سدارامیا کی بہبودی اسکیمات سیاسی چالوں پر حریف و حلیف دونوں حیران!

اجئے سوکمارن
کرناٹک میں آئندہ ماہ ریاستی اسمبلی الیکشن مقرر ہے اور چیف منسٹر سدارامیا کو یقین ہے کہ وہ اپنے متعدد بہبودی پروجیکٹس کے بل بوتے پر اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ابھی حالیہ دنوں وہ میسور کے دورے پر تھے جہاں حامیوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔ تاریخی شہر میسور میں صبح کے وقت مرطوب موسم تھا، چلنے پھرنے پر پسینہ آرہا تھا۔ تاہم مقامی لوگ چیف منسٹر کی ریلی کے استقبال کیلئے بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ سدارامیا 12 سال کے وقفے کے بعد اسمبلی حلقہ چامندیشوری سے چناؤ لڑرہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو ڈسمبر 2006ء کی یاد دلائی جب بہت سخت ضمنی چناؤ منعقد ہوئے تھے اور کس طرح ووٹروں نے اُن کا ساتھ دیا حالانکہ جنتادل (سکیولر) اور بی جے پی نے ’’مجھے ختم کردینے کیلئے‘‘ باہم اتحاد کیا تھا۔ وہ ضمنی چناؤ سدارامیا نے 257 ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا جو اَب کرناٹک کی سیاست میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف اس لئے نہیں کہ وہ دو سابقہ دوستوں کے درمیان نہایت سخت مقابلہ ہوا، بلکہ اس نے سدارامیا کو دوسری سیاسی اننگز عطا کردی؛ یعنی جنتادل لیڈر سے ہٹ کر نئی سیاسی پہچان بناتے ہوئے کانگریسی بن کر اُبھرے۔ اب چیف منسٹر کی حیثیت سے پانچ سال کے بعد سدارامیا ایک اور مشکل الیکشن میں اپنی پارٹی کی قیادت کررہے ہیں، اور جہاں وہ ثابت قدمی سے اپنے مطلوبہ نشانے کی سمت بڑھ رہے ہیں، وہیں وہ حریفوں کو اپنا مقررہ کام کرنے کی بجائے ردعمل ظاہر کرنے میں اُلجھا رہے ہیں۔
کانگریس کیلئے اب 68 سالہ سدارامیا ناگزیر بن چکے ہیں۔ نقادوں کیلئے چاہے وہ سیاست کے پرانے حریف ہوں یا نئے پچھڑے ہوئے رفقاء دونوں کے تئیں سدارامیا نے سخت موقف اختیار کررکھا ہے۔ جہاں تک مبصرین کا معاملہ ہے، صدر بی جے پی امیت شاہ جن کو ماہر حکمت ساز کے طور پر معروف سمجھا جاتا ہے، وہ بھی کرناٹک میں اپنی پارٹی کیلئے اِس مرتبہ انتخابی مقابلہ ہرگز آسان نہیں پائیں گے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ دیگر جنوبی ریاستوں کے برخلاف یہاں بی جے پی کا طاقتور وجود پایا جاتا ہے۔ سدارامیا کے چالاکی والے اقدامات جو بعض کی نظروں میں جوکھم بھری چالیں ہیں، اس الیکشن کا اہم موضوع ہیں۔ انھیں سیاسی اقدامات کے معاملے جے جیہ للیتااور ممتا بنرجی کا امتزاج کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ انھوں نے وسیع پیمانے پر بہبودی اسکیمات روبہ عمل لاتے ہوئے آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی آنجہانی سربراہ کا انداز اور مقامی لوگوں سے جڑے رہنے کے معاملے میں چیف منسٹر مغربی بنگال کا طرز اختیار کیا ہے۔
سدارامیا کو گزشتہ تین دہوں میں اقتدار کا معقول تجربہ بھی ہوا ہے اور اس لئے وہ اپنے حریفوں کو غیرمتوقع جھٹکے دینے کے معقول گُر بھی جانتے ہیں۔ اس ضمن میں مثالیں پیش کرتا ہوں۔ علاقائی فخر کے متبادل اظہار یعنی کرناٹک اسٹیٹ کا پرچم ہو کہ سیاسی طور پر طاقتور لنگایت کمیونٹی کیلئے مذہبی اقلیت کا درجہ … اس طرح کے معاملوں میں انھوں نے تمام سیاسی حریفوں کو حیرانی میں ڈالا ہے۔ اس لئے بی جے پی انھیں ’ندے رامیا‘ (کنڑا میں ندے کا معنی نیند ہوتے ہیں) پکارتی ہے، اور اس کے سرکردہ قائدین بجٹ شماریات کے ذریعے چیف منسٹر کے بہبودی پروگراموں کے بارے میں دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ سدارامیا کو فرق نہیں پڑتا ہے۔ انھوں نے میسور میں اپنے مخصوص لب و لہجہ میں کہا، ’’اِس مرتبہ میں چامندیشوری کو واپس آیا ہوں اور آپ تمام مجھے جانتے ہو۔ بی جے پی یا جے ڈی (ایس) کو اقتدار حاصل نہیں ہوسکے گا کیونکہ میں نے تمام طبقات کیلئے کام کیا ہے، محض کسی ایک گوشے کیلئے نہیں‘‘۔ ویسے بتا دوں کہ سدارامیا کا ’کوروبا‘ (چرواہے) طبقے سے تعلق ہے۔ پھر ایک بار واضح کردوں کہ سدارامیا کی سیاسی بنیاد اُس 2006ء کے ضمنی چناؤ کے بعد مضبوط ہوئی، جبکہ وہ اپنے سیاسی ناصح ایچ ڈی دیوے گوڑا سے علحدہ ہوگئے تھے، جس کا ظاہری طور پر سبب یہی معلوم ہوا کہ وہ پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں (جو کنڑ میں مخفف AHINDA سے معروف ہے) کا مخلوط بنانے کو ترجیح دے رہے تھے۔ میسور کے ایک کانگریسی عہدہ دار نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ سدارامیا کو اُن کی وزارت اعلیٰ کے ابتدائی سال میں کوروبا سی ایم کہا گیا؛ پھر اگلے تین سال تک اَہندا سی ایم ۔ اب وہ تمام برادریوں کے سی ایم ہیں۔ یہ تبصرہ بجائے خود کئی طرح سے سدارامیا کی خود اپنی پارٹی کے اندرون ترقی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ صرف سات سال قبل تک کسی بھی پارٹی لیڈر کا سی ایم بننا آسان نہیں تھا کیونکہ بہت زیادہ دعوے دار ہوگئے تھے۔ دوسرے یہ کہ کئی کانگریس قائدین نے 2013ء میں تک سدارامیا کو چیف منسٹر کا مضبوط دعوے دار نہیں مانا تھا کیونکہ بیشتر یہی مانتے تھے کہ وہ اپنے مخصوص حلقے کی حد تک مقبولیت رکھتے ہیں۔
وسط 2016ء تک بھی ایک پارٹی کا اعتراف ہے کہ کانگریس میں کئی گوشوں کو اُمید رہی کہ وزارت اعلیٰ میں تبدیلی لائی جائے گی لیکن ایسا ہوا ہی نہیں۔ سدارامیا اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ ایک کانگریس لیڈر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ہنوز انھیں (سدارامیا کو) شاید کانگریس پارٹی ورکرز کے نام معلوم نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ جے ڈی (ایس) ورکرز کے نام (ضرور) جانتے ہیں (اور کانگریس کیلئے اتنا بھی کافی ہے)! کانگریس لیڈر نے ساتھ ہی یہ اعتراف کیا کہ سدارامیا کی پالیسیاں کانگریس کی اس مہم کی طاقت ہیں۔ اوائل 2017ء میں کانگریس نے میسور کے قریب دو ضمنی چناؤ جیتے۔ کئی گوشوں کا ماننا ہے کہ تب سے سدارامیا کی پیشرفت مسلسل جاری ہے۔ تاہم، خود سدارامیا کا کہنا ہے: ’’یہ درست نہیں ہے کہ میں نے اُن ضمنی چناؤ کے بعد زیادہ جارحانہ روِش اختیار کرلی۔ میں تو ہمیشہ فرقہ پرستانہ قوتوں کے خلاف لڑائی کی ہے۔ چیف منسٹر اس موقع پر میسور میں ایک مقامی لیڈر کے گھر بھی گئے اور وہاں کا دیسی کھانا (راگی مودے اور سالن) کھایا۔
جہاں تک اپوزیشن کے نقطہ نظر کا معاملہ ہے، حال ہی میں ایک بی جے پی لیڈر نے سدارامیا کے طرزکارکردگی پر تبصرہ کیا: ’’کوئی چیز کی بہتات ہوجائے تو بہت کچھ خراب ہوتا ہے‘‘ اور نشاندہی کی کہ لنگایت والی سیاسی چال انتخابات میں بی جے پی کی مدد کرے گی۔ امیت شاہ نے حالیہ موقع پر سدارامیا پر ’اَہندا‘ لیڈر نہیں بلکہ ’اَہندو‘ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے جواب میں سدارامیا نے برجستہ کہا، ’’میں ہندو ہوں، مجھے اُن (امیت شاہ) سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی نے دیگر جگہوں پر چناؤ جیتے ہیں، لیکن کرناٹک کا معاملہ مختلف ہے۔ ’’سیاسی شعور یہاں کہیں زیادہ ہے؛ تاریخی طور پر لوگ کثرت پر مبنی سوسائٹی کے تئیں پابند عہد ہیں۔‘‘ تاہم، بی جے پی کا ہار ماننے کا ہرگز ارادہ نہیں۔ چنانچہ خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی نے جوابی مورچہ سنبھالتے ہوئے سدارامیا حکومت پر ’’10 پرسنٹ کمیشن سرکار‘‘ کا طنز کیا۔ چیف منسٹر اسے غیرضروری الزام قرار دیتے ہیں۔ ’’بی جے پی کے پاس کوئی ترقیاتی ایجنڈہ ہے نہیں وہ تو بس خفیہ ایجنڈہ رکھتے ہیں۔‘‘
مجموعی طور پر صرف کرناٹک نہیں بلکہ چامندیشوری میں بھی سخت مقابلہ ہونے جارہا ہے، یہ ریمارک ماویناہلی کے ایک کسان کا ہے جہاں سے سدارامیا کا انتخابی قافلہ گزرا۔ جزوی وجہ یہ ہے کہ 2008ء میں نئی حدبندی کے دوران اسمبلی نشستوں کی نئی ترتیب کے بعد چیف منسٹر اپنے ورونا گاؤں کے پڑوسی حلقہ کو منتقل ہوگئے ہیں۔ اِس مرتبہ اُن کا بیٹا یتھیندر کو ورونا سے کانگریس ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ایک دیگر کسان نے شکایتی انداز میں کہا کہ وہ (سدارامیا) چیف منسٹر بننے کے بعد سے دیہات کو نہیں آئے۔ انھیں کم از کم کچھ عرصہ قبل یہاں (دیہات کے) دورے کرنا چاہئے تھا۔ ویسے مقامی کانگریس ورکرز کا کہنا ہے کہ سدارامیا آسانی سے چامندیشوری میں جیت جائیں گے لیکن وہ بعض منفی باتوں پر کچھ فکرمند ضرور ہیں۔ بہرکیف سدارامیا نے میسور میں اپنی ریلی کو آگے بڑھاتے ہوئے جئے پورہ گاؤں میں ووٹروں کو اپنی حکومت کے پروجکٹوں کی فہرست سنائی جو مکمل ہوچکے ہیں۔ پھر انھوں نے جذباتی اپیل کی: ’’میں نے یہیں سے 1983ء میں میرا سیاسی کریئر آزاد امیدوار کے طور پر شروع کیا تھا۔ اگر میں نے یہاں نہیں جیتا ہوتا تو میں کبھی سی ایم نہیں بن پاتا۔ میں اپنا آخری الیکشن بھی وہی نشست سے لڑنا چاہتا ہوں جہاں سے میں نے شروعات کی تھی۔ اسی لئے میں یہاں آیا ہوں۔‘‘