سربراہان مملکت کے فرائض (۲)

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

اس سر زمین پر ایک دور حکومت خلافت کا رہا ہے جس کو خلافت عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دشمنان اسلام کی سازشوں اور خود ملت اسلامیہ کی نادانیوں سے اس نظام خلافت کو بالآخر نقصان پہونچا۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعدیہ نظام باقی نہیں رہا۔دوسرے طرـز کی حکومتوں نے اسکی جگہ لی۔خاص طور پر ہندوستان میں ملوکیت اور بادشاہت کاراج قائم ہوگیا۔

مسلم بادشاہوں اور غیر مسلم راجائوں نے رعایہ پر حکومت کی ان حکمرانوں میں وہ بھی رہے ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو مقصد حیات بنایا،موت و آخرت کو فراموش کر کے رعایہ پر ظلم و جور کے ساتھ نظام حکومت چلایا، انسانی دلوں میں نفرت کا لاوہ دھکایا۔ مظلوم رعایہ کی آہوں نے ان کے تخت و تاج کو فنا کر دیا ۔قانون قدرت ونظام فطرت میں ظلم وجور کو زیادہ دنوں تک پنپنے کا موقع کہاں ، اس کو دیر سو یر ختم ہونا ہے ،چنانچہ ان کی حکومتیں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوتی رہیں اور ظالم حکمران کیفرکردار کو پہونچتے رہے ۔تاریخ کے صفحات میں وہ اپنی بد کرداری کیلئے بدنام ہیں،ان کے سیاہ کارنامے تاریخ کا ایک سیا ہ باب ہیں۔

اور ایسے حکام بھی گزرے ہیں جنہوں نے بلا لحاظ مذہب وملت وبلالحاظ قوم وقبیلہ ریایہ پر وری کو اپنا نصب العین بنایا ، اپنے بے لاگ عدل وانصاف ، مہربانی ورحمدلی کی وجہ صرف تخت حکومت پر متمکن ہی نہیں رہے بلکہ انسانی دلوں پر حکومت کی ،ملکوں کو فتح کرنے سے زیادہ انسانی دلوں کو فتح کر کے فاتح زمانہ بنے۔ اخلاقی ، تعلیمی، فلاحی و رفاہی اپنے بے مثال کارناموں کی وجہہ دنیا میں نیک نام ہوئے، تاریخ کے اوراق میں ان کے عمدہ کارہائے نمایاں محفوظ ہونے کے ساتھ وہ انسانی سینوںمیں آج بھی زندہ ہیں۔ دور کیوں جائیے ابھی ملک کی آزادی سے پہلے تک دکن کے علاقوں میں جو حکمران تخت سلطنت پر متمکن رہے ہیں وہ آصف جاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی ان کی خدمات کے چرچے زباں زد خاص و عام ہیں،

مسلم تو مسلم ہمارے وطن کے غیر متعصب برادران وطن بھی ان کے بے مثال کارناموں کی وجہہ ان کو یاد کرتے ہیں، ان کی انسان دوستی، انسانیت نوازی، غرباپروری، علم دوستی بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کی خیر خواہی، انصاف پسندی، محبت و سلوک آج تک ضرب المثل ہے۔ میر محبوب علی خاں مرحوم آصف جاہ سادس کوان کی رعایہ پروری کی بناء ہمارے بعض برادران وطن ’’دیوتا‘‘ تسلیم کرتے ہیں، میر عثمان علی خاں مرحوم آصف جاہ سابع کی علمی، سماجی، رفاہی خدمات سے کون ہے جو ناواقف ہے ان کے عظیم کارنامے جو ان کے دور حکومت کی یادگار ہیں قوم و ملت آج بھی ان سے بھر پور استفادہ کر رہی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ملک کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا لیکن پھر بھی سلطنت آصفیہ کا عشر عشیر بھی اس آزاد حکومت نے ملک و ملت کی شایدہی کوئی خدمت انجام دی ہو۔

اس وقت ضرورت ہے کہ حکام جـذبہ خدمت کے ساتھ آگے آئیں۔شخصی مفادات کو پس پشت ڈالیں۔رعایا کے درد کو محسوس کریں اپنی مملکت میں رفاہی کاموں کا جال پھیلائیں ۔سابقہ ادوار میں جن حکمرانوں نے خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنا کر ملک و ملت کی گرانقدر خدمت کی ہے اس کو نشان راہ بنائیں۔ اس وقت خاص طور پر ہندوستان میں ایسے خدامان وطن و اہل وطن کو سربراہ مملکت بنانے کی سخت ضرورت ہے۔جو جذبہ خدمت سے سر شار ہوں، رعایا کی جو بنیادی ضروریات ہیںان کی تکمیل کو ترجیحی طور پر اور مسائل پر مقدم رکھیں۔روزگار،تعلیم،صحت جیسے بنیادی مسائل کو قریہ قریہ، کوچہ کوچہ اور گھر گھر پہنچائیں۔ملک سے بھید بھاو دشمنی و عداوت کی نفرت آمیز فضا کو اپنی حسن تدبیر سے ختم کریں۔اس کی جگہ پیار و محبت بھائی چارہ، انسان دوستی کی فضا قائم کرنے کی جدو جہد کر کے پورے ملک کو امن و آمان کا گہوارہ بنانے میں نمایا ں رول ادا کریں۔

جمہوری حکومتوں میں اپوزیشن کا ایک نمایاں رول ہو تا ہے۔ ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا بشرطیکہ وہ نیک نیت ہوں قوم و ملک کی ترقی اور اس کا مفاد عزیز ہو اپنے مفادات سے زیادہ قوم و ملت کی فلاح و بہبود مقصود ہو۔ اس لئے ان کا فرض بنتا ہے کہ ملک و قوم کی صحیح ڈھنگ سے خدمت ہو رہی ہو حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ حکومت کے وہ منصوبے جو قوم و ملک کے حق میں ہوں ان کو روبہ عمل لانے میں حکومت کے ساتھ تعاون عمل کریں۔حکومت غلط رخ پر جارہی ہو تو ضرور اس کی مخالفت کی جا سکتی ہے اور سیدھی راہ دکھائی جا سکتی ہے یہ نہیں کہ اچھے کاموں میں موانعات کھڑی کی جائیں یا یہ کہ جا بجا صرف تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن افسوس کہ آج اپوزیشن نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کا کام ہی صرف تنقید کر نا اور حکومت کے منصوبوں کی خواہ وہ ملک و قوم کے حق میں مفید تر ہی کیوں نہ ہوں تنقیص کر ناہے۔

اس طرز فکر و طریقہ عمل نے جمہوریت کو کافی نقصان پہونچایا ہے۔اپوزیشن نے اپنا ایجنڈہ ہی یہ بنالیا ہے کہ حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ کھڑی کی جائے خواہ وہ کتنا ہی اچھا اور مفید کیوں نہ ہو۔ اس سے مقصود ان کا صرف حکومت کو رسوا کرنا ہوتا ہے۔ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کوئی غلطی کر رہی ہو تو اس کا ہاتھ تھاما جائے غلط اقدامات سے اس کو روکا جائے۔ حکومت کو صحیح رخ پر لے چلنے کیلئے اپوزیشن کا کردار جمہوری نظام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ان کا کردار تعمیری ہو۔ تنقید برائے تعمیر ہو نہ کہ تنقید برائے تنقید۔ محض مخالفت کو مقصود بنا کر حقائق سے آنکھ بند کر کے اگر حکو مت کے کاز کو غلط ٹہرایا جائے تو اس سے ملک و قوم کی کوئی خدمت تو نہیں بلکہ بد خدمتی ہو گی ۔حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن کی ہر بات کو مستردنہ کرے بلکہ ان کی تعمیری تنقید کو گوارہ کرے۔ اور ان کی اچھی آراء کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ استقبال کرے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ حقائق سے منہ موڑ کر صرف نفس کی خواہش پر چل کر من مانی کر نے کو موجودہ دور نے سیاست کا نام دیدیا ہے۔اس لئے حکومتیں بھی اپنے ایجنڈہ میںمخلص نہیں ہیں نہ اپوزیشن ۔نتیجہ میں رعایہ مشکلات سے دوچار ہے ، رعایہ کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود قوم و ملک کی ترقی کے بجائے نتائج برعکس حاصل ہو رہے ہیں۔