سردار نانک سنگھ نشتر انسانیت دوست شخصیت

محمد ریاض احمد

حیدرآباد فرخندۂ بنیاد میں کچھ ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنے حسن اخلاق کے ذریعہ ہر کسی کے دل میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ بلالحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، ذات پات تمام لوگ انہیں چاہتے ہیں ان کی قدر کرتے ہیں یعنی معاشرہ میں یہ شخصیتیں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جو کسی کی دشمن نہیں ہوتی بلکہ سب کی دوست ہوتی ہیں۔مذہبی، ثقافتی و ادبی غرض ہر محفل کی وہ جان ہوتی ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں سردار نانک سنگھ نشتر بھی شامل ہیں۔ وہ ایک معروف قلمکار، جہد کار اور سماجی مصلح ہیں سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے انسان ہیں، انہیں ہر انسان ہر زبان سے محبت و اُلفت ہے۔ سردار نانک سنگھ نشتر جہاں پر علمی محفل میں اپنی موجودگی کے ذریعہ علم دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہیں وہیں مذہبی محفلوں میں بھی بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ قومی یکجہتی کے سمینار اور جلسے، مذاکرے ان کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اردو کے دلدادہ ، تلگو کے چاہنے والے اور ہندی کی قدر کرنے والی شخصیت کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے۔ انھیں بلاشبہ گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ہم نے اکثر اردو کی روٹی کھانے والی بڑی بڑی شخصیتوں کو دیکھا ہے ۔ اردو کے مشہور و معروف پروفیسروں، کالم نگاروں، محققین سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، ملاقاتوں کے دوران وزیٹنگ کارڈس کا تبادلہ بھی عمل میں آیا لیکن اردو کے نام پر روٹیاں سینکنے والی ان شخصیتوں نے اپنے وزیٹنگ کارڈس انگریزی میں چھپوائے ہیں لیکن ایک سردار یعنی نانک سنگھ نشتر کا وزیٹنگ کارڈ دیکھتے ہی ہم خوشی سے جھوم اُٹھے۔ انہوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اردو میں چھپوایا ہے۔ کارڈ کے ایک جانب ان کا نام اور پتہ درج تھا دوسری جانب حضرت بابا شیخ فرید شکر گنج ؒؒکا ایک قول درج تھا جو اس طرح ہے ’’ اے بے نمازی کتے ! یہ کوئی اچھا طریقہ زندگی نہیں ہے کہ کبھی پانچ وقت نماز پڑھنے کیلئے مسجد نہیں آیا۔ صبح ہوگئی ہے اُٹھ وضو کر اور نماز پڑھ۔ جو سر اللہ تعالیٰ کے سجدے میں نہیں جھکتا اُسے کاٹ کر پھینک دے ( اپنا سر۔ دوسروں کا نہیں ) ۔‘‘
سردار نانک سنگھ نشتر سکھ کمیونٹی میں تو کافی مقبول ہیں لیکن ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں بھی وہ ہردالعزیز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے بڑوں سب سے بہت جلد گھل مل جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم نے کچھ چھان بین شروع کی تو پتہ چلا کہ ان کے آباء و اجداد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز تھے جنہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1830 میں نظام دکن کی مدد ( اُنکی ریاست کی سیکورٹی و استحکام میں تعاون ) کیلئے حیدرآباد دکن روانہ کیا تھا ۔

سردار نانک سنگھ نشتر کی پیدائش 1937 کو ہنمکنڈہ ورنگل میں ہوئی، نشتر اُن کا تخلص ہے۔ وہ نظام حیدرآباد کی مدد کیلئے روانہ کی گئی 1200 سپاہیوں پر مشتمل سکھ ریجمنٹ کے 12 رسالداروں میں سے ایک کی چوتھی نسل ہے۔ ملک کی ممتاز یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی سے 1959 میں انہوں نے ایم اے کیا۔ ابتداء ہی سے ان میں لوگوں کی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کوئی نوکری یا ملازمت نہیں کی بلکہ زراعت کو اپنا پیشہ بنایا وہ بیک وقت ایک سوشیل سائنٹسٹ ، عوامی جہد کار، بین مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والی شخصیت شاعر، مقرر اور مصنف ہیں۔ غیر سکھوں میں وہ ایک طرح سے سکھ ازم کے سفیر ہیں۔ انہوں نے مذہبی اور سماجی موضوعات پر بے شمار مضامین تحریر کئے ہیں جو ملک کے مشہور و معروف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ نانک سنگھ نشتر روز نامہ ’سیاست‘ کے قدیم قاری ہیں۔ انہیں امریکہ ، برطانیہ ، پاکستان، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے دورے کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ سردار نانک سنگھ نشتر نے برطانیہ ، امریکہ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں کئی کانفرنسوں، سمیناروں اور یونیورسٹیز میں سکھ ازم اور بین مذہبی تعلقات پر انتہائی معلوماتی مقالے پیش کئے ہیں۔ ان مقالوں کی نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں اشاعت عمل میں آئی۔ وہ اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں لکھتے ہیں اور بہت خوب لکھتے ہیں۔ عربی، فارسی اور تلگو سے بھی واقف ہیں۔ ان کی کئی کتابوں کے تلگو اور مراٹھی میں تراجم ہوئے ہیں جس میں ان کی کتاب:
Selection From Guru Granth Sahib-A Cripture of Mankind بھی شامل ہے ۔ انہوں نے زائد از 19 کتب تصنیف کی ہیں اس کے علاوہ بے شمار پاکٹ سائزکتابوں کی مفت تقسیم عمل میں لائی۔ ان کے مجموعہ کلام’’سفید لہو ‘‘ کو اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے 2005 میں انعام اول سے نوازا تھا۔ سال 2007میں ان کی ایک اور کتاب ’’شری گرو گرنتھ صاحب میں مسلمانوں کیلئے ہدایات‘‘ کو جس کی۔ دو زبانوں اردو اور انگریزی میں اشاعت عمل میں آئی تھی اردو اکیڈیمی نے انعام اول سے نوازا۔1996 کو آندھرا پردیش کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاستی حکومت نے انہیں ایوارڈ عطا کیا۔ حیدرآباد میں انہیں صدر شنکر دیال شرما کے ہاتھوں ادبی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ملک و بیرون ملک وہ کئی ایوارڈز و اعزازات سے نوازے گئے۔ 2003 میں پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت کراچی میں نانک سنگھ نشتر کو قلم برائے امن ایوارڈ دیا گیا۔ سردار نانک سنگھ نشتر ادبی اور سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیموں سے وابستہ ہیں جو مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر کام کرتی ہیں ، وہ انٹر نیشنل سکھ سنٹر فار انٹر فیتھ ریلیشنس کے صدر بھی ہیں۔ ان کی غیر معمولی سماجی و مذہبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں نہیں پنتھ رتن جتھیدار گرچرن سنگھ توہرہ میموریل ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس ایوارڈ کا شمار ملک کے اعلیٰ اور باوقار ایوارڈز میں ہوتا ہے۔ چونکہ سردار نانک سنگھ نشتر ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ایسی شخصیت کی حکومت تلنگانہ اور ریاست کی باوقار تنظیموں کی جانب سے بھی پذیرائی کی جانی چاہیئے۔ یدھ ویر میموریل جیسے باوقار ایوارڈ کیلئے وہ موزوں شخصیت ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com