ڈاکٹر رؤف خیر
خود نوشت بجائے خود اک البم ہوتی ہے جس میں سوانح نگار تو اپنے مختلف ادوار کی تصویروں سے خوش ہوتا ہے مگر دوسروںکے لئے عبرت کے نمونے بھی پیش کرتا ہے ۔ ہر آدمی منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتا اور جو واقعی چاندی کا چمچہ لیکر پیدا ہوتا ہے اس کی خود نوشت ہی کیا ۔ Self made man کی سوانح سے قاری کو حوصلہ مل سکتا ہے ۔ کسی کی سوانح عمری کوئی اور پڑھے نہ پڑھے خود سوانح نگار بار بار پڑھ کر لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ تلذذ کا شکار ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا البم بار بار دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے ۔
محترم سید احمد ایثار کی زندگی جد وجہد سے عبارت ہے ۔ اپنی ابتدائی تعلیم ، ملک میں اور ملک سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا ، شادی ، ملازمت میں ’’سرکاری مسلمانوں کی بے فیضی‘‘ اور غیر مسلم آفیسروں کی بے رخی کی رودادا ، جنگلوں میں پیدل چلنا ، تقریباً تیس پینتیس میل کا پیدل سفر رات بھر کرکے گھر پہنچنا ، ملازمت میں ایک جنگل سے دوسرے جنگل کو تبادلہ ، بعض ضرورت مندوں کی مدد کرنا اور پھر ولایت کا سفر ہوائی جہاز سے ،وہاں تعلیم کے بعد سمندری جہاز کے ذریعے تجربات سے گزرتے ہوئے واپسی وغیرہ وغیرہ امور سے متعلق محترم سید احمد ایثار صاحب نے کھل کر لکھا ہے ۔ ان عبرت آموز واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے کیسے حالات سے موصوف گزرے ۔ محکمہ جنگلات بھی دراصل آب کاری (Excise) بلدیہ ، کسٹم ، ریونیو ، عدالت جیسے محکموں میں سے ہے جہاں ملازم نام کمانے کے لئے نہیں ، بلکہ مال بنانے کے لئے داخل ہوتے ہیں ۔ سید احمد ایثار صاحب جیسے شریف آدمی تو نہ اپنے ماتحتین سے خوش ہوتے ہیں ، نہ اپنے افسران بالا کو خوش کرتے ہیں ۔ یہی ان کی سراغِ زندگی کی روداد ہے ۔ ایک باکردار آدمی کسی بے کردار سے بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے ۔ مگر ایسے آدمی کی خوش کرداری اسے باوقار بناتی ہے ۔ اس کا اپنا مضبوط کردار اسے دوسروں کی نظروں میں سبک ہونے نہیں دیتا اور ہر ایماندار آدمی ایسے صاحب کردار کی قدر کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اور سچ پوچھئے تو یہی خوش کرداری مرد مومن کی کمائی ہے ۔ سید احمدایثار مرد مومن ہیں ۔ جنگل کی زندگی ، دفتری سیاست ، ناگفتہ بہ حالات سے گذرتے ہوئے محترم سید احمد ایثار صاحب نے علامہ اقبال کے فکر و فن سے جو اپنے شغف کو برقرار رکھا ہے وہ قابل داد ہے ۔
اس میں شک نہیں ماہرین اقبالیات ہند و پاک میں بہت ہیں ۔ علامہ اقبال کے فارسی کلام کو اردو میں ڈھالنے والے بھی کئی ہیں ، مگر اقبال کے تمام فارسی شعری مجموعوں کو منظوم اردو میں پیش کرنے کا سہرا صرف اور صرف حضرت سید احمد ایثار ہی کے سر بندھتا ہے ۔ آپ نے اسرار خودی ، رموز بے خودی ، زبور عجم ، جاوید نامہ ، پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ،ارمغان حجاز اور پیام مشرق کا منظوم اردو ترجمہ یکے بعد دیگرے 1979 سے شروع کرکے 1982 میں مکمل کردیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تراجم کی اشاعت مسلسل نہ ہوسکی بلکہ جیسے جیسے موصوف کو سہولت حاصل ہوئی یعنی حسب استطاعت ان کی اشاعت عمل میں آئی ۔ ایثار صاحب کو وظیفے کے بعد 78 ہزار روپے کے بقایا جات حکومت سے حاصل ہوئے تو انھوں نے یہ پوری رقم کتابوں کی اشاعت میں لگادی ۔ موصوف نے نہ صرف اقبال کے ہر فارسی مجموعے کا منظوم اردو ترجمہ کرڈالا بلکہ ہرمجموعے کا ایک مبسوط پیش لفظ بھی لکھا ۔ علامہ اقبال کی کتابوں کے ترجمے کے علاوہ ایثار صاحب نے خیام کی 772 رباعیات ، حافظ شیرازی کی 88 میں سے 33 رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ کرڈالا ۔ ساتھ ہی مثنوی مولانا روم کی پانچ جلدوں کا مکمل منظوم اردو ترجمہ 1992 ء تک مکمل کیا اور چھٹی جلد کے 800 اشعار کا بھی ترجمہ کرکے سانس لی ۔ اس دوران پتہ چلا کہ خیام کی ایک رباعی ایسی بھی نکل آئی جو لفظ نہ لفظ شمس تبریز کی رباعیات میں شامل ہے ۔ اس طرح کے الحاقی کلام سے ہمارا ادب بھرا پڑا ہے ۔ محققین کے لئے یہ بھی ایک دلچسپ میدان ہے تاکہ حق بہ حقدار رسید ہو ۔ وہ مشترکہ رباعی ہے۔
اے زندگی تن و توانم ہمہ تو
جانی و دلی اے دل و جانم ہمہ تو
تو ہستی من شدی از آئی ہمہ من
من نیست شدم در تو ازانم ہمہ تو
سید احمد ایثار صاحب نے ’’سراغ زندگی‘‘ خود نوشت میں تحریر فرمایا ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے فارسی کلام کے تمام فارسی مجموعوں کا یکے بعد دیگرے منظوم اردو ترجمہ کرڈالا اور یہ کارنامہ جناب ایثار نے 1979 سے شروع کرکے 1982 میں تمام کرڈالا تھا ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ’’پیام مشرق‘‘ کے منظوم اردو ترجمے کی اشاعت 1997 میں عمل میں آئی گویا اٹھارہ سال تک یہ کارنامے اشاعت کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔ کتابی شکل میں تو خیر لانے میں سرمایہ و محنت درکار تھی لیکن یہ تراجم مختلف اخبارات و رسائل میں تو گاہے گاہے شائع کروائے جاسکتے تھے ۔ اس طرح ساری اردو دنیا کو اس گوشہ نشین کی بے لوث خدمات کا پتہ تو چل جاتا ۔ رسائل کے ذریعے اقبال کے چاہنے والوں تک ان کی کاوشیں پہنچ جاتیں تو یقیناب داد پاتیں جیسے اب پارہی ہیں ۔ جناب ایثار کی کم آمیزی نے جہاں انھیں گوشۂ گمنامی میں محصور رکھا ، وہیں ان تراجم سے استفادہ کرنے والے باذوق حضرات کو بھی محروم رکھا ۔ یہ دوطرفہ نقصان ادبی دنیا کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں ۔
تراجم تو موصوف نے بڑی دلجمعی کے ساتھ کرڈالے مگر اس کی اشاعت میں کافی پاپڑ بیلنے پڑے ۔ محمد اسمعیل خالد عرفان ، آغا محمود سروش ، مقصود علی خان ، جیسی مخلص شخصیتوں نے ایثار صاحب کی حوصلہ افزائی کی ۔ مقصود علی خان صاحب کی خواہش تھی کہ ’’پیام مشرق‘‘ کے منظوم اردو ترجمے پر کسی شمالی ہند کے صاحب نظر سے مقدمہ لکھوایا جائے ۔ چنانچہ اس دور کے بنگلور کے گورنر خورشید عالم خان صاحب کے ذریعے پروفیسر مسعود حسن خان صاحب کے پاس مسودہ بھیجا گیا جس پر ایک مہینے بعد انہوں نے مقدمہ لکھ کر لوٹایا ۔ دکن کے لکھنے والے اہل شمال سے ہمیشہ مرعوب رہے ہیں ۔ مرزا غالب نے بھی اپنے آپ کو منوانے کے لئے ایک ایرانی عبدالصمد گھڑا تھا بقول خیر
صحیح خیر ہمارا محاورہ ہی سہی
سند ہمیں کسی عبدالصمد سے لانا ہے
پیام مشرق کا منظوم اردو ترجمہ تو ایثار صاحب نے 1982 میں مکمل کردیا تھا مگر خدا خدا کرکے اس کی اشاعت کی نوبت 1997 میں آئی ۔ کتنا اہم کام ہے اور کتنے مراحل سے گزر کر پندرہ سولہ سال بعد منظر عام پر آسکا ، جب کہ کئی ایسے دوسرے یا تیسرے درجے کے شاعر و افسانہ نویس ہیں جن کی کتابیں ہر سال شائع ہورہی ہیں اور غلط بخشی کا یہ عالم ہے کہ ان پرانعامات بھی دئے جارہے ہیں ۔ ان تراجم کے بعد ایثار صاحب نے اپنے طبع زاد کلام پر توجہ دی اور ’’ترانہ و ترنگ‘‘ کے عنوان سے اپنی رباعیات وقطعات سے ہمیں استفادے کا موقع دیا ۔ مترجم بہرحال ایک ثانوی تخلیق کار کی حیثیت رکھتا ہے اس کے باوجود محترم ایثار صاحب نے اسی ثانوی حیثیت کو اولیت دی ۔ یہ بھی ان کا ایثار ہے ۔
’’سراغِ زندگیِ کامیابی‘‘ سے 1436ھ سال برآمد ہوتا ہے ۔ اس خود نوشت میں ایثار صاحب کی زندگی کی کامیابی کا سراغ ملتا ہے ۔ اس میں انھوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوستوں اور بہی خواہوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ کا بھی ناشکرا ہوتا ہے ۔ اس خود نوشت سوانح میں جنگل کا سناٹا تو ہے ہی صندل کی مہک بھی ہے ۔ بقول رؤف خیر
کوئی نشان لگاتے چلو درختوں پر
کہ اس سفر سے تمہیں لوٹ کر بھی آنا ہے