سرحدی تنازعہ کی یکسوئی

ہوئی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ اچانک
تھی برسوں سے پاؤں میں زنجیر جامع
سرحدی تنازعہ کی یکسوئی
ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کئی دہوں کے سرحدی تنازعہ میں پھنسے ہزاروں شہریوں کو ہفتہ کے دن اس وقت آزادی ملی جب دونوں ملکوں کے شہریوں نے اپنی شہریت کا انتخاب کرتے ہوئے ایک دوسرے کے علاقوں کا تبادلہ عمل میں لایا۔ ہند ۔ بنگلہ دیش کی جانب سے جمعہ کی شب سرحد پر واقع 162 بستیوں کے تنازعہ کو دور کرلیا گیا تو دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہری قومیت اور شہریت سے محرومی کے دن گذارنے کے بعد پہلی بار آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہندوستان اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں غیرمعمولی طور پر بہتری آرہی ہے۔ خاص کر بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات دیرینہ دوستانہ رہے ہیں اور جب سے وزیراعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت اپنے ملک کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف شورش پسندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دے گی جب سے حکومت نے بھی خیرسگالی کے جذبہ کا مظاہرہ کیا ہے، ہندوستان سے 2,500 میل کی سرحد کو اکثر علیحدگی پسندوں سے خطرہ رہا تھا مگر حالیہ برسوں میں سرحدی چوکسی نے حالات کو بہتر بنانے کا کام کیا ہے۔ 1971ء کے بعد سے سرحدی تنازعہ کے باعث کئی ہندوستانیوں کو اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رکھنے میں رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں ایسی کئی بستیاں تھیں جو 18 ویں صدی میں قائم ہوئی تھیں اور برصغیر میں دو ملکوں کی تقسیم کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کے باوجود ان شہریوں کی شہریت کا مسئلہ حل طلب تھا۔ آزادی ہند کے بعد تقریباً 68 سال تک یہ افراد اپنے ہی ملک میں بے وطنی کے سلوک سے دوچار تھے اور انہیں بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جارہی تھیں۔ وزیراعظم بنگلہ دیش کے جذبہ خیرسگالی کے بعد ہندوستان کے ساتھ تاریخی معاہدہ ہوا جس کے بعد دونوں ملکوں کے باشندوں کو اپنی شناخت مل گئی۔ دونوں ملکوں کے متنازعہ علاقوں میں 162 میں سے 111 بستیاں بنگلہ دیشی علاقے میں ہیں جبکہ 51 بستیاں ہندوستانی علاقہ کا حصہ تھیں۔ دونوں جانب بستیوں کے تنازعہ کی یکسوئی کے بعد کئی شہریوں نے اپنے اپنے ملکوں کی شہریت کو ترجیح دی۔ یہاں رہنے والے افراد برسوں تک دونوں ملکوں کے درمیان فٹ بال بن کر رہے۔ وقتاً فوقتاً ہندوستان اور بنگلہ دیش ان افراد کو اِدھر سے اُدھر ڈھکیلا کیا کرتے تھے۔ انہیں برسوں برقی ، اسکول، پانی اور دواخانوں جیسی عوامی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رہنا پڑا، لیکن اب ان شہریوں کے پاس اپنے ملک کی ایک قابل احترام شناخت ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی کے جون میں کئے گئے دو روزہ دورے نے اس تاریخی معاہدہ کو قطعیت دی تھی۔ ویسے دونوں ملکوں نے 22 معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔ ان میں باہمی تجارت کو فروغ دینے، تجارت میں پائے جانے والے توازن کے فرق کو دور کرنے کے علاوہ بنگلہ دیش میں ہندوستانی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا بھی معاہدہ شامل تھا۔ وزیراعظم بنگلہ دیش قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے دونوں ملکوں کی بستیوں میں رہنے والے افراد کو آزادی کے ثمرات سے استفادہ کرنے کی راہ ہموار کی۔ آج یہ شہری اپنے ملک کی باقاعدہ شہریت حاصل کرکے حقیقی آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ ان کے لئے تمام تر سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہندوستان اور اس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اگر سمجھداری کا مظاہرہ کیا جائے تو بلاشبہ عوام الناس کے لئے ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے۔ راحت و سہولت ملنے کے ساتھ عوام کو خوشحالی نصیب کرنے کا ذمہ بھی حکمرانوں کی پالیسیوں پر منحصر ہوتا ہے۔ سرحدی تنازعہ کی یکسوئی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اچھی فضاء پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان اور چین کے ساتھ بھی ہندوستان کے تنازعات کی یکسوئی کی جانب پیشرفت ہوگی۔ سارک کے تحت ہندوستان نے بنگلہ دیش اور دیگر رکن ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کی اچھی شروعات کی ہے۔