹیو کونسل ( باب حکومت) کے قیام پر اس عہدے کو صدر اعظم کا نام دیا گیا ۔ سالارجنگ اول نے آصف جاہی تاریخ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے بے مثال کارناموں سے ایسی شہرت پائی کہ دوسرے وزرائے اعظم کی شہرت ماند پڑ گئی ۔
سالاجنگ اول نے ریاست حیدرآباد کو شدید مشکلات اور پریشانیوں سے چھٹکارا دلایا ۔ ریاست حیدرآباد کو بحران سے نکالنا ، اصلاحات کے ذریعہ اسے مضبوط و مستحکم بنانا اور حکمران کے وقار کو قائم رکھنا ان کی زندگی کا مشن تھا ۔ سالارجنگ اول کے مدارالمہام مقرر ہونے سے صرف چند روز قبل انگریزوں نے نظام سے ان کا سب سے زر خیز علاقہ برار چھین لیا تھا جس کی وجہ سے آمدنی بہت گھٹ گئی تھی اور مالی حالت بے حد کمزور ہوگئی تھی ۔ اُس وقت نظام کے علاقے کا نظم و نسق بھی ابتر حالت میں تھا ۔ سالارجنگ اول نے حالات کو سدھارنے کی جانب فوری توجہ دی ۔ مالی عہدہ کو اطمینان بخش سطح پر پہونچایا اور ایسے نظم و نسق کی بنیاد ڈالی جو ریاست میں آخر تک جاری رہا ۔
سالارجنگ اول ۲ جنوری ۱۸۲۹ء کو پیدا ہوئے ۔ وہ ابھی کم سن ہی تھے کہ پہلے ان کے والد محمد علی خان سالارجنگ شجاع الدولہ اور پھر دادا منیرالملک ثانی کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ صحت کی خرابی اور خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے ۱۳ برس کی عمر تک ان کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہ دی جاسکی ۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے چچا سراج الملک کی نگرانی میں ہوئی ۔
انہوں نے عربی ، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔ انہیں بچپن ہی سے حساب کتاب سے گہری دلچسپی تھی ۔ ان کی دادی جاگیرات کے حسابات کی جانچ پڑتال اُن ہی سے کرواتی تھیں ۔ یہ ابتدائی تربیت ان کیلئے مستقبل میں سودمند ثابت ہوئی ۔ ۱۸۴۷ء میں جب ان کے چچا مدارالمہام تھے انہوں نے انہیں تلنگانہ کے ایک ضلع میں Dighton کی جگہ تعلقہ دار کی حیثیت سے مامور کیا ۔ یہ انگریز عہدیدار اس ضلع میں مالگذاری کے چند نئے اصول رائج کررہا تھا ۔ سالارجنگ کو وہاں مالگزاری کے پرانے اور چند نئے اصولوں کی خرابیوں اور خوبیوں کے مطالعے کا موقع ملا ۔ چوتھے آصف جاہ ناصر الدولہ کے عہد میں سالارجنگ کے چچا سراج الملک کی جاگیرات بحال ہوئیں اور ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام سالارجنگ کو تفویض کیا گیا ۔ انہوں نے ان جاگیرات کے انتظامات کی اصلاح اور مالگزاری میں اضافے کیلئے کوشش کی ۔ انہیں اس دوران مالگزاری کے کام کا کافی تجربہ حاصل ہوا ۔ ۱۸۵۳ء میں برار کے معاہدے پر دستخط ہونے کے صرف چھ روز بعد ہی سالارجنگ کے چچا مدارالمہام سراج الملک کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد ان کے بھتیجے سالارجنگ اول مدارالمہام بنائے گئے ۔ اَُس وقت اُن کی عمر صرف چوبیس برس تھی ۔ سالارجنگ اول چوتھے آصف جاہ ناصرالدولہ کے عہد میں آخری چار سال ، پانچویں آصف جاہ افضل الدولہ کے عہد میں بارہ سال اور چھٹے آصف جاہ میر محبوب علی خان کے عہد میں ابتدائی چودہ سال مدارالمہام رہے ۔ جب ۱۸۶۹ء میں افضل الدولہ کا انتقال ہوا اُس وقت محبوب علی خان کی عمر ڈھائی سال تھی ۔ سالارجنگ نے محبوب علی خان آصف سادس کے عہد میں مدارالہامی کے علاوہ ریجنٹ کی بھی زائد ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ سالارجنگ اول کا انتقال محبوب علی خان کی باقاعدہ تخت نشینی سے ایک سال قبل ۸ فروری ۱۸۸۳ء کو ۵۴ برس کی عمر میں ہوا ۔
جب سالارجنگ اول مدارالمہام مقرر ہوئے تھے اُس وقت حکومت کے مصارف زیادہ اور آمدنی کم تھی ۔ کئی علاقے رہن پر تھے اور حکومت پر قرض کا بوجھ تھا ۔ رومہیلوں اور عربوں کی جانب سے ہنگامے اور فساد ہوا کرتے تھے اور حکومت بے بس تھی ۔ بدامنی نظم و نسق کی ابتری اور مالیے کے بحران کی وجہ سے یہ دور آصف جاہی عہد کا تاریک ترین دور کہا جاسکتا ہے ۔
سالارجنگ نے عربوں کے معاملات کی یکسوئی کیلئے عدالت قائم کی ۔ گڑبڑ اور فساد برپا کرنے والے عربوں کو سزائیں دی گئیں ۔ چند کو گرفتار کیا گیا اور بعض شہر بدر کئے گئے ۔ قرضوں کے حسابات کی جانچ پڑتال کے بعد قرض خواہوں کا قرض ادا کیا گیا اور رہن شدہ علاقے واپس لئے گئے ۔ سالاجنگ اول نے بہت بڑے پیمانے پر اصلاحات نافذ کیں ۔ مالگزاری اور مالیات کے نظم و نسق میں اصلاحات ان کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔
سالارجنگ اول سے قبل مالگزاری کی وصولی کے دو طریقے تھے ۔( ۱) تعہد (۲) امانی ۔ دونوں طریقے ناقص اور انتہائی غیر اطمینان بخش تھے ۔ زیادہ سے زیادہ مالگزاری کی وصولی کیلئے کاشت کاروں پر بڑا ظلم و ستم کیا جاتا تھا ۔ کاشت کار ظلم و ستم سے بچنے کی خاطر زمینات چھوڑکر فرار ہوجایا کرتے تھے جس کی وجہ سے بہت سے علاقے ویران ہوچکے تھے ۔ سالارجنگ نے مدارالمہام بننے کے بعد سب سے پہلے مالگزاری کے نظم و نسق میں تبدیلیاں لانا شروع کیں اور بالکل ہی نئے سسٹم پر اس کی بنیاد رکھی ۔ تعہد کے طریقے کو موقوف کردیا گیا ۔ امانی نظم و نسق بھی تعہد نظم و نسق سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھا ۔ اس لئے سالارجنگ نے پرانے تعلقداروں کو یکے بعد دیگرے برخاست کیا اور اُن کی جگہ دوسرے تعلقداروں کا حکومت کے ملازمین کے طور پر مقررہ تنخواہ کے ساتھ تقرر کیا ۔ ان نئے تعلقداروں کو اپنے اپنے ضلعوں میں قیام کرنا پڑتا تھا اور حسب ضرورت ان کے تبادلے بھی کئے جاسکتے تھے ۔ مالگزاری کے نظم و نسق کی نگرانی اور اس سے متعلق معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے ۱۸۶۴ء میں بورڈ آف ریونیو ( مجلس مالگزاری) قائم کیا گیا ۔ مالگزاری کے نظم و نسق میں اصلاحات کی وجہ سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور کاشت کاروں کی حالت بہتر ہوئی ۔ ان ہی کے عہد میں مرہٹواڑہ کے چند اضلاع میں سروے سیٹلمنٹ کام تکمیل کو پہنچا ( ملاحظہ ہو مہدی علی محسن الملک ، سروے اینڈ سٹلمنٹ کمشنر کی رپورٹ مورخہ یکم اگسر ۱۸۸۲ء جو Hyderabad Affair VoI.IV, Part II,1883 میں شامل ہے ۔ ریاست حیدرآباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سالارجنگ اول کے عہد میں ۷۹۔۱۸۷۸ء کا بجٹ تیار ہوا ۔ اس بجٹ کو سالارجنگ اول کی یادداشت کے ساتھ شائع کیا گیا تھا ۔ جس میں سابق مالیاتی نظام کی بے قاعدگیوں کے ساتھ اس بجٹ کی تیاری کیلئے کی گئی کوششوں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ (ملاحظہ ہو Hyderabad Affairs,Vol.VI, PartII, 1883)
سراج الملک نے عدلیہ کے نظام کی اصلاح کی جانب توجہ دی تھی لیکن عدلیہ کے نظام کی بہتری کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا تھا ۔ سالارجنگ اول نے اس جانب توجہ دیتے ہوئے دارالسلطنت میں عدالت قائم کی جو یہ مجلس اور چار ارکان پر مشتمل تھی اس کے علاوہ انہوں نے اضلاع میں بھی عدالتیں قائم کیں ۔ انہو ںنے عدلیہ اور عدالتوں کے وقار کو بلند کرنے اور اُسے برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کیا ۔
حیدرآباد میں حکومت کی جانب سے تعلیم کا کوئی باضابطہ بندوبست نہیں تھا ۔ سالارجنگ کو تعلیمی پستی کا شدید احساس تھا ۔ چنانچہ انہوں نے ۵۴۔۱۵۵۳ء میں اپنی ہی کوٹھی واقع پتھرگٹی میں مدرسہ دارالعلوم قائم کیا جو جامعہ عثمانیہ کے قیام تک ریاست حیدرآباد کی سب سے بڑی درس گاہ تھی ۔ دارالعلوم کے قیام کے پانچ سال بعد اضلاع میں بھی حکومت کی جانب سے تعلیم کا آغاز کیا گیا ۔ اُن کے عہد میں سٹی انگلش ہائی اسکول ، مدرسہ عالیہ اور چادرگھاٹ ہائی اسکول قائم کئے گئے ۔ چادر گھاٹ اسکول چند برس بعد حیدرآباد کالج کے نام سے سکنڈ گریڈ کالج بنایا گیا ۔ سالارجنگ نے تعلیمی نظام اور نصاب کے بارے میں سر سید سے خط و کتابت کی تھی ۔ وہ خط و کتابت اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے ذخیرے میں محفوظ ہے ۔
۱۹۶۹ء میں نظام اسٹیٹ ریلوے کا قیام عمل میں آیا اور اس کی تکمیل پر اُسے ۱۸۷۶ء میں ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا ۔ اس کی وجہ سے ریاست میں تجارت کو فروغ ہوا ۔ ان ہی کے عہد میں محکمہ ڈاک ، محکمہ جنگلات اور محکمہ پولیس کا قیام عمل میں آیا ۔ سالارجنگ اول کے عہد میں سماجی اصلاحات کا نفاذ بھی عمل میں آیا ۔ ستی کی رسم ، بچوں کی خرید و فروخت اور اجناس کے نرخ میں اضافے کیلئے سٹہ کھیلنے پر امتناع عائد کیا گیا ۔ اس سلسلے میں حکومت ریاست حیدرآباد نے اطلاع و فہمائش کیلئے جو اعلانات جاری کئے تھے وہ اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ میں موجود ہیں ۔
سالارجنگ اول سے قبل حیدرآباد میں نظم و نسق کے چودہ دفاتر تھے ۔ دفتر دیوانی دفتر مال ، دفتر ملکی ، دفتر دارالانشاد وغیرہ ان قدیم دفاتر کے نظم و نسق میں بڑی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ۔ چنانچہ سالارجنگ نے ۱۸۶۸ء میں ان دفاتر کو انتظامی امور کی ذمہ داریوں سے محروم کردیا اور ان کی جگہ بتدریج نئے سکریٹریٹ محکمہ قائم کرنے شروع کئے ۔ نئے سکریٹریٹ محکمہ جات کے قیام کا سلسلہ ان کے عہد کے بہت بعد تک جاری رہا ۔ اسٹیٹ آرکائیوز میں آصف جاہی عہد کے قدیم دفاتر اور سکریٹریٹ محکمہ جات کا سارا ریکارڈ محفوظ ہے ۔
آصف جاہی خاندان کے ابتدائی دور سے بیرونی یا غیر ملکی افراد کے حیدرآباد آنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن سالارجنگ اول نے خاص مقصد سے غیر ملکی افراد کو حیدرآباد طلب کیا تھا ۔ وہ مروجہ قدیم اور روایتی نظم و نسق میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لا نا چاہتے تھے ۔ درحقیقت وہ برطانوی ہند میں جو نظم و نسق مروج تھا اسی طرز کا نظم و نسق یہاں نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں پڑھے لکھے ، قابل اور برطانوی نظم و نسق کا تجربہ رکھنے والے افراد کی ضرورت تھی ۔ جنہیں وہ نظم و نسق کے کلیدی عہدوں پر مامور کرنا چاہتے تھے تاکہ نئے طرز کے نظم و نسق کو یا ان کی مجوزہ اصلاحات کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا جاسکے ۔ اسی لئے انہوں نے قابل بیرونی افراد کی فراہمی کیلئے سرسید سے خط و کتابت کی ۔ سالارجنگ اور سرسید کی خط و کتابت اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ہے ۔ سر سید نے مہدی علی ، مشتاق حسین اور چراغ علی کو حیدرآباد بھیجا ۔ سالارجنگ کی سید حسین بلگرامی سے لکھنو میں ملاقات ہوئی تھی ۔ ابتدائی ملاقات میں ہی نوجوان سید حسین بلگرامی نے سالارجنگ کو متاثر کیا اور سالارجنگ کے طلب کرنے پر وہ حیدرآباد آئے ۔ ان غیر ملکیوں نے ریاست کے نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے ۔ جن کے صلے میں انہیں علی الترتیب محسن الملک ، وقار الملک، اعظم یار جنگ اور عمادالملک کے خطابات عطا کئے گئے ۔ ان غیر ملکی حضرات کے علاوہ سالارجنگ اول کے دور میں آنے والے غیر ملکی شخصیتوں میں سرور الملک ڈپٹی نذیر احمد ، رگھوناتھ چٹوپادھیائے اور رائے مرلی دھر کے نام قابل ذکر ہیں ۔
جدوجہد آزادی ۱۸۵۷ء میں سالارجنگ اول نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا ۔ جس پر اکثر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ جدوجہد آزادی ۱۸۵۷ء کے موقع پر سالارجنگ اول کے رول کے بارے میں آصف جاہی عہد کی تاریخ پر اتھاریٹی سمجھے جانے والے دانشور میر معظم حسین نے ایک انٹریو کے دوران کہا تھا ’’ اگرہم اُس دور پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گاکہ انگریز طاقتور اور منظم تھے ۔ اُن کے پاس جدید طرز کے ہتھیار تھے جبکہ ملک میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں سب متحد نہیں تھے ۔ آپس میں ناراضگیاں تھیں ۔ اختلافات تھے ۔ تحریک آزادی منظم نہیں تھی ۔ سالارجنگ کو انگریزوں اور خود اپنی طاقت کا صحیح اندازہ تھا ۔ اُس وقت ریاست حیدرآباد انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے موقف میں نہیں تھی ۔ ان حالات میں انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور اپنی حکمت عملی سے ریاست کو بچالیا ‘‘۔
سالارجنگ نے انگریزوں سے برار کا علاقہ واپس لینے کیلئے کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہیں ریاست حیدرآباد سے محبت تھی ۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سالارجنگ کے چچا سراج الملک کے دورِ مدارالمہامی میں انگریزوں نے برار کا علاقہ چھین لیا تھا ۔ وہ برار واپس لے کر اپنے خاندان پر لگے داغ کو دھونا چاہتے تھے ۔ سالارجنگ کو اپنی تمام کوششوں کے باوجود برار کے حصول میں کامیابی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ بڑے افسردہ خاطر رہے ۔
انہوں نے عام طور پر انگریزوں سے خوش گوار تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبودی کیلئے ان کے مشوروں پر عمل کیا ،لیکن ساتھ ہی ساتھ حکمران کا وقار اور ریاست کے مفادات ہمیشہ اُن کے پیش نظر رہے ۔ سالارجنگ کے اپنے پورے کیرئیر میں ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جس سے حکمران کو آصف جاہی دور کی روایات کو اور وفارداری کو دھکا لگایا زک پہونچی ہو ۔ وہ نہ صرف خود حکمران کا احترام کرتے تھے بلکہ اپنے عمل اور روئیے سے دوسروں کو بھی درس دیتے تھے ۔
سالارجنگ کیلئے حالات بے حد مشکل تھے ۔ اُن کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اُن کے وسیع اختیارات کی وجہ سے امرا اُن سے حسد کرنے لگے تھے اور اُن کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے ۔ انگریز بھی سالارجنگ کی طرف سے امرا کو بدگمان کرنے اور آپس میں لڑانے کی کوششیں کرتے تھے ۔ ذاتی اغراض کے تحت سالارجنگ کے خلاف ریشہ دوانیاں ہوتی تھیں ۔ جن کی وجہ سے حکمران وقتی طور پر اُن سے ناراض ہوجاتے تھے اور اُن کے تیور بدل جاتے تھے ۔ سالارجنگ کو حکمران کا موڈ دیکھ کر کام کرنا پڑتا تھا ۔ کیونکہ کسی شدید بحران کے پیدا ہونے پر ریاست کو نقصان پہونچے کا خدشہ لگا رہتا تھا ۔ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود وہ ریاست حیدرآباد کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ مشغول و منہمک رہے ۔
سالارجنگ اول تیس برس مدارالمہام رہے اور اسی مدت میں انہوں نے چودہ برس تک ریجنٹ کے فرائض بھی انجام دئے ۔ ان کا یہ تیس سالہ دور آصف جاہی عہد کی تاریخ میں سالارجنگ کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے اور انہیں ریاست حیدرآباد کے معمار اول کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے ۔ جب وہ ۱۸۵۳ء میں مدارالمہام بنائے گئے تھے اُس وقت نظم و نسق ابتر اور مالیے کی حالت افسوسناک تھی مگر جب اُن کا انتقال ہوا تو نظم و نسق اور مالییکے اعتبار سے ریاست حیدرآباد یکسر مختلف ریاست تھی ۔ اگر سالارجنگ وسیع پیمانے پر اصلاحات نافذ نہ کرتے اور مالی حالت نہ سدھارتے تو ریاست حیدرآباد کا باقی و برقرار رہنا دشوار تھا ۔ نامور دانشور کے ایم پانیکر نے اپنی کتاب
An Introduction to the Study of the Relations of Indian States with Government of India
میں ریاست حیدرآباد کے ابتر نظم و نسق اور کمزور و خستہ مالی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ۔
It was only the genius, tact and diplomatic ability of Salar Jung that saved the state from annextion and ruin!!