سحر و افطار کا اہتمام رمضان میں خواتین کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی گھر کی فضاء میں خوشنما تبدیلی آتی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر جانب نور کا دور دورہ ہو ۔ ماحول میں ایک عجیب دل نشین سی خاموشی اور فضاؤں میں انوکھی خوشبو پھیلی ہوتی ہے ‘ ہر چہرے سے عقیدت کے جذبات چھلک رہے ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل اس ماہ مبارک سے مسلمانوں کی حددرجہ عقیدت کا ہی نتیجہ ہے ۔ مسلمان خواتین اور مرد حضرات سب ہی اس مبارک مہینے کے منتظر ہوتے ہیں اور اس کا استقبال دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں ۔ یہ اقدار مسلمانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے ۔ ماہ رمضان کے لئے مسلمانوں کی محبت و عقیدت ہمیشہ ہی بے مثال رہی ہے ۔ ما رمضان میں گھر کی فضاء پر نور بنانے میں خواتین خانہ کا بہت اہم حصہ ہوتا ہے ۔

سحر و افطار کا خصوصی اہتمام کرنا گھر والوں کو سحری کے وقت جگانا ‘ سحری اور افطار کو نفاست کے ساتھ پیش کرنا ‘ بچوں کو نماز اور تلاوت کلام کا پابند بنانا ‘ اس ماہ مبارک میں فضولیات سے دور رہنے کی تلقین کرنا ‘ گھر میں شور شرابے ‘ موسیقی وغیرہ کی سرزنش کرنا ‘ وقت افطار سے پہلے ہی غریبوں تک افطاری پہنچانا ‘ زیادہ سے زیادہ خیرات کرنا ‘ خواتین کے لئے تراویح کا خصوصی انتظام کرنا ‘ اہل محلہ اور رشتہ داروں کو افطار پر مدعو کرنا یہ سب ذمہ داریاں خاتون خانہ ہی ادا کرتی اور اپنی یہ اقدار اپنی بچیوں کو بھی منتقل کرتی ہے ۔ رمضان المبارک میں خواتین کی مصروفیات عام دنوں سے زیادہ ہوجاتی ہیں ۔ اور خواتین اپنی ان مصروفیات کو بہت خوش دلی سے نبھاتی بھی ہیں ۔ اس ایک مہینہ کا انتظار سال بھر سے ہو رہا ہوتا ہے ۔ سحری کے موقع پر خواتین پہلے سے جاگ کر پکوان تیار کرتی ہیں ۔ سب مل کر سحری کرتے ہیں ۔ عصر کے بعد ہی افطاری کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ افطار کے خصوصی پکوانوں میں پکوڑے ‘ کھجوریں‘سموسے کچوریاں ‘ چاٹ ‘ دہی بڑے جیسے آئٹمس ہر گھر میں تیار کئے جاتے ہیں ۔

بچیاں ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر امی کا ہاتھ بٹاتی ہیں ۔ افطار دسترخوان بچھایا جاتا ہے ۔ وقت افطار کا اعلان ہوتا ہے سب گھر والے ہاتھ اٹھا کر دعائے افطار پڑھتے ہیں ۔ افطاری کے بعد نماز مغرب نماز اداکی جاتی ہے ۔ نماز عشاء کا خاص اہتمام ہوتا ہے اور تراویح پڑھی جاتی ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصے میں افطار کے حوالے سے ایک نیا رجحان یہ ہوگیا ہے کہ افطار کا اہتمام گھر سے باہر کیا جاتا ہے ۔ خواتین بھی اس رجحان سے اتنی متاثر ہوتی ہیں کہ وہ ریسٹورنٹ میں افطار ڈنر کرنے پر اصرار کرتی ہیں ۔ بس اسی خیال سے کہ افطار ڈنر تو باہر ہوگا۔ خواتین روزہ سوکر یا ٹیلی ویژن دیکھ کر گزارتی ہیں ۔ یہ روش نئی نسل کو اپنی مذہبی اور ثقافتی اقدار سے دور کرنے کا موجب بن سکتی ہے ۔ خواتین کو اس حوالے سے بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کی آرام پسندی اور ماڈرن لائف اسٹائل کا بھوت ان کے بچوں کو لاپرواہی اور گمراہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔