ستیم کا ستم

ڈاکٹر مجید خان
میں اپنے آپ کو کافی جہاندیدہ شخص سمجھا کرتا تھا ۔ مگر ستیم کمپیوٹرس کا بانی جو دھوکہ دہی کی بدترین مثال پیش کیا اس سے مجھے پتہ چلا کہ کیا شان و شوکت سے لوگ آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑے سے بڑے سرمایہ دار کو بھی کس خوبصورتی سے دھوکہ دیتے ہیں ۔ اس کے نفسیاتی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر غور کرنا چاہوں گا ۔ ستیم کے رام لنگا راجو کے زندگی کے حالات کی تفصیلات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس شخص میں عقل کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگر اس کے ساتھ بیوقوفی بھی ۔ آندھرا کے ایک گاؤں کا غریب لڑکا گریجویٹ ہونے کے بعد ٹیچر بننا چاہتا تھا اس کا ایک دوست تھا جوکمپیوٹر کے کاروبار سے جڑا ہوا تھا بس اس کی دوستی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ترقی کرنے کے مواقع بھی بہت اچھے تھے تو ایک ایسا بین الاقوامی مقام حاصل کیا جس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں ۔

مگر جب ساری انگریزی داں دنیا میں اس کا وقار بڑھنے لگا تو اس کی شخصیت کے اندر چھپی ہوئی خرابیاں ابھری اور وہ حرص و طمع کا شکار ہوگیا ۔ اتنا اچھا کارپوریٹ مقام قائم کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کرنے کی اس کو کیا ضرورت تھی ۔ حیدرآباد کے بے حساب لڑکے اور لڑکیاں ستیم کمپیوٹر میں کام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے ۔ بڑی بڑی تنخواہیں ملا کرتی تھیں جس دن اس کی دھوکہ دہی کا راز فاش ہوا تو اس کے کئی ملازمین دوسرے ممالک میں تھے اور ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ستیم نے گھاٹے کا اعلان کردیا ۔ لوگ جو باہر تھے پریشانی میں آگئے اور ہوٹلوں سے نکال دئے گئے ۔

جیسے ہی حصص بازار میں اس کے حصص کی قیمتیں گری ، ہزاروں لوگ اپنا سرمایہ کھوبیٹھے ۔
آخر اس نے ایسا کیوں کیا ہوگا ؟ اس پر غور کرنا چاہئے ۔ وہ دماغ جو اتنی کامیاب معاشی منصوبہ بندی کرسکتا ہے وہ دھوکہ بازی کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے اور قابل لوگوں کی مکمل حمایت حاصل کرتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی معمہ ہے ۔ اس نے 2000 جھوٹے بینک اکاؤنٹس کھولے اور فرضی ملازمین کی ایک سال کی تنخواہ جمع کردئے اور اپنے مالیہ میں بہت زیادہ فرضی اضافہ دکھائے اور لوگ سرمایہ کاری کرنے لگے اور سب جانتے ہیں انکا کیا حشر ہوا ۔ اس قسم کی اعلی پیمانے پر وسیع دھوکہ دہی جس میں ملک کے انتہائی بھروسہ مند بینک شامل تھے سارے ہندوستان میں ہورہے ہیں جن کی دو اور مشہور مثالیں ہیں کنگ فشر اور سہارا گروپ ۔ جس کا مالک سبرتو رائے ایک سال سے زیادہ تہاڑ جیل میں ہے ۔ یہ ہندوستان کا بہت بارسوخ شخص تھا۔ ہندوستانی حکومت ان بارسوخ سرمایہ داروں کی غلام ہوچکی ہے ۔اس وقت تقریباً دس سال پہلے امریکہ کا معاشی بحران شروع ہوا اور مشہور مالی ادارے بھی پکڑے گئے اور ہندوستان کے خاطی سرمایہ داروں کے وقار کو دھکا پہنچا اور ان کے پورے رسوخ راتوں رات غائب ہوگئے ۔ ایک زمانہ تھا جب ان سے کسی نہ کسی طرح لوگ شناسائی کیلئے تڑپتے تھے ۔ اور اب اس کے دوست بھی یہ نہیں کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس کو جانتے تھے ۔

اس زمانہ کا یہ ماحول تھا ۔ حکومت سیاسی دباؤ کے اندرکام کررہی تھی اور کررہی ہے ۔ کیونکہ سیاستدانوں کو مالیہ کی ضرورت رہی ہے ۔ سرمایہ داروں سے ان کی قربت بڑھتی گئی اور اس کے غیر قانونی کاروبار کو نظر انداز کرنے ہوئے دیانت دار سرکاری عہدیداروں کے تبادلے کئے جاتے ہیں ۔ مگر یہ حالات ابھی بھی جاری ہیں مگر یہ معاملات تو سب لوگ جانتے ہیں مگر میں جب سارے ملک کے حادثات دیکھتا ہوں تو مسائل کچھ سمجھ میں آتے ہیں ۔ ہمارا قانونی نظام ان ملزمین کو مجرمین بنانے تک کافی وقت لیتا ہے ۔ اس نظام میں سرعت لانا ضروری ہے ۔ قانون کا خوف سرمایہ داروں میں تو کیا عام لوگوں میں بھی باقی نہیں رہا ۔ اگر یہ حشر فوجداری کے مقدمات ہوگا تو سیول کورٹس میں کیا جلد سنوائی ہوسکتی ہے ۔ وکلاء اس کے ذمہ دار ہیں ۔ اس کے علاوہ ان بڑے لوگوں میں یہ خوف بھی باقی نہیں رہا کہ سخت سے سخت سزا جیل کی مشقت کے ساتھ دی جاسکتی ہے کیونکہ جیل کی سزا برائے نام ہی ہوتی ہے ۔ رشوت اتنی عام ہیکہ جیلوں میں ہر قسم کی سہولت خریدی جاسکتی ہے ۔ مدراس کے ایک مشہور ہوٹل کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی ہوٹل سے دوپہر کا کھانا سب کو دیا جاتا ہے ۔

سیاستدانوں کی بلیک منی ، کالادھن کی یہ لوگ حفاظت کرتے ہیں اور ان سے اچھی سرمایہ کاری کرتے ہوئے ان کو مالا مال کرتے رہتے ہیں ۔ ملک کے ان حالات میں جہاں سب ایکدوسرے کی جیب گرم کررہے ہیں تو قانون کی نگہبانی کیسے ہوسکے گی ۔ جہاں کہیں سوشیل جہد کار ان کارکردگیوں کو آشکار کرتے ہیں ، ان کو ختم کردیا جاتا ہے ۔
ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ جب کبھی کسی مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو میڈیا تہلکہ مچاتا ہے مگر معاملہ طول کھینچتا ہے ۔
ان حالات میں آپ ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ کچھ نہیں ۔ برداشت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ۔ حکومتیں سیاسی حکومتیں ہوتی ہیں ۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے انتخابات میں جیتنے کیلئے بے حساب مالیہ درکار ہے اور اس میں دینے والوں کو کافی فائدے پہنچانے پڑتے ہیں اور اس میں کالے دھن کا رول بڑا ہے ۔ جب تک عوام اپنے ضمیر کو بیدار نہ کریں گے ، حالات سدھرنے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ ستیم کے ستم جاری رہیں گے ۔ میڈیا ہی سے اب مستقبل کی بہتری کی امید باقی ہے ۔